’’جی سر! میں پہنچ جاؤں گا۔ اوکے سر!‘‘
میں
نے کہا او ر فون رکھ دیا۔ ابھی ہیڈ کا فون آیا تھا۔ آج معروف سیاستدان پاکستان
آرہے تھے۔ ان کی آمد کی لائیو کوریج کرنی تھی۔ میں نے اپنا سامان تیار کیا اور
ٹیم کو واٹس ایپ گروپ میں میسج کر دیا۔
’’ائیر
پورٹ جانا ہے۔ تیاری کر لو۔شام ۴ بجےنکلیں گے۔‘‘
پھر
میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی صبح کے صرف سات بجے تھے۔ پتہ نہیں کتنی دیر لگے گی اور
کیا ہنگامہ ہو گیا وہاں۔ یہی سوچتا سوچتا میں نیند کی گہری وادیوں میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’بلال!
اٹھو نیوز دیکھو! ‘‘ میرے کولیگ مراد کی کال آئی تو میں یکدم اٹھ
بیٹھا۔فوراً ٹی وی آن کیا۔بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔
’’بلوچستان،
مستونگ میں خودکش حملہ۔۔ معروف سیاستدان شہید۔۔‘‘
’’اوہ! اللہ مرحوم کی مغفرت کرے۔ ‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر ٹی وی
بند کر دیا اور ائیرپورٹ جانے کی تیاری کرنے لگا۔
’’ہاں
لیکن مجھے ہیڈ نے اسلام آباد پہنچنے کا کہا ہے یار۔ میں ابھی کیسے وہاں آسکتا
ہوں؟ نذیر صاحب نہیں مانیں گے۔‘‘ میں نےسوچتے ہوئے اپنے دوست ناصر بلوچ سے
کہا۔ناصر میرا پرانا جگری دوست تھا اور بلوچستان کے مقامی ٹی وی چینل میں کام کرتا
تھا۔ وہ اس وقت مستونگ میں حملے کی جگہ پر موجود تھا اور درخواست کر رہا تھا
کہ میں وہاں پہنچوں اور اس واقعے کی اپنے چینل سے بھرپور رپورٹنگ کروں۔
’’لالہ!
تمھیں کیا پتہ یہاں یا قیامت بپا ہے۔ بس بس! تم رہنے دو ۔‘‘ ناصر بلوچ نے نہایت
تلخی سے کہہ کر فون رکھ دیا۔
کوئی
اور وقت ہوتا تو میں اسے خوب سناتا لیکن میں یکدم اندر سے تصور ساکرنے لگا۔
ناصربلوچ اس وقت کیا محسوس کر رہا تھا۔خون، دھواں۔ وہ کیا دیکھ رہا تھا۔
پھٹے ہوئے کپڑے اور بکھرے اعضاء۔ وہ کیا سن رہا تھا ۔ زخمیوں کی چیخیں اور ماؤں
کے بین۔
چُنے
تھے جس قدر گلاب، خار خار ہو گئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا
مجھے ائیر پورٹ ،لائیو کوریج کے لیے جانا چاہیے۔شام کو میں نے خود سے سوال کیا۔
ہاں
ناں! تمھاری نوکری کا سوال ہے۔ تم نہیں جاؤ گے تو نکال دیے جاؤ گے۔عقل سمجھانے
لگی ۔ لیکن ضمیر!ضمیر کو کون سمجھاتا۔
خیر!
میں نے بوجھل دل کے ساتھ تیاری کی اور ٹیم کو لیے ائیر پورٹ چلا آیا۔
’’ناظرین!
ہم دکھا رہے ہیں آپ کو ائیر پورٹ کے لاؤنج کے مناظر جہاں۔۔۔‘‘ میں اپنے چینل
سےمسلسل رابطےمیں تھا۔ سنگنل بار بار آجا رہے تھے جس کی وجہ سے رپورٹنگ میں کافی
مشکل کا سامنا تھا۔اچانک مجھے اپنی بات ختم کرنی پڑی جب ایک بار پھر کیمرہ بوائے
نے ہاتھ سے سگنل کے چلے جانے کا اشارہ کیا۔
’’ٹوں
ٹوں‘‘
میں
نے موبائل جیب سے نکالا۔واٹس ایپ پر ناصر بلوچ کا میسج تھا۔
ایک
تصویر جس میں ایک بوڑھی عورت ایک خون آلود میت پر ہاتھ رکھے سوچوں میں گم تھی۔
آنسوؤں کے نشان اس کے جھریوں بھرے چہرے پر ثبت تھے ۔ ساتھ لکھا تھا۔
’’اموات
کی تعداد اسی 80 سے اوپر۔۔۔‘‘
’’سر!
سگنل آگئے۔ اینکر کا سوال سنیں۔‘‘
میں
نے فوراً موبائل جیب میں واپس ڈالا۔
’’جی
بالکل ہمارا رابطہ نمائندہ بلال احمدسے ہو چکا ہے جو اس وقت لاہور ائیر پورٹ
پر موجود ہیں۔جی بلال! بتائیے گا کہ اب تک ۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹنگ
رات گئے ختم ہوئی اور ہم گھر چلے آئے۔ میں شدید تھک گیا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے
ایک بار موبائل چیک کیا۔ ناصر کا اس کے بعد کوئی میسج نہیں آیا تھا۔ میں نے کل کے
لیے پلان تیار کر لیا اور لمبی تان کر سو گیا۔
’’سر
میں بلوچستان جانا چاہتا ہوں۔‘‘
اگلی
صبح میں نے پہلی فرصت میں اپنے ہیڈ نذیر صاحب کو فون کر کے کہا۔
’’کیا؟
لیکن کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوئے۔
’’سر!
۔میرے خیال میں ہمیں.. ہماری ٹیم کو... ہمارے چینل کے رپورٹرز کو اس وقت
بالکل اس وقت بلوچستان کے شہر مستونگ میں ہونا چاہیے۔ سر وہاں خودکش حملے میں
تقریباًایک سو اٹھائیس لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ اور ان سب کی جانیں اس ایک سیاستدان کی
لائیو کوریج سے زیادہ بہت زیادہ اہم ہیں قیمتی ہیں۔ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔
سر!کیا ہمیں اپنے بلوچی بھائیوں کے غم میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ لوگ کون
تھے جو اس حملے میں اپنی جانیں ہار گئے؟ وہ ہمارے ہی وطن کے شہری تھے۔‘‘ میں
بے حد جذباتی انداز میں بولتا چلا گیا۔ مجھے خود پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
نذیر
صاحب خاموشی سے میری بات سنتے رہے پھر انہوں نے کوئی جواب دیے بنا کال کاٹ دی۔میں
بے بسی سے موبائل کو دیکھتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’گو
ٹو مستونگ۔ اصغر ٹکٹ لے کر آرہا ہے۔ ‘‘
شام
ڈھلے سر کا میسج آیا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ خیر میں نے تیاری
شروع کر دی۔ اگلے دن رات تک میں مستونگ پہنچ چکا تھا۔ یہاں واقعتاً قیامتِ صغریٰ
آکر گزر چکی تھی۔ یا شاید ٹھہر گئی تھی۔ ایک ایک گھر سے کئی جنازے نکل رہے تھے۔
ناصر بلوچ کے ایک جاننے والے کے خاندان کے پندرہ افراد شہید ہو گئے تھے۔ ایک
ماں اپنے پانچ بیٹوں کا غم سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ شہداء کی تعداد ایک سو
اٹھائیس اور زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
تھی۔
میں
نے جلدی جلدی کچھ گھروں میں جا کرانٹرویو کیے ، زخمیوں کے بیان لیے، کچھ
اپنے بلوچی دوستوں یاروں سے مدد لی اور ایک چشم کشا اور پر اثر
رپورٹ تیار کر لی۔ شام کو ای میل بھی کر دی۔
اگلی
صبح نیوز بلیٹن کے بعد میری رپورٹ آن ائیر دکھائی جانے لگی۔
قومی
ترانہ اور پس منظر میں بلوچستان کے پہاڑ ۔۔۔ پھر حدیث چلنے لگی جو میں نے مراد کی
آواز میں ریکارڈ کروائی تھی۔
میں
سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ میرے انگ انگ میں جوش بھر گیا تھا۔
’’مسلمان
آپس میں پیار ومحبت ،رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں
کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا
ہے ۔‘‘(صحیح مسلم)
پس
منظر میں مستونگ کی حملے والی جگہ دکھائی جارہی تھی۔ پھر زخمیوں کے انٹرویو اور
کچھ ان لوگوں کے بیان جن کے پیارے اس دردناک سانحے میں شہید ہو گئے تھے۔
ڈاکومنٹر
ی چلتی رہی اور مجھے ناصر بلوچ کے میسج آتے رہے۔
’’پیارے!
تیرا اور تیرے باس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے خود آؤں گا۔ ‘‘
میں
نے اس کو جوابی میسج کیا۔
’’دیکھ!
مجھے شرمندہ نہ کر۔ یہ میری ایک چھوٹی سی کوشش تھی اپنے ہم وطنوں کے غم کو
بانٹنے کے لیے۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ جو لوگ چلے گئے ان کے لیے دل اداس ہے
اور جو زخمی ہیں ان کے لیے دل سے دعا گو ہیں ہم سب۔ بس تم لوگ خود کو اکیلا مت
سمجھو۔‘‘
گو
کہ یہ تو کچھ بھی نہیں تھا ۔ ان کے پیارے جو اس دنیا سے چلے گئے، واپس نہیں آ
سکتے تھے۔ ماؤں کی گود اجڑ گئی اور بہنوں کے جوان بھائی چیتھڑے بن کر اڑ گئے۔ ہم
کیا کر سکتے تھے سوائے افسوس کرنے اور دکھ بانٹنے کے لیکن میرا دل کہتا تھا جو
بحیثیت ایک رپورٹر میری بساط میں تھا ، وہ میں نے کر دیا تھا اور کرتا رہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر!
آپ کا شکریہ۔۔ اور میں معذرت چاہتا ہوں کل زیادہ بول گیا۔‘‘ میں اس وقت اپنے ہیڈ
نذیر صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔
’’نہیں
یار! کل جو تم نے تصویر بھیجی تھی وہ میں بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر مجھے شانی
یاد آگیا۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے ان کی آواز رندھ گئی۔ میں نے ناصر بلوچ کی بھیجی گئی
تصویر جس میں ایک بوڑھی ماں اپنے جوان بیٹے کی میت کے پاس غمگین کھڑی ہے، سر کو
فارورڈ کر دی تھی۔ شانی ان کا بھائی تھا بہت جی دار اور کھرا صحافی تھا ۔ اسے
پچھلے سال حق بات لکھنے کی پاداش میں کراچی میں شہید کر دیا گیا تھا۔
کچھ
دیر بعد وہ خاموش رہے ۔ پھر انہوں نے فون اٹھا کر ہدایات دیں۔
’’
تین دن تک کوئی ڈرامہ اور کامیڈی شوز نہیں چلیں گے۔ ابھی صرف خبریں اور
اشتہار دکھاؤ اور خاص طور مستونگ کے حملے کو ہائی لائٹ کرو۔ ہاں،
بلوچی سردار امین خٹک کوشام کے پروگرام میں لانا ہے پورے پروٹوکول کے
ساتھ...‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا
جس حد تک دکھی دلوں کی غمگساری کر سکتا ہے اسے لازما کرنی چاہیے۔ بلوچی بھائیوں کا
دکھ میرا دکھ ہے ہم سب کا دکھ ہے ۔یہ موقع ہے ہم پوری دنیا کو دکھا دیں کہ
ہم اپنے ہم وطن بلوچی بھائیوں کےاس اندوہناک غم میں برابر کے شریک ہیں،
ہمارا اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دل اور روح کا رشتہ ہے اور یہ کہ ہم وطن کے ساتھیوں
کو اس سانحے پر تنہا نہیں چھوڑ سکتے ۔
ہم
وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ہیں
محبت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف
ان کا فیضِ بیکراں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ان کا فیضِ بیکراں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
وقت
کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں :
ایک
شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پوچھا :
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کونسے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں؟
فرمایا ۔’’جو سب سے زیادہ نفع پہچانے والے ہیں۔اور سب سے محبوب عمل وہ خوشی ہے جو
تو کسی مسلمان کے دل میں داخل کرے یعنی اس کے غم کو زائل کرے یا اس کا قرض ادا کرے
یا اس کی بھوک مٹائے‘‘۔ (الترغيب والترهيب، 1 : 475)