ریحان اور چیونٹیوں کا جزیرہ -1



 (قسط نمبر 1)

’’ریحان! اتنی دیر سے تمھیں اٹھا رہی ہوں۔ اٹھ جاؤ۔ دیکھو دادا ابو آئے ہیں۔‘‘

امی جا ن نے کمرے میں آکر ریحان کا لحاف الٹا۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

’’اوہ! دادا ابو وہ کب آئے؟‘‘

’’کل رات سے آئے ہوئے ہیں۔صبح سے کئی بار تمھارا پوچھ چکے ہیں۔ چلو! اب منہ ہاتھ دھو کر آنا۔ ایسے ہی نہ چلے جانا ان کے پاس۔پتہ ہے ناں پچھلی بار تمھیں دانت صاف نہ کرنے پر کتنی ڈانٹ پڑی تھی۔‘‘

’’جی ! معلوم ہے۔‘‘ ریحان نے جھک کر بیڈ کے نیچے سے چپل نکالتے ہوئے کہا۔

پھر وہ سستی سے اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا۔

امی نے کچن میں آکر دوبارہ آنچ تیز کی، جلدی جلدی ریحان اور اس کے ابو کے لیے پراٹھے بنائے۔ آملیٹ تیار کیا۔ جب وہ چائے انڈیل رہی تھیں تو ان کی نظر گھڑی پر گئی۔ ریحان کو باتھ روم میں گئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔

’’خدایا! ایک تو میں اس لڑکے کی سستی سے بہت تنگ ہوں!‘‘

امی ناشتے کے برتن میز پر لگاتے ہوئے بڑبڑائیں۔

’’کس لڑکے سے!‘‘ دادا ابو نے ان کی بڑبڑاہٹ سن لی تھی۔ وہ قریب ہی صوفے پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگے۔


’’بٹیا! تم کس لڑکے کی بات کر رہی ہو؟‘‘

’’جی ابو! میں ریحان کی بات کر رہی ہوں۔ نہ جانے اتنی سستی کیسے اس کے اندر آگئی ہے۔ سوتا ہے تو سوتا ہی رہتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں۔ کل رات نو بجے آپ کے آنے سے پہلے سو گیا تھا۔ صبح میرے بار بار جگانے پر جاگا اور اب پندرہ بیس منٹ سے باتھ روم میں بند ہے۔ نہ بھاگتا دوڑتا ہے نہ ورزش پر آمادہ ہوتا ہے۔ہر کا م اتنا آہستہ آہستہ کرتا ہے کہ میں تنگ آجاتی ہوں۔‘‘

امی نے دادا ابو کو چائے کا کپ پکڑایا اور ساتھ ہی ساتھ ریحان کی مفصل شکایت بھی گوش گزار کر دی۔ دادا ابو خاموشی سے سنتے رہے۔

’’اچھا! میں اسے سمجھاؤں گا۔ بیٹا! تم پریشان نہ ہو۔ بچے سست ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’میں نے تو ۔۔۔‘‘

امی نے ریحان کو سست قدموں سےلاؤنج میں داخل ہوتے دیکھا تو بات ادھوری چھوڑ دی۔

ریحان آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا۔

’’السلام علیکم داد ا ابو!‘‘

’’وعلیکم السلام میر ابچہ! کیسے ہو۔‘‘ دادا ابو نے غور سے ریحان کو دیکھا۔ اس کے ہونٹوں کے اردگرد ابھی تک ٹوتھ پیسٹ لگی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا اس نے دانت بھی بمشکل صاف کیے ہیں۔

’’جی! ٹھیک ہوں۔‘‘ ریحان نے کہا۔ اس کو نیند آرہی تھی۔ وہ کبھی اتنی صبح نہیں اٹھا تھا۔ آج چھٹی تھی اور چھٹی والے دن تو وہ دوپہر کو سو کر اٹھتا تھا۔

ابو بھی میز پر آچکے تھے۔ سب ناشتہ کرنے لگے۔ اچانک دادا ابو بولے۔

’’اوہ!! میں تم سب کو بتانا بھول گیا! میں جس شپ پر کام کرتا تھا، اس نے مجھے عمرہ کی آفر کی ہے۔ اگر میں شپ کے ذریعے سفر کرتا ہوں تو میں فیملی  ممبرزبھی ساتھ لے کر جاسکتا ہوں۔‘‘

’’کیا واقعی! ‘‘ امی کی آنکھیں تو عمرہ کے نام سے چمکنے لگیں۔

ریحان کے ابو ، خضر  صاحب بھی کہنے لگے۔

’’ابا جان! ہم سب چلنا چاہیں گے۔اس سے بڑی سعادت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔‘‘

’’واہ! کتنا مزہ آئے گا۔ میں نے کبھی بحری جہاز کا سفر نہیں کیا۔ دادا ابو! سمندر بہت بڑا ہوتا ہے ناں!‘‘

ریحان کرسی سے اچھل کر اترا اور دادا ابو کو گلے لگا کر بولا ۔ اسے اپنی ساری سستی بھول گئی تھی۔

’’امی ! سمندر میں طوفان بھی آسکتا ہے ؟‘‘

اچانک ریحان نے پوچھا۔

ریحان نے پوچھا تو امی جو آنکھیں بند کر کے کچھ سوچ رہی تھیں ، چونک  سی گئیں ۔

’’آں ہاں! اللہ بچائے ہر طوفان سے۔لیکن تم کیا سوچ رہےہو بیٹا! ‘‘

’’وہ ۔۔ میں نے ایک نیوز دیکھی تھی جس میں ایک  بہت بڑا بحری جہاز ڈوب گیا تھا۔‘‘

ریحان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خبر ایک دن خود اس کی زندگی کی بہت بڑی حقیقت بننے والی ہے!

’’بیٹا!‘‘ دادا ابو نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور بولے۔

’’طوفان تو خشکی پر بھی آتے رہتے ہیں  تو کیا ہمیں  ان سےپریشان ہو جانا چاہیے؟ نہیں! طوفان اور مشکل کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بہادر اور مضبوط انسان بن کر۔‘‘

یہ کہہ کر دادا ابو نے اسے پیار سےتھپکی دی اور لان میں چلے گئے ۔

 (باقی آئندہ)