میلو چوہا اور ببلو ہاتھی


میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے چوہے میلو کی جو بہت طاقتور بننا چاہتا تھا۔ ایک دن اس کی امی کیک کا ایک بڑا ٹکڑا گھر لائیں اور الماری میں رکھ دیا۔ میلو نے الماری کھولی تو کیک کی خوشبو سارے کمرے میں پھیل گئی۔ اس نے کرسی پر چڑھ کر کیک کی پلیٹ اتار لی اور جلدی جلدی سارا کیک کھا گیا۔ جب امی کمرے میں آئیں تو حیران رہ گئیں۔
’’ارے میلو! تم نے سارا ٹکڑا کیسے کھالیا؟‘‘
’’امی جان! میں ببلوہاتھی کی طرح موٹا  اور طاقتور ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘ میلو نے  بستر پر لیٹے لیٹے آہستہ آواز میں کہا۔ اس نے اتنا کھا لیا تھا کہ اب اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
امی جان ہنس پڑیں اور کہنے لگیں۔’’پیارے بیٹے۔ تم ببلو جتنے نہیں ہو سکتے۔ وہ تو ہاتھی میاں کا بیٹا ہے۔‘‘
پھر ہر روز یہی ہونے لگا۔ میلو ایک  وقت میں بہت سارا کھانا کھاجاتا ۔ اس کا پیٹ بہت  بڑا اور ٹانگیں موٹی موٹی ہو گئی تھیں۔
ایک دن میلو کا کزن ٹیلو اس کے گھر آیا۔


’’ٹھک ٹھک ! مجھے میلو سے ملنا ہے۔ کیا یہ میلو کا گھر ہے؟‘‘
’’ٹیلو! تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں میلو ہوں ۔‘‘  میلو نے خوشی سے کہا۔
’’اوہ!! تم اتنے موٹے ہو گئے ہو۔ تم  بدلے ہوئے لگ رہے ہو ۔‘‘ ٹیلو نے ہنستے ہوئے کہا تو میلو کو غصہ آنے لگا۔
’’جی نہیں۔ میں موٹا نہیں ہوا ۔میں طاقتور ہو گیا ہوں۔ دیکھو میری صحت کتنی اچھی ہے پہلے سے۔ ‘‘ یہ کہہ کر میلو نے شرٹ اوپر کر کے اپنے بازو دکھائے۔
’’اچھا! یہ بات ہے۔ تو پھر آؤ ہم بھاگنے کا مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘ ٹیلو نے جوش سے کہا اور اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’بھ۔۔ بھاگنے کا۔   ٹھیک ہے۔ چلو!‘‘ میلو پہلے کچھ پریشان ہوا پھر وہ بھی  مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’ایک دو تین! بھاگو!‘‘ یہ کہہ کر ٹیلو نے دوڑ لگا دی۔ کچھ دور جا کر اسے ایسے لگا جیسے وہ اکیلا دوڑ رہا ہو۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میلو آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آرہا تھا۔ اس کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔
’’نہیں نہیں! یہ تو میں نہیں کر سکتا۔ اچھا پنجہ لڑاتے ہیں۔‘‘ میلو نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے کہا اور وہیں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ٹیلو نے کہا اور اس نے میلو کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔  کچھ ہی لمحوں بعد ٹیلو جیت چکا تھا اور میلو اپنا ہاتھ مل رہا تھا۔ اسے بہت درد ہو رہا تھا۔
ابھی وہ وہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آواز آئی۔
’’میاؤں میاؤں! واہ اتنا موٹا تازہ چوہا !‘‘ یہ ایک بڑی سی بلی تھی جو میلو کو دیکھ کر بھاگتی  ہوئی آرہی تھی۔
’’میلو !جلدی آؤ اس سوراخ میں گھس جاؤ۔‘‘ ٹیلو جلدی سے بھاگ کر پتھر کے اندر بنے ایک چھوٹے سے سوراخ میں چھپ گیا تھا اور اب میلو کو آواز لگا رہا تھا۔ میلو نے بہت کوشش کی کہ وہ بھی اندر آسکے لیکن اس کے موٹے پیٹ  اور موٹی ٹانگوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ قریب تھا کہ بلی اسے پکڑ لیتی کہ نہ جانے کہاں سے ببلو ہاتھی آگیا اور اس نے بلی کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔
’’شکریہ ببلو میاں۔ آپ نہ آتے تو بلی مجھے کھا جاتی۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔ پہلے تو میں ایسا نہیں تھا۔ شاید مجھے اور طاقت کی ضرورت ہے اور مجھے اور زیادہ کھانا کھانا چاہیے۔مجھے آ پ جیسا بننا ہے۔‘‘ میلو بہت اداسی سے کہہ رہا تھا۔
’’ پیارے میلو! زیادہ کھانے سے طاقت نہیں آتی۔ صاف ستھرا کھانے اور ورزش کرنے سے طاقت آتی ہے۔ آپ کو پھرتیلا اور صحت مند ہونا چاہیے۔ اور آپ میرے جیسے نہیں ہو سکتے۔ میں آپ کا دوست تو ہوں لیکن آپ سے بڑااور مختلف ہوں۔‘‘ ببلو ہاتھی  نےمیلو کو سمجھایا تو اسے ساری بات سمجھ آگئی۔
میرے بچو! اگر آپ کبھی جنگل جائیں تو ایک ننھے سے چوہے کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے جو ببلو ہاتھی کی سونڈ پر چڑھ کرگھاس پر چھلانگیں لگارہاہے۔ یہ میلو ہے۔ میلو حسب ضرورت کھانا کھاتا ہے اور خوب ورزش کرتا ہے۔ آپ میلو کو میری طرف سے شاباش ضرور دیں ورنہ وہ ناراض ہو جائے گا!