قسط 2: امی
ناشتے کے برتن اٹھانے لگیں۔ انہوں نے دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح ریحان نے ابھی تک پراٹھے
کے صرف چند نوالے لیے تھے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ ناشتہ کرتا تھا۔
’’ریحان!
تھوڑا تیز کھاؤ بیٹا! دیکھو سب نے ناشتہ کر لیا ہے۔‘‘
امی
نے ٹوکا ۔ لیکن وہ جانتی تھیں کہ ان کی بات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ریحان
ناشتہ کرنے میں کم از کم بھی پون گھنٹا
لگاتا تھا۔
اور
یہی ہوا۔ پون گھنٹے کے بعد ریحان سستی سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ امی
جو برتن دھو کر لاونج میں آبیٹھی تھیں، فورا کہنے لگیں۔
’’ریحان!
دیکھو لان میں دادا ابو نئے پودے لگا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے تمھیں ان کی مدد کرنی
چاہیے۔‘‘
’’ہیں!
پودے! اف! امی مجھے تو مٹی سے الجھن ہوتی ہے۔ ‘‘
’’میں
کچھ نہیں سنوں گی۔ تم پہلے ہی بہت آرام کر چکے ہو۔ اب جاؤ اور لان میں تھوڑی چہل
قدمی کرو۔‘‘ امی اس کی سست طبیعت سے پریشان تھیں۔
چہل
قدمی کا سن کر ہی ریحان کے اوسان خطا ہو گئے۔
’’نن
۔۔ نہیں ! امی ! میں پودوں کی گوڈی ہی کر لیتا ہوں۔‘‘
یہ
کہہ کر وہ سست قدموں سے چلتا ہوا سٹور تک گیا، وہاں سے کھرپی اٹھائی اور لان میں
چلا گیا۔
وہاں
پر دادا جان پہلے سے ایک کھرپی اٹھائے مٹی
میں بیج بو رہے تھے۔
ریحان
بھی کھرپی لے کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ کھرپی سے مٹی کھودتے ہوئے اچانک اس کی نظر بھوری رنگ کی چیونٹی پر پڑی جو
شاید وہاں سے جلد از جلد نکلنے کی کوشش میں تھی۔ اس کا گھر وہیں مٹی کے اندر تھا
اور اب وہ وہاں سے جارہی تھی۔ اس کے منہ میں پتے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی تھا۔
’’دادا
ابو! یہ چیونٹی بھی تو اتنا آہستہ آہستہ چل رہی ہے۔ یہ بھی تو اتنی سست ہے۔ کیا
اس کی امی جان اسے نہیں ڈانٹیتں؟‘‘
دادا
جان ہنس پڑے۔
’’بیٹا!
یہ تو چیونٹی ہے۔ یہ ایسے ہی چلتی ہے۔ ہر کام آہستہ آہستہ کرتی ہے۔‘‘
’’آہ!
تو پھر میں چیونٹی بننا چاہتا ہوں تاکہ امی جان ہر کام کے لیے مجھے ڈانٹا نہ کریں۔
‘‘ ریحان نے منہ بنا تے ہوئے کہا تو دادا ابو مسکرانے لگے۔
’’نہیں!
ریحان بیٹا! اللہ پاک نے ہمیں انسان بنایا ہے۔ ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے۔
چیونٹی کی زندگی تو بہت مشکل ہوتی ہے۔ یہ بہت محنتی اور جفاکش ہوتی ہے۔ ‘‘
’’جی
نہیں! یہ تو بہت مزے سے اپنا کھانالے کر جارہی ہے۔ اس کو سستی سے چلنے اورآہستہ کام کرنے پر کوئی نہیں ڈانٹتا۔میرے خیال میں تو
یہ سارا دن سوتی رہتی ہو گی۔ ‘‘ ریحان نے اداسی سے کہا۔
’’اچھا!
یہ بتاؤ! تمھیں بحری جہاز پر سفر کرنا کیسا لگے گا؟ اور پتہ ہے سفر کے دوران ہم
کبھی کبھی تنگ بھی پڑ جاتے ہیں۔‘‘ دادا ابو نے بات بدل دی۔
’’کیوں؟‘‘
’’اس
لیے کہ ہمیں دور دور تک خشکی نظر نہیں آتی۔ بس پانی ہی پانی۔ تو دل کرتا ہے جلدی
سے ساحل آجائے اور ہم جہاز سے اتر جائیں ۔ اور جانتے ہو کہ جب رات کے وقت سمندر میں لہریں اوپر اٹھتی ہیں تو
کیسا منظر ہوتا ہے؟‘‘
ریحان
دادا ابو کی باتیں غور سے سنتا رہا۔ اسے سمندر کی باتیں سن کر مزہ آرہا تھا۔ وہ
بحری جہاز کا سفر کرنے کے لیے بہت بے تاب ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخروہ
دن بھی آگیا جب ریحان اپنے امی ابو اور دادا جان کے ساتھ بحری جہاز کے عرشے پر
کھڑا تھا۔ ساحل پر خوب رش تھا۔ لوگ آجارہے تھے۔ سامان رکھوایا جارہا تھا۔ بحری
جہاز کے ملازمین نے سفید رنگ کی وردی پہن رکھی تھی جبکہ کپتان اور اوپر کے رینک کے
لوگ گہرے نیلے رنگ کی لباس میں ملبوس تھے۔ بحری جہاز بہت بڑا تھا! ریحان کے تصور
سے بھی بڑا!
’’ابو!
یہ تو پورا شہر لگتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’
جی بیٹا! یہ ایک بڑا بحری جہاز ہے۔ اس میں
جم بھی ہے اور مارکیٹ بھی۔ رہنے کے کمرے بھی ہیں اور تیرنے کے لیے پول بھی!‘‘
’’آہا!
سوئمنگ پول! ابو ! کیا میں اس میں تیر سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں!
بیٹا! آپ کو تیراکی نہیں آتی تو آپ کیسے تیر سکتے ہیں؟‘‘
’’پلیز
ابو! ہو سکتا ہے وہاں بچوں کے لیے بھی ہو جو زیادہ گہرا نہ ہو۔ ‘‘ ریحان نے اصرار
کیا تو امی کہنے لگیں۔
’’اچھا!
دیکھیں گے۔ اگر بچوں کے لیے پول ہوا تو تم ضرور جانا۔‘‘ امی جو اس کی سستی سے
پریشان رہتی تھیں، تیراکی والی بات پر خوش ہو گئیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے
لگیں۔
ریحان
بھی پرجوش تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ کچھ دنوں بعد تیراکی نہ جاننے کے باجود
اسے کئی گھنٹے تیرنا پڑے گا۔ پول میں نہیں
بلکہ خود سمندر میں!