ایصالِ ثواب کا تھال


’’لو یہ کیا بات ہوئی! سکینہ!میری اولاد تمھاری اولاد کی طرح طوطا چشم نہیں ہے۔ مجھے وہ اتنی آسانی سے  بھولنے والی نہیں ہے۔ بھئی ماں ہوں ان کی۔ ہر روز وہ مجھے  ایصال ثواب کریں گے۔ تم دیکھ لینا ‘‘
یہ زینت بیگم تھیں جو ابھی ابھی دنیا سے انتقال کر کے اس قبرستان میں پہنچی تھیں۔ یہاں پہلے سے ان کے کافی رشتہ دار موجود تھے جو اب ان کو گھیرے ہوئے بیٹھے تھے۔ اس وقت وہ   اپنی خالہ زاد بہن سکینہ سے اس بات پر جھگڑ رہی تھیں کہ ان کے فرمانبرار بچے ان کو کبھی نہیں بھولیں۔ ہر روز ڈھیر سارا ایصالِ ثواب انہیں کیا کریں گے۔
’’اچھا وہ عبدالغفور کا کیا بنا؟  رشیدہ آئی  تو اس نے بتایا کہ انہیں دل کی بیماری ہو گئی ہے۔‘‘ الفت نے فکرمندی سے پوچھا۔


’’ہاں  بھئی! سارا دن بیٹھے رہیں گے تو یہی ہو گا۔ ہمارے زمانے تو ہیں نہیں کہ ایک اکیلا بندہ کئی کئی کوس پیدل چلتا جائے۔ اب تو گاڑی میں بیٹھو تو آفس۔ آفس سے نکلو تو گاڑی  اور پھر لاؤنج کا صوفہ۔ بھلا جب ورزش ہی نہیں ہو گی تو بڑی بڑی بیماریاں تو نکلیں گی۔‘‘ زینت بیگم دنیا میں بھی بے تکان بولنے کی عادی تھیں۔ وہ تو شکر تھا کہ صدقہ خیرات خوب دل سے کیا کرتیں اور نماز روزے کی بھی خوب پابند تھیں۔ ایک غریب کو پرانے کپڑوں کے ساتھ اپنا نیا جوڑا دینے کے صلے میں ان کی جاں بخشی ہو گئی تھی۔  اب وہ تھیں  اور رشتہ داروں کی  خبریں۔
’’اچھا! بھئی! اب آگئی تو تھوڑا سانس تو لو۔ بے دھڑک بولے جا رہی ہو۔ ‘‘ شازیہ بھابھی منہ بنا کر بولیں۔ وہ زینت بیگم کی ’’سپیڈوں‘‘ سے دنیا میں ہی تنگ تھیں۔ اوپر سے اب مرنے کے بعد بھی اسی قبرستان میں آگئی تھیں جہاں شازیہ بیگم اپنے بیٹےکے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ ان کا یہ بیٹا ایک بم دھماکے میں دنیا سے انتقال کر کے یہاں آ یا تھا۔
’’اپنے بچوں کی بھی سناؤ زینت! وہ تمھیں کب بھول رہے ہیں، ہی ہی ہی!‘‘ سکینہ نے پھر زینت بیگم کو چھیڑا۔ وہ دنیا میں بھی وہ  ہمیشہ سے زینت بیگم سے مقابلے میں رہتی۔ اگر کبھی زینت لان کا نیا سوٹ سکینہ کو دکھا دیتیں تو سکینہ کا بس نہ چلتا وہ بھی ابھی جائے اور یہی والا۔۔ بالکل اسی ڈیزائن والا سوٹ لے کر آئے۔ اور اکثر ہوتا بھی یہی۔اب بھی زینت بیگم کے سرہانے پڑا ایصال ثواب کا بھرا ہوا تھال سکینہ کو بالکل ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
’’ارے ارے! بھولیں مجھے میرے دشمن۔ بھئی یہ دیکھو میری اولاد مجھے کیا کیا بھیج رہی ہے ایصالِ ثواب میں۔خیر تم نے تو خوا ب میں بھی نہیں دیکھا ہو گا یہ سب! ‘‘
زینت بیگم نے یہ کہہ کر  تھال پر سے کپڑا ہٹایا جو  فرشتہ کچھ دیر پہلے ہی ان کی قبر میں رکھ گیا تھا۔ پورا تھال کلمہ طیبہ، سورہ یاسین اور سورہ ملک، دعاؤں اور نیک تمناؤں سے بھر ا ہوا تھا۔
’’واہ واہ! ماشاء اللہ! زینت تم نے تو اپنے بچوں کی خوب اچھی تربیت کی ہے۔ تمھارے مرنے کے بعد تمھیں کتنی اچھی طرح یاد رکھ رہے ہیں۔ ‘‘ الفت نے تحسین آمیز نظروں سے زینت  بیگم کو دیکھا۔سکینہ کا البتہ منہ بن گیا تھا۔ وہ رہ نہ سکی اور کہنے لگی۔
’’ہاں بھئی! نیا نیا جوش  ہے ۔ اور تازہ تازہ غم۔ ایصال ثواب تو کریں گے ہی۔ سال دو سال بعد پوچھوں گی ۔ تھال خالی نہ ملا تو کہنا۔‘‘ سکینہ نے کہا اور ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے ساتھ باقی سب کے سب رشتہ دار بھی کھڑے ہو گئے۔
’’ارے ارے یہ آپ لوگ کہاں چلے۔ ابھی تو بہت سی باتیں رہتی ہیں۔‘‘ زینت بیگم نے حیران ہو کر کہا۔
’’وہ ۔۔ اصل میں ہم بس آتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں۔ تم آرام کروناں۔ تھکی ہوئی آئی ہو۔‘‘ شازیہ نے کہا اور سب چپ چاپ باہر نکل گئے۔
زینت بیگم پہلے تو کچھ دیر بیٹھیں پھر تجسس کے مارے وہ بھی اپنی قبر سے باہر نکل آئیں ۔ رات کا وقت تھا اور فرشتے جوق درجوق قبرستان میں اتر رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تحائف تھے جو زینت بیگم کے تھال والے تحفوں سے ذرا بھی  قیمتی نہ تھے۔ پس زینت بیگم کادل نہ کیا کہ وہ ان چھوٹے چھوٹے کم قیمت تحائف کو سمیٹیں۔ اس لیے وہ چپ چاپ ایک طرف کھڑی دیکھتی رہیں۔
سکینہ اور شازیہ بھابھی نے بہت سارے تحفے اپنی جھولیوں میں سمیٹ لیے تھے۔  دوسرے بہت سارے لوگ بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔یہ تحفےدراصل ان  زندہ مسلمانوں کی دعائیں تھیں جو وہ عام طور پر فوت ہوجانے والے لوگوں کے لیے کیا کرتے تھے۔  کچھ خاص  تونہ تھا ان میں۔ جبکہ زینت بیگم  کی قبر میں جو تھال پڑا تھا وہ نہایت خوبصورت اور سنہری تحفوں سے بھرا پڑا تھا۔
 زینت بیگم حیرت زدہ سی اپنے سب رشتہ داروں کو دیکھتی رہیں۔ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ کیا ان کو کوئی ایصال ثواب نہیں کرتا۔ یہ ۔۔ یہ الفت ۔۔اس کا بیٹا تو حافظ ہے۔ اور سکینہ کی بیٹی کی تب تعریفیں کرتے ہیں۔ کیا وہ بھی اپنی ماں کوبھول گئی ہے۔ ہائے! اللہ نہ کرے میری اولاد مجھے بھولے۔ مجھے تو ہر روز یہی تھال چاہیے بس!مجھ سے تو نہیں سمیٹے جاتے یہ عام سے تحفے۔
زینت بیگم نے گھبرا کر سوچا اور واپس قبر میں چلی آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو تین دن تو زینت بیگم کے بہت اچھے گزرے۔ فرشتہ ہر روز بھرا ہوا تھال لے کر آتا اور ان کے قبر میں سرہانے رکھ جاتا۔ اس میں سے آتی ہوئی حسین خوشبو اور چمک دمک  زینت بیگم کو سر فخر سے اونچا کر دیتا۔ سب رشتہ دار بھی حسرت بھری نگاہوں سے زینت بیگم کے تھال کو دیکھتے ۔
زینت بیگم خوب گھومیں پھریں اور رشتہ داروں سے ملاقاتوں کے لیے جاتی رہیں۔ ایک بار تو قبرستا ن کے آخری کنارے تک ہو آئیں۔ ان کی بیٹی کا چھوٹا بیٹا وہاں رہتا تھا۔ انہوں نے اسے خوب پیار کیا اور اسے بہت سارے کھلونے دیے۔ کافی دیر تک وہ ننھے نواسے کے ساتھ کھیلتی رہیں ۔
جب وہ واپس آئیں تو انہیں اپنی قبر سونی سونی سی لگی۔ انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو تھال غائب تھا۔
’’ہائیں! یہ کیا۔۔ سکینہ ، شازیہ۔۔ الفت۔۔ یہ دیکھو ذرا۔۔ لوگ کہتے ہیں فرشتوں سے بھول چوک نہیں ہوتی ۔ بھئی آج تو میرا  ایصالِ ثواب  والا تھال لانا ہی بھول گئے فرشتے میاں۔ کوئی ہے جو ان کو یاد دلائے۔‘‘ حسب معمول زینت بیگم نے رونا دھونا ڈال دیا۔
سکینہ نے دبی دبی ہنسی کے ساتھ انہیں بتایا ۔’’زینت بیگم! فرشتے بھولتے وولتے نہیں ہیں۔ یہ تو کم بخت اپنی سگی اولاد ہوتی ہے جوکچھ ہی دنوں میں بھول جاتی ہے۔ ‘‘
’’ہائے ہائے سکینہ ! میرے بچوں کو تو چھوڑ دو۔ تمھارے بچوں جیسے نہیں ہیں میرے بچے! ہاں دیکھنا وہ مجھے ضرور یاد کریں گے۔ وہ کیا ہے کہ ایک آدھ دن تو مصروفیت میں یاد نہیں رہتا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ اب بالکل ہی ایصال ِ ثواب نہ کریں۔‘‘زینت بیگم پر یقین لہجے میں کہتی چلی گئیں۔
سکینہ اور شازیہ بھابھی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا اور مسکراتی ہوئی چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر دن مہینوں میں بدلتے چلے گئے اور مہینوں سالوں میں۔ زینت بیگم کا انتظار انتظار ہی رہا۔ ان کا تھال جو ایک بار خالی ہو ا تھا پھر پوری طرح کبھی نہ بھر سکا۔ کبھی کبھار بھولے بھٹکے ان کے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں میں سے کوئی ایک سورہ اخلاص کا ثواب  یا مغفرت کی چھوٹی سی دعا بھیج دیتا۔ وہ دن زینت بیگم کے لیے عید کا سا دن ہوتا۔ سارےمیں بتاتی پھرتیں کہ دیکھو ! میری بیٹی نے مجھے آج یاد کیاہے۔ وگرنہ عام دنوں میں اگر آپ کبھی رات کو قبرستان جائیں تو زینت بیگم کو بھی اپنے دوسرے رشتہ داروں کی طرح عام سےتحفے ہوئے ہی دیکھیں گے! ہاں ان سب کے چہروں پر ایک احساس ضرور بولتا ہوگا۔
’’کاش ! ہمیں کوئی یاد کر لیا کرے! چلو ہمیں نہ سہی! اپنی موت کو تو کوئی یاد کرے اور یہ سمجھ لے کہ  بے شک دنیا میں کتنی ہی لمبی زندگی جی لے آخر کار تو اس نے بھی یہیں آنا ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔
’’مردے کی حالت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہوتی ہے۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ اس کے باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے اور جب اس کو کی کسی کی دعا پہنچتی  ہے تو وہ دعا کا پہنچنا اس کو دنیا و مافیھا سے محبوب تر ہوتا ہے۔ (مشکٰوۃ شریف)
’’زندوں کا تحفہ مردوں کی طرف یہی ہے کہ ا ن کے  لیے بخشش(کی دعا) مانگی جائے۔ اور بیشک اللہ تعالٰی اہل زمین کی دعا سے اہل قبور کو پہاڑوں کی مثل اجرو رحمت عطا کرتا ہے۔‘‘ (مشکٰوۃ شریف)