کیا سے کیا


ارشد صاحب شادی کے شروع کے دنوں میں تو کچھ لحاظ میں رہے ۔ یعنی گھر آکر پسینے سے بھرے ہوئے کپڑے بدلنا اور صاف ستھرا لباس پہن کر بیوی کے سامنے آنا۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے وہ اپنی پرانی ڈگر پر واپس آگئے۔
ان کی کتابوں کی دکان تھی۔ ہول سیل کا کام کرتے تھے۔ دو ملازم بھی رکھے ہوئے تھےلیکن خود بھی کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔ دکان میں ابھی اے سی نہیں لگا تھا۔ آجکل سکولوں میںداخلے کا سیزن تھا۔سارا دن گاہکوں کا رش لگا رہتا۔
رات کے نو بجے جب ارشد صاحب  گھر میں داخل ہوتے تو انہیں صرف گرما گرم کھانے اور آرام دہ بستر کی طلب ہوتی۔ وہ سارا دن کے پسینے سے بھیگی ہوئی قمیص اتارکے الماری کے ساتھ لٹکاتے ۔ پھر بنیان اور شلوار میں ہی بستر پر نیم دراز ہو جاتے۔


صائمہ یعنی ارشد صاحب کی بیوی  کو ان کی اس عادت سے بڑی چڑ تھی۔  وہ اکثر کوفت سے کہتی۔ ’’کم از کم بنیان ہی بدل کیا کریں۔ سامنے الماری میں دھلی رکھی ہوتی ہے۔ اور یہ ازاربند۔۔۔‘‘ ارشد صاحب کو صائمہ کے الفاظ پر اندر ہی اندر واقعی شرمندگی ہوتی لیکن وہ ان مردوں میں سے تھے جو بیوی کے سامنے  اپنی غلطی ماننا جرم سمجھتے ہیں!
ازاربند کو سنبھالتے ہوئے وہ بازوؤں کے نیچے سے  پیلی ہوتی ہوئی اپنی  بنیان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے اوربڑی ڈھٹائی سے کہتے۔’’تم جاہل کیا سمجھو گی۔ یہ ہماری خاندانی روایت ہے۔ ہم نے تو اپنے ابا کو گھر میں ہمیشہ انہی کپڑوں میں دیکھا ہے۔ ‘‘
ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے۔ ارشد صاحب کےدونوں بچے اب  بڑے  ہو گئے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے ابا کی پسینے سےبھری ہوئی بنیان اور شلوار کے سامنے جھولتے ہوئے ازاربند کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ لیکن صائمہ! کیا اس نے سمجھوتا کر لیا تھا؟  شاید نہیں۔
یہ چند مہینے پہلے کی بات ہے جب صائمہ کے پڑوس میں رہنے والے پٹھانوں نے اپنا گھر خالی کیا اور پشاور چلے گئے۔ ان کے جانے کےکچھ ہی دنوں بعد گھر کرایہ پر لگ گیا۔ نئے پڑوسی آئے تو ہمیشہ کی ملنسار صائمہ نے  سلام دعا کا سوچا۔ 
اگلے دن ٹھنڈی مزیدار کھیر کا باؤل پکڑ ے اس نے بیل بجائی۔
’’کون؟‘‘ ایک مردانہ آواز آئی اور ساتھ ہی دروازہ کھل گیا۔ اگر چہ صائمہ برقعہ میں تھی لیکن پھر بھی گھبرا کر ایک طرف ہو گئی۔
اتنے میں ان صاحب کی بیوی، نادیہ بھی چلی آئی تو صائمہ کی مشکل آسان ہو گئی۔
’’میں یہ پڑوس سے آئی ہوں۔ ‘‘ اس نے ٹھنڈا سا باؤل نادیہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا۔نادیہ  اصرار کر کے اسے گھر کے اندر لے آئی پھر ڈرائینگ روم میں بٹھا کر چلی گئی۔
صائمہ نے  اردگرد کا جائزہ لیا ۔ اچانک شیشے کی دیوار کے اس پاروہی صاحب یعنی نادیہ کے میاں دکھائی دیے۔  نفیس سا کرتہ شلوار اور خوبصورت سی چپل  پہنے وہ  موبائل پر مصروف تھے۔  ہاتھ میں خوبصورت سی گھڑی تھی ۔بال  بھی بڑے سلیقے سے بنائے  گئے تھے۔
’’شاید یہ لوگ کہیں جارہے تھے۔ میں ایسے ہی  آگئی۔‘‘ صائمہ نے کچھ شرمندگی سے سوچا۔ اتنے میں نادیہ کولڈ ڈرنک لے آئی ۔
’’آپ لوگ کہیں جارہے ہیں؟‘‘ صائمہ نے پوچھا۔
’’نہیں تو! آپ آرام سے بیٹھیں ناں۔‘‘ نادیہ نے خوشدلی سے کہا۔
’’اچھا پھر کسی شادی سے آرہے ہیں ناں؟‘‘ اب کی بار صائمہ نے یقین سے کہا۔
نادیہ  نے ایک نظر باہر اپنے شوہر پر ڈالی اور پھر ہنس پڑی۔  
’’مجھے معلوم ہے آپ میرے میاں کو دیکھ کر پوچھ رہی ہیں۔اصل میں یہ ہر وقت گھر میں بھی ایسے ہی تیار رہتے ہیں۔۔۔ میرے لیے!‘‘  اس نے کچھ شرماتے ہوئے بتایا۔   
صائمہ سے کچھ کہا نہ گیا۔وہ بس خالی خالی نظروں سے دیکھتی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نادیہ کو خدا حافظ کہا اور اپنے گھر چلی آئی۔ جہاں میلا کچیلا سا ،  بنیان ، شلوار میں ملبوس ایک شخص اس کا منتظر تھا ۔۔۔  اس کا شوہر ارشد! لیکن یہ اس کاوہ ’’ارشد‘‘ تو نہ تھا جس سے اس نے شادی کی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی  تھاجس کو  اپنی  پسینے سے بھری ہوئی بنیان اورجسم سے آتی ناگوار بو نے کبھی یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ اپنی بیوی  کی نظروں  میں کیا سے کیا ہو چکا ہے۔
..................
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں۔ ’’ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے لیے اسی طرح بن سنور کر رہوں جس طرح میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے لیے بناؤ سنگھار کرے ۔‘‘ ( السنن الكبرى ، كتاب القسم والنشوز ، باب حق المرأة على الرجل)