نمک ہی نمک


’’آہا! نمک ہی نمک!جی! میں ہوں کھیوڑہ کی کان  اور میرے اندر بھرا ہوا ہے نمک ہی نمک! مطلب بہت سارا سفید سفید گلابی گلابی نمک!‘‘

احسن اچھل ہی پڑا۔ یہ باریک سی آواز نہ جانے کہاں سے آرہی تھی۔ وہ اس وقت سکول کی لائبریری میں بیٹھا تھا اور پاکستا ن کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔

’’ہاں!اور زیادہ دور بھی نہیں ہے تمھارے شہر سے احسن! بس ایک دو چالیس کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ اتنا توتم نانو کے گھر جاتے ہوئے بھی سفر کرتے ہی ہو ناں!‘‘

احسن گم صم سا بیٹھا تھا۔ یہ کون تھا جس کو اس کے بارے میں اتنی معلومات تھیں۔ اتنے میں کتاب کے صفحات عجیب سے انداز میں پھڑپھڑائے اور پھر وہی باریک سی آواز گونجی۔

’’کبھی آؤ ناں تم بھی  کھیوڑہ! یقین کرو تمھیں اتنا کچھ دیکھنے کو ملے گا جو تم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔‘‘

’’تم ۔۔تم کون ہو؟‘‘

احسن نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔


’’امم۔۔ میں۔۔ میں نمک کی کان ہوں۔کھیوڑہ مائن!‘‘

جیسے ہی باریک آواز نے یہ الفاظ کہے، احسن کی نظر کتاب کے کھلے صفحے پر پڑی۔ وہ کھیوڑہ مائن کے بارے میں ہی تو پڑھ رہا تھا۔

اب احسن کو سمجھ آگئی۔ یہ کتاب میں سے کھیوڑہ کی کان خود بول رہی تھی۔ احسن اب سنبھل کر بیٹھ گیا اور اس نے کتاب کو اپنے قریب کر لیا اور آہستہ سی آواز میں کھیوڑہ کی کان سے  کہنے لگا۔

’’ہاں تو! اس نمک ہی نمک والی بات  میں کیا خاص بات ہے! نمک تو ہمارے کچن میں ہی پڑا ہوا ہے۔ اور سٹور میں بھی ہے ایک بڑے تھیلے میں۔‘‘ احسن نے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہا۔

’’لگتا ہے تم نے سنا نہیں! میں دنیا کی دوسری بڑی کان ہوں نمک کی۔ میرے اندر اتنا نمک ہے اتنا نمک ہے کہ کہ۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کرنمک کی کان کا سانس پھول گیا۔

’’اچھا! اچھا! ٹھیک ہے۔ لیکن کیا میں ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟‘‘

’’ہاں ! ہاں ! پوچھو! مجھے تم سے باتیں کرنے میں مزہ آرہا ہے۔‘‘ باریک سی آواز گونجی۔

’’لوگوں کو تمھارے بارے میں پتہ کیسے چلا؟ مطلب کان تو زمین کے اندر ہوتی ہے تو تم یعنی نمک یہ کان لوگوں کو کیسے نظر آئی؟‘‘

’’آہا! کیا سوال پوچھا تم نے۔ کیا زمانہ یاد کروا دیا بھئی!  یہ320 قبل مسیح کی کی بات ہے جب ایک بہت بڑا بادشاہ سکندر اعظم اپنی فوجوں کے ساتھ میرے علاقے میں آیا ہوا تھا۔ اب  تم تو جانتے ہو میں ٹھہری نمکین نمکین نمک کی کان تو میری خوشبو سے فوجیوں کے گھوڑوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ بے اختیار میرے پتھر چاٹنے لگے۔ جب فوجیوں کی نظر اپنے گھوڑوں پر پڑی تو و ہ حیران ہوئے کہ یہ گھاس کھانے والے ان کے جانور ان گلابی پتھروں کو کیوں چاٹ رہے ہیں۔جب سکندر تک یہ بات پہنچی تو وہ بھی حیران ہو ا اور اس نے اسی وقت میرے ان گلابی پتھروں پر ریسرچ کرنے کا حکم دے دیا۔ بس یہی وہ وقت تھا جب لوگوں کو معلوم ہونا شروع ہوا کہ کھیوڑہ کے علاقے میں نمک کی اتنی ی ی ی ی  ۔۔۔ بڑی کان موجود ہے! یعنی میں۔۔ اہمم! اہمم!!‘‘

کھیوڑہ مائن کی تصویر سے نکلتی آواز تھوڑی فخریہ سی ہو گئی۔

’’ہاں تو۔۔۔ اچھا! یعنی۔۔ تم۔۔‘‘ حسن  سوچ میں تھا کہ کیا کہے۔

’’کیا کیا ہاں تم لگا رکھی ہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے تم اپنے دوست سے تو بڑی روانی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔‘‘ تصویر ہنستے ہوئے بولی۔

’’نہیں! میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ تم اندر سے کتنی بڑی ہو۔ مطلب تصویر سے تو تم بس ایک چھوٹی سی کان نظر آتی ہو۔‘‘

’’کیا کہا! چھوٹی سی کان!‘‘ کھیوڑہ مائن کی تصویر چلائی۔

’’ارے! آہستہ بولو۔ سر سن لیں گے۔‘‘ حسن  گڑبڑا گیا۔

’’تم نے بات ہی ایسی کی ہے۔ اللہ کے فضل سے میری پوری سترہ یعنی 17 منزلیں ہیں۔ اندر تک نمک جو اب نظر آتا ہے ، وہ ایک انگریز انجنیئرڈاکٹر وارتھ نے کھدائی کروائی تھی۔ اب تک میرے اندر سے لاکھوں ٹن نمک نکالا جا چکا ہے۔ امم! اگر میں تمھیں اپنی exact لمبائی بتاؤں تو۔۔ میں ۔۔ 300 کلومیٹر لمبی، 4 تا 30 کلومیٹر چوڑی اور 2200 تا4900 فٹ اونچی ہوں۔ ‘‘

’’اوہ! اوہ! تم تو۔۔ بہت بڑی ہو۔‘‘ احسن کے منہ سے نکلا۔

’’اللہ کا شکر ہے۔ اللہ نے ہی مجھے بنایا ہے۔ اس زمین پر جتنے بھی تمھیں خزانے نظر آئیں گے وہ سب کے سب اللہ ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اچھا! کیا تم مجھے ملنے آؤ گے! ‘‘

’’آں ہاں! ضرور! ‘‘

’’پتہ ہے ! میرے اندر نمک سے بنی ہوئی بہت پیاری مسجد بھی ہے اور ایک ہسپتال بھی!یہاں بچوں کے جھولے بھی ہیں اور کیفے ٹیریا بھی! مجھے امید ہے تم یہاں آکر بہت خوش ہو گے!‘‘

’’آہا! میں ضرور آؤں گا۱‘‘

’’اچھا! میرا پتہ یاد رکھنا۔ کھیوڑہ مائن۔ ضلع جہلم۔ تحصیل صوبہ پنجاب پنڈ دادن خان۔ میں نمک کی دوسری بڑی کان ہوں۔ میں کھیوڑہ مائن ہوں۔ میں پاکستان کا فخر ہوں۔ میں پاکستان ہوں۔ ‘‘