سائنس کا ہوم ورک


گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں۔ فاتی اور بلو نے ویسے تو سارا ہوم ورک ختم کر لیا تھا لیکن ابھی سائنس کا ہوم ورک باقی تھا۔ یہ ایک ایکٹیویٹی تھی جس میں مختلف قسم کے پتے اکھٹے کر کے کاپی کے سادہ صفحے پر چپکانے تھے۔
اس دن شام کو ناصر ماموں چلے آئے۔ وہ  آرمی میں انجنئیر تھے اورنور پور بیس کمال آباد میں رہا کرتے تھے۔  کبھی کبھی راولپنڈی  اپنے زیر تعمیر مکان  کا چکر لگاتے تو فاتی اور بلو سے ملنے بھی ضرور آتے۔

ناصر ماموں  فاتی اور بلو کے بہترین دوست کی طرح تھے۔ اس بار جب وہ آئے تو دونوں نے انہیں سائنس کے ہوم ورک کے بارے میں بتایا۔
’’ماموں جان! ہمیں اتنے سارے پتے کہاں سے ملیں گے؟  ہمارے پارک میں تو صرف سرو اور امرود کے درخت ہیں۔ کیاریوں میں گھاس ہے یا پھر موتیے کے پھول۔‘‘
فاتی نے بتایا۔


’’اور پھر ہمیں پتوں کی اقسام اور ان کے عناصر میں بارے میں کچھ خاص نہیں پتہ۔ اب کیا کریں؟‘‘ بلو بھی پریشان تھا۔
ناصر ماموں  بولے۔’’ ارے یار! یہ بھی کوئی پریشانی کی بات ہے۔ تم دونوں اپنے بیگ پیک کرواور ایک ہفتے کے لیے میرے ساتھ   نورپور بیس چلو۔ وہاں  طرح طرح کے پودے اور درخت ہیں ۔ میرے پڑوس میں جو بلال صاحب رہتے ہیں ، انہوں نے باٹنی  (پودوں کی تعلیم) میں ایم ایس سی کر رکھا ہے۔ امید ہے وہ تمھاری کافی مدد کر یں گے۔‘‘  
یہ سن کرفاتی اور بلو بہت خوش ہوئے۔ اگلی صبح امی جان نے ان کے کپڑے ، گھر کے جوتے اورکچھ دیگر اشیاء ایک بڑے بیگ میں پیک کر دیں ۔ سائنس کی کتاب، کاپی ، پنسل ربر،گوند کی ایک بڑ ی شیشی، ایک چھوٹی قینچی اور دیگر چھوٹی موٹی دونوں نے اپنے اپنے سکول بیگ میں ڈال لی تھیں۔
جب و ہ ٹیکسی سے اتر کر ویگن میں سوار ہوئے تو بارش شروع ہو گئی۔کامرہ تک کا سفر قریباً دو گھنٹے کا تھا۔ کھڑکی سے باہر پیچھے کی جانب بھاگتے درخت بارش میں نہاتے جا رہے تھے۔  پہلے تو فاتی اور بلو نے مامو ں جان کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کیں۔ پھر انہیں نیند آنے لگی۔
جب ویگن نورپور بیس کے گیٹ کے آگے رکی تو ماموں جان نے دونوں کوجگا دیا۔ بیگ کاندھے سے لٹکائے  سب نیچے اترے۔ گیٹ کے قریب پہنچ کر ماموں جان نے سیکورٹی گارڈ کو اپنی شناخت کروائی۔ پھر وہ اندر داخل ہو گئے ۔
’’ارے واہ! اتنا سزہ! ماموں جان! نور پور بیس تو بہت بدل گیا ہے۔‘‘ فاتی کے منہ سے نکلا۔ وہ ایک لمبی سیدھی صاف ستھری  سڑک  کےساتھ فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔ دونوں طرف اگے ہوئے گھنے درخت بارش میں دھل کر بہت پیارے لگ رہے تھے ۔
’’ماموں جان! یہ والے بورڈ بھی نئے لگے ہیں شاید۔ پچھلے سال جب ہم آئے تھے تو یہ یہاں نہیں تھے۔‘‘ بلو نے ذیلی سڑکوں پر لگے ہوئے سرخ اور سفید رنگ کے بورڈز کی جانب اشارہ کیا  جن پر گھروں کے نمبر درج تھے۔  
’’ہاں بلو!  تمھاری یاداشت بہت اچھی ہے۔‘‘ ناصر ماموں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
 جب وہ گھر پہنچے  تو ممانی جان نے مزیدار کوفتوں کا سالن تیار کر رکھا تھا۔ سب نے کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔
اگلے دن ناشتے کے بعد ماموں جان نے کہا۔ ’’فاتی اور بلو بیٹا! آپ دونوں پتوں کے نمونے اکھٹے کر یں۔ جب میں شام کو آؤں گاتو بلال انکل کے گھر چلیں گے ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ماموں جان!‘‘ دونوں نے بیک زبان ہو کر کہا۔
’’فاتی ! یہ دیکھو! یہ پتے کتنے پیارے ہیں! ‘‘ بلو نے کیاری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک جانب اشارہ کیا۔
’’ہاں! چلو یہ بھی اپنی کاپی میں رکھ لیتے ہیں۔ ‘‘ فاتی نے کہا۔ دونوں نے بہت احتیاط سے ایک ایک پتہ توڑ کر اپنی کاپیوں میں رکھ لیا۔ اسی طرح پھرتے پھراتے انہوں نےکافی سارے پتے اکھٹے کیے۔ انہیں اس کام میں بہت مزہ آیا۔
شام کو  وہ ماموں جان کے ساتھ بلال انکل کے گھر گئے۔
 بلال انکل نے ان کی کاپیوں میں طرح طرح کے پتے دیکھے تو ان کی محنت سے بہت خوش ہوئے۔ پھر انہوں نے فاتی اور بلو کو پتوں کی مختلف اقسام کے بارے میں آسان طریقے سے سمجھایا۔فاتی اور بلو نےسب باتیں رف کاپی میں نوٹ کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ناصر ماموں کے گھر ان کا آخری دن تھا۔ پتوں کو کاپیوں پر چپکانے  میں ناصر ماموں نے فاتی اور بلو کی مدد کی۔ ہر ہر پتے کے ساتھ انہوں نے اس کی خوبیاں لکھیں۔
جب چھٹیوں کے بعد وہ سکول گئے تو  سائنس کے سر ان  کی کاپیاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے فاتی اور بلو کونہ صرف شاباش دی بلکہ ان کی کاپیاں سب بچوں کو بہترین کاپی کے طور پر دکھائیں۔ پھر انہوں نے ، اچھی کارگردگی کے انعام کے طور پر دونوں کاپیوں پر   سٹارز چپکا دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاتی اور بلو کے بہت احتیاط سے چپکائے گئے سبز پتے کافی دن گزرنے کے بعد زرد پڑ گئے تھے  لیکن آخری صفحے پر لگے ہوئے تین چمکیلے ستاروں کی چمک ہمیشہ رہنے والی تھی۔