پیلو کا بستر


پیارے بچو! یہ کہانی ہے ایک چوزے پیلوکی جو اپنی امی کٹوکے ساتھ نہر کے کنارے رہتا تھا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ پانی کے ساتھ پلاسٹک کے پائپ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تیرتا چلا آرہا ہے۔تیز ہوا نے اسے کنارے پر لا پھینکا۔ پہلے تو پیلونے کچھ انتظا ر کیا۔
’’ہو سکتا ہے اس میں سے کوئی کیڑا نکل آئے جو مجھے نقصان پہنچائے۔ ‘‘
یہ سوچ کر پیلوایک طرف  بیٹھ کر پائپ کو دیکھتا رہا۔ وہ سفید رنگ کا تھا اوراس پر کافی ریت اور مٹی لگی ہوئی تھی۔ بہت دیر بعد پیلوآگے بڑھا ۔  اسے ایک خیال آیا۔
’’کیوں نہ میں اس میں بستربنا لوں۔ بس! آج سے میں یہاں اس کے اندر سویا کروں گا۔‘‘ پیلونے خوشی سے سوچا اور کٹوکو بتانے کے لیے دوڑکر گھر پہنچا۔

’’امی ! مجھے اپنے بستر کے لیے جگہ مل گئی ہے۔آئیں ! میں آپ کو دکھاؤں۔‘‘
’’ہاں چلو!‘‘ کٹومرغی نے کہا اور پیلوکے ساتھ باہر چلی آئی۔
’’یہ دیکھیں امی جان! میں اسکے اندر سو جایا کروں گا۔ کتنا اچھا ہے ناں! کیا میں اس میں اپنا تکیہ اور اوڑھنے والی چادر لا کر رکھ دوں؟‘‘ پیلوخوشی خوشی بولتا گیا۔
کٹومرغی نے غور سے پائپ کے ٹکڑے کو دیکھا، اپنے پنجوں کے ساتھ اسے دو تین بار ادھر ادھر کیا اور پھر بولی۔
’’پیارے بیٹے! یہ کچھ چھوٹا ہے۔ مجھے ڈر ہے آپ اس میں پھنس جاؤ گے۔میں گھاس پھونس اور تنکے اکٹھے توکر رہی ہوں۔ جلد ہی آپ کے لیے پیارا سا بستر تیار ہو گا۔‘‘
پیلوخفا ہو گیا۔
’’امی جان! یہ پائپ مجھے اچھا لگتا ہے۔میں نے اسی میں سونا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد پیلونے ضد کر کے اپنی بات منوا لی  اور پائپ کو صاف ستھرا کر کے گھر کے اندر لے آیا۔
پائپ دونوں طرف سے کھلا تھا ۔ اس لیے اس میں ہوا کے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پیلوبہت شوق سے اپنا تکیہ  اور اوڑھنے والی چادر،  پائپ کےاندرلے آیا۔جیسے ہی رات ہوئی، پیلونے کھانا کھایا اور پائپ کے اندر گھس کر لیٹ گیا۔
’’آہا! کتنا اچھا بستر ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور سو گیا۔
ایک دن جب تیز بارش ہوئی تو  کیچوے یہاں وہاں گھاس میں پھیل گئے۔ پیلوکے تو مزے ہو گئے۔ اسے کیچوے بہت پسند تھے۔ اس دن بھی پیلونے دو کیچوے کھائے اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔ کچھ دنوں سے اسے لیٹتے وقت تنگی سی محسوس ہوتی تھی۔ آج بھی ایسا ہی ہوا ۔ وہ ساری شام اپنے دوستوں کے کھیلتا رہا تھا اور بہت تھکا ہوا تھا۔ اس لیے جلد ہی سو گیا۔
صبح ہوئی تو کٹونے پیلوکو آواز دی۔ وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ کٹو نے پیلوکے کمرے میں دیکھا۔
’’پیلو! تم کہاں ہو؟ ‘‘
اچانک پائپ میں سے ہلکی سی  چوں چوں کی آواز آئی۔
’’چوں چوں ! امی  میں یہاں  ہوں۔‘‘
’’ہائیں!‘‘ کٹومرغی کے منہ سے نکلا ۔  اس نے جھانک کر دیکھا۔ پیلوپائپ کے اندر پھنس چکا تھا اور بڑی مشکل سے بول رہا تھا۔
’’اوہ! میں نے کہا تھا آپ اس میں پھنس جائیں گے کیونکہ آپ جلدی جلدی بڑے ہو رہے ہیں۔ لیکن آپ نے میری ایک نہ سنی۔‘‘ کٹومرغی نے ناراضگی سےکہا۔
پھر اس نے پائپ کے اندر ہاتھ ڈال کر پیلوکو باہر نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن پیلودرد سے چیخنے لگتا تھا۔ اب کٹومرغی کا   پریشانی سے برا حال ہو گیا تھا۔ اچانک اس نے کچھ سوچا اور جلدی سے  بھالو میاں کو بلا کر لے آئی۔بھالو میاں نے پہلے توپائپ اٹھا کرغور سے دیکھااور اس میں پھنسے پیلوکو اس  بے وقوفی پر ڈانٹا۔  پھر انہوں نے پائپ کے دہانے پر دونوں انگلیا ں  رکھ کر زور لگایا تو تڑاخ کی آوازآئی۔پائپ  کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ساتھ ہی پیلودھپ سے گھاس پر جا گرا ۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ آزاد ہو گیا ہے تو وہ بھاگ کر کٹوکے پروں کے نیچے چھپ گیا۔ وہ دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھا۔ کٹونے بھالو میاں کا شکریہ ادا کیا کیونکہ پیلوکچھ دیر اور پھنسا رہتا تو اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔
 بچو! پیلواب سمجھدار ہو گیا ہے۔ وہ امی جان کی بات غور سے سنتا ہے اور جلدی سے مان لیتا ہے ۔ اسے پتہ ہے امی جو کہتی ہیں اسی میں بچوں کی بہتری ہوتی ہے۔