ایک بار پھر عید


’’فاتی!  تمھارے پاس کتنی عیدی اکھٹی ہوئی؟‘‘ بارہ  سالہ بلو نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’میرے پاس کل ملا کر 1ہزار۔ ‘‘ دس سالہ فاتی نے بتایا۔ ’’اور تمھارے پاس؟‘‘
’’میرے پاس بھی 8 سو ہیں۔ لیکن یہ کم ہیں۔ ‘‘ بلو کچھ اداس ہو گیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ فاتی نے پوچھا۔
’’بس ایسے ہی! میں ایک بات سوچ رہا تھا...‘‘  یہ کہ کر بلو نے فاتی کو اپنا پلان سنایا۔
’’اوہ! یہ بات ہے! ‘‘ فاتی کچھ سوچ میں پر گئی۔
..............................   
اس عید پر جب بلو کا بچپن دوست سلیم عید مل کر جانے لگا  تو اس کی نظر گیٹ کے ساتھ کھڑی ایک خوبصورت سی سائیکل پر پڑی۔


’’یہ کس کی سائیکل ہے؟‘‘
’’یہ میری سائیکل ہے سلیم۔ اچھی ہے ناں!‘‘ بلو نے  مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں ! بہت اچھی! ‘‘ سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
..................
’’کاش میں بھی بلو کے جیسے بائیسکل  لے سکتا۔ لیکن میرے پاس کبھی اتنے پیسے اکھٹے نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ سلیم کے لہجے میں اداسی گھلی ہو ئی تھی۔ وہ اپنی امی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔
’’بیٹا! مایوس نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ  ان شاء اللہ آپ کو بہت اچھی سائیکل لے دیں گے۔‘‘ سلیم کی امی نے اسے تسلی دی۔
’’لیکن کب امی! یہ بات تو آپ اتنے سالوں سے کہتی آرہی ہیں۔ میرا بہت دل کرتا ہے ایک نئی بائیسکل لینے کو۔بس میں کل سے سکول کا جیب خرچ نہیں کھاؤں گا۔ اور بچت کر کے ضرور سائیکل لوں گا۔‘‘ سلیم کے لہجے میں عزم تھا ۔  امی نے کہا۔
’’بیٹا! آپ کا جیب خرچ  تو بہت تھوڑا سا ہے ۔ اور نئی بائیسکل بہت مہنگی آتی ہے۔ میں کل بشیر سائیکل والے سے بات کروں گی۔ ہو سکتا ہے اس کے پاس کوئی پرانی سائیکل آئی ہو۔ ‘‘ سلیم کی امی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! امی جان ! میں تو نئی سائیکل لوں گا۔ پرانی نہیں چاہیے ۔بس آپ فکر نہ کریں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سلیم کمرے سے چلا گیا ۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ کمرے کی کھلی کھڑکی سے ان کی ساری گفتگو بلو سن چکا تھا جو باہر گلی میں سائیکل چلا رہا تھا۔
بلو نے سائیکل روک دی۔ اس کا نرم دل پریشان ہو چکا تھا۔وہ  وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا  اور اسی وقت ایک پلان ترتیب دے دیا۔
...................
 ’’دیکھو! ہمارے پاس جیب خرچ بھی تو موجود ہے ناں!‘‘ فاتی نے یکدم پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت قریبی پارک میں ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’ہاں! یہ خیال تو مجھے آیا ہی نہیں! چلو گھر چل کر ساری رقم اکھٹی کرتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ ہمارے پلان  کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘‘ بلو خوش ہو گیا۔
دونوں جلدی جلدی گھر آئے اور اپنے اپنے جیب خرچ کے گلے توڑ ڈالے۔ پھر انہوں نے رقم گن تو لی لیکن اندازہ نہ ہو سکا کہ اس سے ان کا مقصد پورا ہو سکتا ہے یا نہیں۔
...................
’’امی جان! یہ رقم  ہم دونوں نے اکھٹی کی ہے۔ آپ بتائیں اس کی بائیسکل آسکتی ہے یا نہیں ؟‘‘ فاتی نے امی کے ہاتھ میں پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’ارے! آپ دونوں کے پاس تو اتنی پیاری بائیسکل ہے۔ پھر نئی لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ امی نے رقم گنتے ہوئے کہا۔ پھر وہ بولیں۔
’’نہیں! ہاں اگر مزید کچھ پیسے ہو جائیں تو پھ بہت اچھی بائیسکل آسکتی ہے۔ ‘‘ یہ سن کر فاتی اور بلو بہت اداس ہو گئے۔
امی جان نے پوچھا لیکن دونوں ٹال گئے اور پھر کھیلنے کے لیے باہر چلے گئے۔
........................
’’فاتی ، بلو! کہاں ہو ؟ دیکھو میں آپ دونوں کے لیے کیا لایا ہوں؟‘‘ یہ دادا ابا تھے جو ہمیشہ کی طرح گھر آتے ہی دونوں کو آواز دے رہے تھے۔
فاتی اور بلو جلدی سے کمرے سے نکل کر آئے  اور دادا جان کے ہاتھ سے پھلوں کے شاپر لے لیے۔
’’ہمم! آپ لوگ اداس سے لگ رہے ہیں۔ کیا بات ہے۔ ‘‘ دادا ابا نے بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے ان کے چہروں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ فاتی اور بلو نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔ دادا ابا شروع سے ان کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اس لیے وہ کوئی بات ان سے نہیں چھپاتے تھے۔
’’دادا ابا! ہم نے عیدی اور جیب خرچ کے پیسے اکھٹے کیے تا کہ ہم سلیم کے لیے ایک بائیسکل خرید سکیں۔ لیکن۔۔‘‘ اتنا کہتے کہتے بلو کے آنسو ٹپک پڑے۔
’’دادا ابا ! ہمارے پاس ابھی بھی کل ملا کے پیسے تھوڑے بنتے ہیں اور ایک اچھی بائیسکل تو بہت مہنگی آتی ہے۔ ‘‘ فاتی نے بھی اداسی سے بتایا۔
’’ارے میرے بچو! اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کے پاس جتنے پیسے ہیں لے آئیں ۔ میں بھی ان میں اپنا حصہ ڈالتا ہوں۔  آخر سلیم میاں ہمارے بھی تو پڑوسی ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمیں یہ خیال کیوں نہ آیا! اللہ آپ دونوں کو خوش رکھے! ‘‘
..................
اگلی صبح فاتی اور بلو سلیم کے گھر گئے۔ ایک نئی سرخ بائیسکل انہوں نے ایک دیوار کی اوٹ میں  چھپا رکھی تھی۔
’’السلام علیکم ! سلیم ! تمھارے لیے  ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ بلو نے کہا۔ 
’’وعلیکم السلام ! بھلا وہ کیا؟‘‘ سلیم نے  مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ دیکھو! یہ بائیسکل ہماری طرف سے تمھارے لیے گفٹ ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے بلونے دیوار کی اوٹ سے نئی بائیسکل نکال کر اس کے سامنے کھڑی کر دی۔
’’یہ کیا! کیا یہ میرے لیے ہے؟‘‘ سلیم کے لہجے میں نے یقینی تھی۔
’’ہاں! ہم نے سوچا تمھیں عید کا تحفہ دیتے ہیں۔ ‘‘ بلو نے کہا۔
’’لیکن ہم کچھ لیٹ ہو گئے!  ‘‘ فاتی نے ہنستے ہوئے کہا۔
اور اگر چہ  عید کو گزرے کئی دن ہو چکے تھے لیکن سلیم کو لگا آج ایک  بار پھر عید ہو گئی ہے!