جب پھلوں نے باتیں کیں


فاتی اور بلو  کی امی جان کمرےمیں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھ میں پھلوں   کی ایک  چھوٹی سی  سرخ پلیٹ تھی۔
’’ بیٹا! یہ پھل لازمی کھائیں۔ پھل آپ کی صحت کے لیے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ‘‘ امی جان نے پیار سے کہا اور پلیٹ رکھ کر چلی گئیں۔
’’نہیں میں نہیں کھا سکتا۔ مجھے تو پھل اچھے ہی نہیں لگتے۔ ‘‘  دس سالہ بلونے منہ بنا کر کہا۔  نو سالہ فاتی کا دل بھی بالکل نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے پلیٹ کو ڈھک کر رکھ دیا اورلائٹ بند کر کے زیرو کا بلب لگا لیا۔
ابھی ان کی آنکھ لگنے ہی والی تھی  کہ اچانک ایک پتلی سی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’دیکھو تو! ان بچوں  نے تم لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اور تم لوگ کچن میں خوش ہو رہے تھے کہ ابھی ہم فاتی اور بلو کے پاس جائیں گے اور وہ ہمیں مزے مزے سے کھائیں گے۔ ‘‘


فاتی اور بلونے ڈرتے ڈرتے کمبل  میں سے ایک جھری سی بناکر باہر دیکھا۔ یہ آواز سرخ پلیٹ سے آرہی تھی۔
’’لیکن ہو سکتا ہے وہ ہمیں بھول گئے ہوں! ‘‘ یہ سیب کی ننھی سی ایک کاش تھی جو ہمیشہ خوش گمان رہتی تھی۔
’’ہاں فاتی نے ہمیں ایک نظر دیکھا تو تھا۔لیکن  پھر وہ  لائٹ بند کرنے چلی گئی۔ ‘‘ مالٹے کی پھانکیں الجھن کا شکار تھیں۔
’’دیکھو بھئی! اگر بلّونے مجھے  نہیں کھایا   ناں تو یہ اس کی بہت بڑی بے وقوفی ہے۔  کیونکہ میں نے آج دوپہر کو امی جان سے سنا کہ بلّو کو ایتھیلیٹ بننے کا بے حد شوق ہے۔ اور میں تو تمام مشہور ایتھیلیٹس پسندیدہ پھل ہوں کیونکہ میں طاقت اور توانائی کا سرچشمہ ہوں‘‘ کیلے کے لہجے میں فخر تھا۔
تمام پھل اس کو رشک سے دیکھنے لگے۔ لیکن  انار پیچھے کہاں رہ سکتا تھا! وہ بھی فوراً بول پڑا۔
’’اور  بھئی میں تو جنت کا پھل ہوں۔ مجھے اگر فاتی اور بلّو نے نہیں کھایا تو پھر کچھ نہیں کھایا۔ اگر فاتی  میرے سرخ سرخ دانے روز کھاتی تو اس کا ہر وقت پیاس لگنے والا مسئلہ واقعی حل ہو جاتا!‘‘
بس پھر کیا تھا۔ تمام پھلوں کی آوازوں سے فائق کا کمرہ بھر گیا۔
سیب کہ رہا تھا۔ ’’ فاتی اور بلّو ویسے تو ذہین بچےہیں پھر پتہ نہیں وہ مجھے کیوں نہیں کھاتے۔ میں بچوں کے جسم اور دماغ کے لیے صحت کا ضامن ہوں  اور تو اور مجھے کھانے سے ان کے اندر خون کی کبھی کمی نہیں ہو گی۔‘‘
’’ بلّو اگر مجھے کھالے تواس کو کبھی معدے میں تیزابیت نہ ہو۔ دیکھا تھا ناں کل وہ درد کی وجہ سے دوا لے رہا تھا۔‘‘ مالٹے کی ایک پھانک سر نکال کر بولی۔
’’ہاں وہ سکول کی پارٹی میں  چٹ پٹی مرچیلی بریانی  جوکھا آیا تھا۔‘‘ اس کی ہمسائی پھانک نے ہنس کر کہا۔
لیکن اب کریں تو کیا!  ‘‘سرخ پلیٹ بہت دیر کی خاموشی کے بعد بولی۔
’’لگتا ہے یہ دونوں سو گئے ہیں۔ اب ہمیں بھی سو جانا چاہیے۔ ‘‘ انار کے ایک ننھے سے دانے نے جو گلابی سے  کمبل کو اوڑھے بیٹھا تھا،ایک زوردار انگڑائی لیتے ہوئے  کہا ۔
’’ارے تو کیا واقعی فاتی اور بلّو  ہمیں نہیں کھائیں گے؟‘‘ مالٹے کی قاشوں نے اداسی سےپوچھا۔
’’نہیں کیونکہ انہیں پھل اچھے نہیں لگتے۔ ‘‘ کیلا افسردگی سے بولا۔
’’ہمیں پھل اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں پھل اچھے لگتے ہیں۔ امی  ٹھیک کہتی ہیں  یہ ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ‘‘ 
فاتی اور بلّو  نے کمبل کے اندر سے ایک زوردار نعرہ لگایا اور اچھل کر بیٹھ گئے۔
سب پھل  فاتی اور بلّو کے بدلنے سے کتنا خوش تھے، یہ تو گلابی کمبل اوڑھے انار کے ننھے دانے کو  ہی معلوم تھا جو بظاہر تو  اب سوتا معلوم ہوتا تھا لیکن کیلے،  مالٹے کی پھانکوں اور سیب کی قاشوں کی  خوشی بھری سرگوشیاں  بخوبی سن رہا تھا!