مانی شانی نے ٹیلیفون کیا


آج سکول سے مانی اور شانی کی تیسری چھٹی تھی۔دونوں کو کئی دن سے بخار تھا۔
’’ایسا کرتے ہیں ریحان کو فون کر کے سارا کام پوچھ لیتے ہیں ۔پھر ابو جان سے سمجھ لیں گے۔‘‘ مانی نے کہا۔
’’ہاں ہا ں ٹھیک ہے۔‘‘ شانی پر جوش ہو کر اٹھ بیٹھا۔ ریحان کو فون کرنے کا آئیڈیا اسے بہت پسند آیا تھا۔
 جب امی جان نے سنا تو وہ کہنے لگیں۔
’’ٹھیک ہے کر لو۔ زیادہ دیر بات نہ کرنا۔ ‘‘ یہ کہہ کر امی نے موبائل شانی کو پکڑایا اور منی کے لیے ہوئے کمرے میں چلی گئیں۔
شانی نے ڈائری سے دیکھ کر نمبر ملایا۔پانچویں بیل پر کسی نے فون اٹھا لیا۔  شانی نے سپیکر آن کر دیا اور کہا۔
’’ہیلو! ریحان سے بات کرا دیں۔‘‘
’’ہائیں ہائیں کون ریحان!! واہ ۔ نہ سلام نہ دعا۔ ریحان سے بات کرا دیں۔ رانگ نمبر ۔‘‘ دوسری طرف سے ناگوار لہجے میں جواب دے کر فون رکھ دیا گیا۔


دونوں ہکا بکا رہ گئے۔
پھر  مانی نے کہا ۔’’دوبارہ نمبر ڈائل کرتے ہیں۔ ہم نے غلط نمبر ملا دیا تھا۔‘‘
اس بار انہوں نے اچھی طرح دیکھ  کر نمبر ملایا۔  فوراً ہی فون اٹھا لیا گیا۔
’’ السلام علیکم۔ ریحان سے بات کر ادیں۔‘‘ اس بار مانی بات کر رہا تھا۔
دوسری جانب ریحان کی امی تھیں۔
’’اچھا بیٹا ! آپ مانی ہو ناں۔ ‘‘ آنٹی نے پوچھا تو مانی نے  زور و شور سےسر ہلا دیا۔
’’بیٹا آپ ریحان کے دوست مانی ہو ؟‘‘ آنٹی نے دوبارہ پوچھا تو مانی نے دوبارہ سر ہلانا چاہا پھر اسے خیال آیا ۔ اوہ!  آنٹی مجھے دیکھ تو نہیں سکتیں پھر وہ جلدی سے بولا۔  
’’جی جی آنٹی میں مانی ہوں۔ میں نے اس سے سکول کا کام پوچھنا ہے۔‘‘
’’بیٹا ریحان تو نہا رہا ہے۔ آپ تھوڑی دیر بعد فون کر لو۔‘‘ آنٹی نے کہا تو مانی نے جی اچھا کہہ کر کال کاٹ دی۔
پانچ منٹ گزرگئے تو شانی کہنے لگا۔’’چلو فون ملاتے ہیں۔ کیا پتہ ریحان نہا چکا ہو۔‘‘
’’ویسے تو ابھی صرف پانچ منٹ ہوئے ہیں۔لیکن۔۔ اچھا چلو۔‘‘ مانی نے کچھ شش و پنچ سے کہا اور دوبارہ کال ملانے لگا۔
اس بار بھی آنٹی نے فون اٹھایا  اوربتایا کہ ریحان ابھی واش روم میں ہی ہے۔ پھرانہوں نے آدھے گھنٹے بعد فون کرنے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانی شانی نے بہت مشکل سے بیس منٹ ہی صبر کیااور پھر سے کال ملا دی۔
اس بار ریحان کی  چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’آہا! مانی شانی! کیسے ہو تم۔ صحیح بتاؤ تم مانی ہو شانی؟‘‘ ریحان ہیلو کرتے ہی بولنا شروع ہو گیا تھا۔
’’میں مانی ہی ہوں ۔ جی ہاں۔ شانی تو میرے سامنے بیٹھا ہے۔‘‘ مانی نے منہ بنا کر کہا۔
’’اچھا تم لوگ سکول نہیں آرہے تین دن سے۔ اور پتہ ہے کل سائنس کا ٹیسٹ بھی ہے۔ سر نے کہا ہے کہ اس کے نمبر سہ ماہی امتحان میں شامل ہوں گے۔‘‘ ریحان نے بتایا۔
’’اچھا! اوہ!‘‘ مانی شانی دونوں پریشان ہو گئے۔ مانی نے سپیکر آن کر رکھا تھا جس سے ریحان کی آواز دونوں سن سکتے تھے۔
’’چلو تم بتا دو کون کون سے چیپٹر آرہے ہیں۔ ہم ابو جان سے سمجھ لیں گے۔‘‘ اب کی بار شانی نے کہا۔
’’بس دو ہی ہیں۔ پہلاہے۔۔۔۔۔‘‘ جیسے ہی ریحان چیپٹر کے نام بتانے لگا ، شانی کے کندھے پر بیٹھامٹھویکدم  بولنے لگا۔
’’مٹھو چوری ۔۔ چوری کھائےگا۔ٹیں ٹیں!  چوری کھائے گا۔ مٹھو چوری  کھائے گا۔‘‘  
ادھر ریحان اپنی بات کہے جارہا تھا۔
’’ایک منٹ ریحان۔ ہیں کیا کہا ۔ آواز نہیں آرہی۔ ٹھہرو۔ مانی  تم مٹھو کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے جاؤ۔ میں کام پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘ شانی نے کہا تو مانی اڑ گیا۔
’’کیوں کیوں؟ تم جاؤ دوسرے کمرے میں۔ میں تو یہیں رہوں گا۔ اتنا مزہ آرہا ہے ریحان سے بات کر کے۔‘‘
’’نہیں تم جاؤ۔میں کام پوچھوں گا۔‘‘
’’جی نہیں۔میں پوچھوں گا۔‘‘
دونوں نے کال کے دوران ہی لڑنا شروع کر دیا ۔ ریحان پہلے تو ہیلو ہیلو کرتا رہا لیکن اسے مٹھو اور شانی مانی کی آوازیں سب مکس ہو کر سنائی دے رہی تھیں۔ تنگ آکر اس نے کال کاٹ دی۔
جب تک امی کمرے میں آئیں دونوں گھتم گھتا ہو چکے تھے۔ امی نے آکر دونوں کو الگ کیا اور ساری بات پوچھی۔ پھر خوب ڈانٹ پلائی۔
’’اب کوئی فون نہیں کرے گا ۔ویسےبھی تم لوگ کل سے سکول جا رہے ہو تو جو کام ہے صبح جا کر پوچھ لینا۔‘‘ امی نے فیصلہ سنایا تو دونوں کے منہ لٹک گئے۔
’’امی وہ! کل ٹیسٹ ہے اور۔۔‘‘ مانی کہتے کہتے روہانسا ہو گیا۔
’’اس کے نمبر سہ ماہی امتحان میں شامل ہوں گے اور ہمیں وہ ٹیسٹ نہیں آتا۔ ‘‘ شانی بھی پریشان تھا۔
’’اچھا ۔ ہمم۔ ٹھیک ہے۔ اب کی بار کل ملاؤ اور جلدی سے چیپٹرز پوچھ کر کال بند کردو۔ کوئی فالتو بات نہیں کرنی۔ پہلے  اتنی کالیں ہو گئیں نہ جانے کتنا بیلنس رہ گیا ہو گا اب۔ ‘‘ امی کے لہجے میں ناراضگی تھی۔
پھر دونوں نے ایسا ہی کیا۔ ریحان جلدی کال بند کرنے کی وجہ پوچھتا رہ گیا لیکن مانی نے کل سکول میں بتانے کا کہہ کر فون بند دیا۔ شام کو ابو جان آئے تو انہوں نے دونوں چیپٹر اچھی طرح سمجھا دیے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو مانی شانی دادی جان کے ساتھ لیٹے سارے دن کی روداد سنا رہے تھے۔ جب ریحان کو فون کرنے کی بات آئی تو دادی جان مسکرانے لگیں۔
’’ہاں مجھے بہو نے بتایا ہے۔ دیکھو میرے بچو! فون کرنے کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ پہلے تو ہمیں میسج کرکے پوچھنا چاہیے کہ آیا آپ فارغ ہیں یا نہیں۔ ہم آپ سے کچھ اہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ جواب دے تو کال کرو وگرنہ کال کرکے اسے تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر ہمیں اچھی طرح دیکھ بھال کر نمبر ملانا چاہیے۔ انجان نمبر ملا نا تو اچھی بات نہیں۔ اور آپ دونوں لڑ پڑے۔دیکھو ریحان کو کتنی الجھن ہوئی ہو گی۔جھگڑنے کی وجہ سے  تو کام بھی نہیں پوچھا گیا اورامی کا بیلنس الگ ضائع ہوا ۔ اچھے بچے کال کے دوران واضح انداز میں بات کرتے ہیں اور لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ ٹھیک؟‘‘ دادی جان نے دونوں کے بال پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی دادی جان !! بالکل ٹھیک۔ ‘‘ مانی  شانی نے ایک آواز میں کہا اور سوچنے لگے۔ مٹھو کو ہر وقت لگنے والی بھوک کا کیا علاج کیا جائے!