رب سوہنے کا لاکھ شکر


پتہ نہیں کیوں لوگ ہر وقت مایوسی
کی باتیں کرتے ہیں۔
ناشکری اور ناامیدی کی۔
مجھے تو اپنی ذات سے لے کر اپنے گھر تک
اور اپنے اسٹاپ سے لے کر اپنے آفس تک
ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی
بلکہ میں قدم قدم پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
ابھی کل کے دن کو لے لیں۔
میں ایک سرکاری دفتر میں
چھوٹا سا کلرک ہوں اور
میری ایک ٹانگ لکڑی کی ہے تو
مجھے اسٹک کے سہارے چلنا پڑتا ہے۔


خیر چل تو میں لیتا ہوں پر ہائی ایس میں
بیٹھنا ایک اچھا خاصا مشکل کام ہے۔
لیکن اللہ سوہنے کا شکر کس منہ سے ادا کروں
میرے اسٹاپ والی ہائی ایس کا کلینر روز
مجھے سہارا دے کر بٹھاتا ہے۔

صبح کی سنہری دھوپ میں
سیدھی سپاٹ سڑک کتنی اچھی لگتی ہے۔۔
اچھا چلیں کہیں کہیں سے
ٹوٹی ہوئی بھی ہے لیکن میں کون سا تانگے پر ہوتا ہوں۔ اتنی آرام دہ سیٹ پر بیٹھا چلا جارہا ہوتا ہوں
اور یہ بھلا کوئی ناشکری کی بات کیسے ہو سکتی ہے۔
پھر میں آفس پہنچتا ہوں تو چوکیدار
مجھے مسکرا کر سلام کرتا ہے۔
میں بھی مسکرا کر جواب دیتا ہوں۔
پھر مجھے لفٹ ہمیشہ ہی مل جاتی ہے۔
اللہ سوہنے کا کتنا شکر ہے کہ مجھے ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ سیڑھیاں نہیں چڑھنی پڑتیں۔

ایک کلرک کی تنخواہ میں سے
روز روز کا
اوبر اور کریم کا کرایہ نہیں نکل  سکتا
لیکن ایک بار جب میری ٹانگ
کا درد ناقابل برداشت ہوا تھا
تو مجھے ہسپتال جانے کے لیے
کریم ٹیکسی کروانی پڑی تھی
واہ واہ صاف ستھری نئی نویلی گاڑی
اور اس کا ڈرائیور مجھے سر کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔
پھر کرایہ بھی انتہائی مناسب تھا۔
تو یہ کتنی پیاری بات ہے۔
اللہ کا کتنا شکر ہے اور اس کا کتنا کرم ہے میرے پر۔

راستے میں سڑک کے ساتھ ساتھ اگے ہوئے
جو درخت ہیں وہ ہوا سے لہلہا رہے ہوتے ہیں۔
آہا روز میری آنکھوں کو سبز سبز پتوں
اور اونچے اونچے پیڑوں سے کتنی تراوٹ ملتی ہے۔
یہ اللہ کا فضل نہیں تو اور کیا ہے۔

جب میں گھر جاتا ہوں
تو میری چار سال کی بیٹی دوڑ کر آتی ہے
اور مری دائیں ٹانگ سے لپٹ جاتی ہے۔
میری پیاری بیوی نے اسے
اچھی طرح سمجھا رکھا ہے کہ
پاپا کی بائیں ٹانگ کو ہاتھ نہیں لگانا
کیونکہ انہیں وہاں درد ہوتا ہے۔
واہ اللہ نے مجھے کتنی پیاری اور
سمجھدار بیوی دی ہے۔

میں آپ کو بتاوں کہ وہ دال بہت
مزے کی بناتی ہے اور اسے دال بنانے کی
ان گنت ترکیبیں پتہ ہیں۔
ہم ہفتے کے سات دن
دال روٹی کھالیتے ہیں
لیکن ایک بار بھی میرے دل
میں یہ خیال نہیں آیا کہ
مجھے اس پر ناشکری  کرنی چاہیے
دیکھیں تو سہی
میرے رب کا لاکھ شکر ہے
جو مجھے روز کھانا دیتا ہے کبھی بھوکا نہیں سلایا۔
ہاں وہ آج کل کیلے اور موسمی پھل
کتنے سستے ہیں۔
میں روز اپنی بیٹی کے لیے کے جاتا ہوں۔
اسے بہت پسند ہیں۔
اللہ پاک کا لاکھ شکر ہے ہمیں
ہمارے پسندیدہ فروٹ روز کھلاتا ہے۔

میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں
اور یہ اللہ پاک کا کتنا کرم ہے مجھ پر۔
پہلے میں اداس رہتا تھا اور اپنی بیوی کو حسرت سے
دیکھتا تھا جو زمین پر پیشانی
ٹیک کر خوب لمبے سجدے کرتی ہے۔
ایک دو بار میں نے بھی
اسی طرح سجدہ کرنے کی کوشش کی
لیکن میرے بائیں گھٹنے کی ہڈی میں
تراخ تراخ کی آوازیں آنے لگیں ۔
مجبورا مجھے اٹھنا پڑا۔
پھر میر ی نظر ایک بار پڑوس کے شاہد بھائی پر گئی
جو بیڈ پر لیٹے لیٹے اشاروں سے
نماز پڑھ رہے تھے۔
آہ کتنا درد تھا دعا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں۔
تب سے رب کا شکر گزار رہتا ہوں کہ
میں رب کے سامنے
زیادہ نہ سہی
تھوڑا سا تو جھک سکتا ہوں
زبان سے نماز کے کلمات ادا کر سکتا ہوں
آہا یہ کتنے بڑے کریم کتنی رحمت کی بات ہے۔

ہر سردیوں میں میرا دمہ مزید بڑھ جاتا ہے

لیکن خداکا کتنا کرم ہے مجھ پر کہ
جب بھی میرے سانس اٹکتے ہیں
میرے پاس ان ہیلر اور دوا پہلے سے موجود ہوتی ہے۔
ہر روز جب بھی قرآن پڑھتا ہوں تو
پہلے رب سوہنے کا شکر ادا کرتا ہوں
کہ اس نے مجھے اپنے سے
ہم کلام ہونے کی توفیق دی۔
ہائے یہ میرے رب کا کتنا کرم ہے
میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر قرآن پاک پڑھ لیتا ہوں۔ آنکھیں واقعی بہت بڑی نعمت ہیں۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ
جب جب میں آفس جاتا ہوں
سڑک کے ساتھ بے شمار دکانوں
پٹرول پمپ اور ہوٹلوں کو دیکھتا رہتا ہوں۔
ماشاءاللہ لوگ کتنی عافیت کے ساتھ آجاریے ہیں۔
خریداری کر رہے ہیں۔ کھا پی رہے ہیں۔
ہنس بول رہے ہیں۔
گاڑیوں کا ایک ریلہ یہاں سے وہاں رواں دواں ہے۔
کتنی پیاری اور کتنی خیریت اور
عافیت کی بات ہے اور
اللہ پاک کا ڈھیر سارا شکر ادا کرنے والی بات ہے کہ
ہمارے پیارے وطن میں ہمارے پیارے پاکستان میں
حالات ان ملکوں جیسے بالکل نہیں جہاں
بڑی طاقت ور ملکوں کی فوجوں نے عوام کی
زندگی دوبھر کر رکھی ہے۔
اللہ ہمارے پاکستان کو سلامت خوشحال شاد باد اورآباد رکھے۔ آمین

پتہ نہیں کیوں لوگ ہر وقت
مایوسی کی باتیں کرتے ہیں۔
ناشکری اور ناامیدی کی۔
مجھے تو اپنی ذات سے لے کر اپنے
گھر تک اور اپنے اسٹاپ سے لے کر
اپنے آفس تک ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔
بلکہ میں قدم قدم پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
شکوہ شکایت تو وہاں کی جاتی ہے
جہاں دینے والے کا ہاتھ تنگ ہو۔
یہاں تو زمین سے لے کر آسمان تک سوہنے رب
کے خزانے کھلے ہوئے ہیں۔
وہ دے رہا ہے دیتا رہے گا۔
اس دنیا میں جو کمی رہ گئی
آخرت میں ایسی پوری کرے گا کہ
لوگ تمنا کر بیٹھیں
ہائے کاش دنیا میں کم کم ہی ملتا رہتا۔
سو رب کا شکر ادا کریں۔
جان پر۔ صحت پر۔ عافیت پر۔ مال و اولاد ہر۔
اتنے پیارے وطن پاکستان پر۔
ہر ہر نعمت پر۔