پنسل کیسے بنتی ہے


پیارے بچو! یہ کہانی ہے ایک سرخ رنگ کی پنسل کی جو ایک بڑے سے جیومٹری باکس میں رہا کرتی تھی۔ یہ جیومٹری باکس راشد کا تھا۔ایک  دن جب اس نے ہوم ورک مکمل کر کے جیومٹری باکس بیگ میں رکھا تو سب چیزیں روز کی طرح آپس میں باتیں کرنے لگیں۔
ربر کہنے لگا۔
’’واہ! راشد کتنی اچھی تصویریں بناتا ہے۔ ‘‘
پیمانہ بولا۔
’’ہاں ہاں میں ساتھ ہی بیٹھاہوا تھا اور دیکھ رہا تھا راشد نے بہت پیارے درخت بنائے تھے۔‘‘
پنسل گھڑ نے بھی بتایا۔
’’جی میں تو نے خود  دیکھا ہے راشد کے پاس درجن بھر رنگ ہیں اور سب کے سب بہت پیارے!‘‘
اچانک سب نے محسوس کیا۔ پنسل خاموش سی تھی۔ وہ نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔
’’بی پنسل! خاموش کیوں ہو! خیر تو ہے !‘‘


ربر نے پوچھا تو پنسل کہنے لگی۔
’’ہاں بس! آج راشد کی بنائی ہوئی تصویر دیکھ کر اپنا پرانا گھر یاد آگیا۔وہ درخت اور وہ جنگل کی ہوا۔ آہ ! کیا دور تھا وہ بھی۔‘‘ پنسل نے یہ کہہ کر ایک ٹھنڈی سانس لی۔
’’کون سا گھر! تم تو شروع سے ہمارے ساتھ ہی ہو ناں! ‘‘ پنسل گھڑ نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’نہیں! دیکھو ناں میں لکڑی سے بنی ہوئی ہوں اور پہلے میں درخت پر رہا کرتی تھی۔ وہی میرا سب سے پہلا گھر ہے۔ پھر ایک دن۔۔‘‘ یہ کہہ کر پنسل خاموش ہو گئی۔ وہ کچھ  سوچ رہی تھی۔
’’بتاؤ ناں! بی پنسل! پھر کیا ہوا؟‘‘ لمبے سے فٹ سے جلدی سے پوچھا۔
’’بس کیا بتاؤں!وہ بہت مزے کے دن ہوتے تھے ۔ ہمارے  درخت پر چڑیوں کا گھونسلہ تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ چوں چوں کرتیں اور دانہ دنکا لینے کے لیے اڑ جاتیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی تو درخت کے پتے ہلنے لگتے ۔ ایک دن کچھ لوگ آئے۔ وہ ہمارے درخت کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے تنے پر کچھ نشان لگائے اور چلے گئے۔ اگلے دن ایک اور شخص درخت کاٹنے کی مشین لیے چلا آیا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا سارا درخت کاٹ ڈالا۔ ‘‘
اتنا کہہ کہ پنسل نے سانس لیا۔ ربر ، فٹ اور پنسل گھڑ سبھی اس کی کہانی غور سے سن رہے تھے۔
’’پھر ہم ایک کارخانے میں پہنچ گئے۔ وہاں کچھ لوگوں نے لکڑی  کے مختلف بلاک بناڈالے۔
 



مجھے درد تو بہت ہوا لیکن میں اتنا جانتی تھی کہ یہ لوگ ضرورمجھ سے کوئی فائدہ مندچیز بنانے والے ہیں۔ پھر انہوں نے ان تختوں کو  سلیٹ میں تبدیل کر دیا۔

Description: PencilSlats 







ان  سلیٹوں کو ان لوگوں نے بہت پالش کیا حتیٰ کہ وہ چمکنے لگیں۔ پھر یہ ایک پنسل بنانے والی فیکٹری کو بھیج دی گئیں۔ یہاں ان سلیٹوں میں لمبی لمبی نالیاں سی بنائی گئیں۔ پھر ان میں  سیاہ رنگ کا سیسہ ڈالاگیا جس سے سکہ بنتا ہے اور  جو لکھنے کے کام آتا ہے۔











پھر ایک اور سلیٹ جس میں اسی طرح کی نالیاں کھدی ہوئی تھیں ، اس کو پہلی سلیٹ پر الٹا رکھ کر مضبوطی سے جوڑ دیا گیا۔













پھر ان سلیٹوں کو پنسل کی شکل دینے کے لیے  چھ کونوں والے  سانچے سے گزارا گیا۔ اس سانچے نے ہر پلیٹ کو کئی پنسلوں میں بدل دیا۔ اب ان  پر رنگ ہونا باقی تھا۔
 






آخر میں ان پنسلوں پر مختلف رنگ کیے گئے ۔ سیاہ سبز نیلا سرخ اور نارنجی۔ پھر مختلف دکانوں والے آئے ۔ مجھے اور میری جیسی کئی پنسلوں کو لے گئے۔ ہاں! میں نے کئی مہینے ایک بڑی سی دکان کے شوکیس میں بھی گزارے ہیں۔
 









اور ایک دن راشد آیا ۔ اس نے مجھے دیکھا اور ہاتھ میں اٹھا لیا۔ اسے میں بہت پسند آئی تھی۔ اس نے دکاندارکو میری قیمت ادا کی اور اپنے گھر لے آیا۔ تب سے میں تم سب کے ساتھ یہاں موجود ہوں۔ ‘‘
یہ کہہ کر پنسل نے سب کو دیکھا۔ پنسل گھڑ  گہری نیند سو رہا تھا۔ ربر اور فٹ بھی خراٹے لے رہے تھے۔ پنسل نے بھی اٹھ کر جیومٹری باکس کی زپ بند کی اور اپنی جگہ پر لیٹ گئی۔ وہ سوچ رہی تھی پتہ نہیں ان سب نے میری کہانی پوری سنی ہے یا نہیں۔ پنسل کو نہیں معلوم تھا راشد نے اس کی کہانی ساری کی ساری سن لی تھی!