جوتے کیسے بنتے ہیں

پیارے بچو! یہ کہانی ہے ایک لڑکے نومی کی جو ایک چھوٹے سے قصبے میں رہا کرتا تھا۔ نومی کے والدجن کا نام اکبرتھا، ایک ماہر موچی تھے۔ دور دور سے لوگ ان کے پاس جوتوں کی مرمت کروانے اور نئے جوتے بنوانے کے لیے آیا کرتے تھے۔نومی کی والدہ چند سال پہلے انتقال کر گئی تھیں۔ اکبر صاحب غریب ہونے کے باوجود نومی کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ کچھ دنوں سے نومی نئے جوتوں کے لیے ضد کر رہا تھا۔ اس کے سکول میں پہننے والے سیاہ جوتے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے۔ بار بار سینے کی وجہ سے ان میں لگے بہت سارے پیوند  بدنما معلوم ہوتے تھے۔  ماسٹر صاحب نومی کے حالات کا علم تھا سو وہ اکثر نومی پر مہربانی کا مظاہرہ کرتے  لیکن ان شریر لڑکوں کاکوئی علاج نہ تھا جو روز نومی کو پھٹے ہوئے جوتے والا کہہ کر چھیڑا کرتے۔
آج بھی نومی جب گھر میں داخل ہوا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے سوچا۔


’’آج میں ضرور بابا سے کہوں گا میرے لیے ابھی اور اسی وقت نئے جوتے بنائیں۔  چاہے سب کام چھوڑنے پڑیں۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں پکا ارادہ کر لیا۔

لیکن اس کا یہ ارادہ گھر میں داخل ہونے کے بعد قائم نہ  رہ سکا کیونکہ اکبر صاحب کی طبیعت بے حد خراب تھی۔ انہیں سردی لگ گئی تھی۔ تیز بخاراور کھانسی سے وہ بے حال ہو رہے تھے۔ نومی سب کچھ بھول بھال کر بابا کی خدمت میں لگ گیا۔ رات کو  اکبر صاحب کا بخار کم ہوا ۔وہ بستر سے اٹھ بیٹھے۔ انہوں نے دیکھا۔نومی ان کے ساتھ لیٹا ہوا تھا اور گہری نیند سو رہا تھا۔ انہیں اس  پر بہت پیار آیا۔ وہ جانتے تھے ان کا پیارا بیٹا  کئی دنوں سےنئے جوتوں کے لیے کتنا پریشان اور بے چین ہے۔ انہوں نے اسی رات نومی کے نئے جوتے بنانے کے لیے کمر کس لی۔

سب سے پہلے  بابا جان نے نومی کے پاؤں کےسائز کا سانچہ   (Last)  لیا۔یہ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ 



پھر انہوں نے چمڑے کا ٹکڑا لیا اور بند جوتے کے لیے نمونہ  (Shoe Pattern) کاٹنے لگے۔ آخر کار تھوڑی دیر بعد میز پر چمڑے کے چند ٹکڑے  پڑے تھے جن کو اب بابا جان نے مضبوط دھاگے کے ساتھ آپس میں جوڑنا تھا۔

انہوں نے ان  ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے سوئی دھاگے اور مضبوطی سے جوڑنے والی گوند (Wax) کا استعمال کیا۔ اب جوتے کا  ایک ڈھیلا ڈھالاسا  نمونہ  (Leather Cover) تیار ہو گیا تھا۔ بابا جان نے چمڑے کے اس نمونے کو، چھوٹی چھوٹی کیلوں کی مدد سے لکڑی کے سانچے پر چڑھادیا۔


جب وہ چمڑے کو کیلوں کی مدد سے سانچے (Last) پر چپکا چکے تو پہلے انہوں نے ایک اندرونی سول (Inner Sole)  جوتے کے باہر کی طرف رکھا ، گوند  (Wax) لگائی اور چمڑے کو اچھی چپکانے کے بعد کیلوں کو نکال دیا۔

اب  بیرونی سول  (Outer Sole) اور ایڑی (Heel) بنانے کی باری تھی۔



یہ دونوں چیزیں بنانے کے بعد بابا جان نے بیرونی سول (Outer Sole) کو گوند (Wax) کی مدد سے جوتے کے نیچے چپکا کر رکھ دیا اور بھاری اشیا اس کے اوپر رکھیں تاکہ جوتا سول کے ساتھ اچھی طرح چپک جائے۔


اس کے بعد سول کے ساتھ ایڑی (Heel) چپکائی۔ ایڑی کو سول کے ساتھ مضبوطی سے جوڑنے کے لیےبابا جان نے ننھی کیلوں کا بھی استعمال کیا۔


اب جوتوں پر رنگ کرنا تھا۔

رنگ کرنے کے بعد انہوں نے جوتوں کے اندر سے سانچہ (Last) کھینچ کر نکال دیااور  مزید مضبوط بنانے کے لیے جوتوں کو آگ میں سے گزارا۔


اور آخر کار اچھی طرح پالش کرنے کے بعد بابا جان نے نئے جوتوں میں تسمے ڈالے۔ نومی کے  نئے جوتے تیار تھے اور یقیناً اسے بے حد پسند آنے والے تھے۔


اب سورج نکل آیا تھا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔نومی ابھی تک سو رہا تھا۔ باباجان نے سوچا ناشتے کے لیے کچھ خاص لے کر آنا چاہیے ۔ یہ سوچ کر وہ اٹھے اور جوتے پہننے لگے۔ اچانک انہیں احساس ہوا ان کا انگوٹھا بند جوتے سے باہر جھانک رہا ہے۔
’’اوہ! مجھے اپنے جوتے سینا تو یا د ہی نہیں رہا۔‘‘ بابا جان نے ہنس کراپنےبوسیدہ پرانے جوتوں کو دیکھتے ہوئے سوچا اور گھر سے نکل گئے۔