’’امی جان ! آج
کیا پکایا ہے؟‘‘ آٹھ سالہ راشد جیسے ہی سکول سے گھر آیا تو سوال کیا۔
’’بیٹا! بھنڈی پکی ہے۔ آپ جلدی سے کپڑے بدل لو ۔ میں کھانا
لگاتی ہوں۔‘‘ امی جان نے شفقت سے کہا۔
’’نہیں!
آج پھر بھنڈی! اف! میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔بس!‘‘ راشد نے منہ بنایا اور بھاگ کر
کمرے میں چلاگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد
اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والدین اس کو بہت چاہتے تھے اور اس کی ہر
خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ راشد
کو اچھے سے اچھا اور صحت مند کھانا کھلائیں ۔ اس کے لیے امی جان نے گھر میں
ایک فوڈ چارٹ بھی لگا رکھا تھاجس پر ایک معتدل روٹین درج تھی۔
اس
روٹین میں سبزیاں اور دالیں بھی شامل تھیں جو راشد کو سخت ناپسند تھیں۔ اس کی کوشش
ہوتی کہ وہ روز چکن یاپھر فاسٹ فوڈ کھائے۔ لیکن راشد کے والد ، انور صاحب ہوٹل کے
کھانے خاص طور پر فاسٹ فوڈ کے خلا ف تھے۔ کبھی کبھار وہ راشد کی ضد پر پزا اور
برگر وغیرہ لے آتے لیکن انہوں نے باہر کے کھانوں کو کبھی معمول نہیں بنایا۔چکن تو
امی جان بہت مزے کا بناتی تھیں اور جس دن چکن پکتا راشد اس دن عام دنوں کے
معاملے میں زیادہ روٹی کھا جاتا تھا۔ لیکن سبزی سے جسے اس کو نفرت تھی۔ جب بھی
سبزی پکتی ، وہ ضد کے کے منہ پھلا لیتا۔ پھر امی کبھی تو ڈانٹ کر کھلا دیتیں کبھی
اس کی فرمائش پر انڈا تل دیتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ
چھٹی کا دن تھا۔ راشد سو کر اٹھا تو گھر میں چکن کڑاہی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
’’ارے
واہ!آج تو چکن کا دن ہے۔ ‘‘ اس سوچ نے اس کا موڈ خوشگوار کر دیا اور وہ چھلانگ
لگا کر بستر سے باہر نکل آیا۔
جب
وہ نہا دھو کر باہر آیا تو اس نے دیکھا اس کی خالہ جان آئی ہوئی تھیں۔ ان کا
بیٹا سمیر راشد کا گہر ا دوست تھا۔ راشد اور سمیر دوپہر تک کھیلتے رہے۔ پھر کھانا
لگ گیا ۔ راشد دسترخوان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ امی جان نے چکن کڑاہی تو بنائی ہی
تھی لیکن اس کے ساتھ بینگن کا بھرتہ اور آلو گوبھی بھی تھی۔
’’امی
جان! آج تو چکن ڈے تھا!‘‘ راشد نے ایک نظر سبزیوں کے ڈونگے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں
بیٹا! لیکن سمیر کو آلو گوبھی اور آپ کی خالہ جان کو بینگن کا بھرتہ بہت پسند
ہے۔ اس لیے میں نے سوچا یہ بھی بنا لوں۔ ‘‘ امی جان نے پیار سے کہا اور سمیر کے
آگے آلو گوبھی کا ڈونگہ رکھنے لگیں۔
’’ہیں!
سمیر! تم سبزی کھاتے ہو؟ میں تو نہیں کھا سکتا۔ مجھے تو بالکل پسند نہیں
ہیں۔‘‘ راشد کی حیرانی کی انتہا نہ رہی ۔؎
’’ہاں
! راشد میں تو سب سبزیاں کھاتا ہوں۔ سبزیوں کے فائدے ہی اتنے ہیں۔ اور پھر یہ گوشت
کی طرح معدےپر بھاری نہیں ہوتیں۔ مجھے تو سب سے زیادہ لوکی اور آلو گوبھی پسند
ہیں۔‘‘ سمیر نے تو سبزیوں کے لیے پوری تقریر ہی کر دی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس
کو سبزیاں واقعی پسند تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپا!
میں کیا کروں راشدکا۔آپ ہی بتائیے کچھ۔ سبزی بالکل نہیں کھاتا ۔ جب بھی پکا لوں
بس یہی ضد ہوتی ہے اس کی کہ مجھے نہیں کھانا۔ کچھ اور بنا کر دیں۔ ‘‘ امی جان ،
راشد کی خالہ رقیہ آپا سے مشورہ کر رہی تھیں۔
’’ہاں!
وہ تو مجھے بھی آج نظر آیا ہے۔ میری ذہن میں ایک حل ہے اس کا۔ اگر تم کر سکو۔ ‘‘
رقیہ آپا کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے
ہفتے منگل کا دن تھا جب راشد سکول سے گھر آیا۔ آج اسے کچھ زیادہ ہی بھوک لگی
ہوئی تھی۔ صبح وہ ناشتہ کر کے نہیں گیا تھا اور بریک ٹائم میں لنچ بھی مکمل
کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
’’امی
جان! آج کیا پکایا ہے؟‘‘
’’بیٹا!
پہلے آپ نہا دھو کر آجاؤ۔ پھر آپ کو بتاتی ہوں۔‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے کہا
تو راشد حیران ہوتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
جیسے
ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس کو لگا وہ کہیں اور آگیا ہے۔ سامنے کی دیوار پر بڑے
بڑے چارٹ لگے ہوئے تھے۔ ہر چارٹ پر کسی نہ کسی سبزی کی تصویر بنی ہوئی تھی
اور نیچے بڑے بڑے الفاظ میں اس کے فائدے لکھے ہوئے تھے۔
’’میں
بینگن ہوں۔ پیارے راشد! آپ مجھے ضرور کھاؤ۔ میں ہاضمہ ٹھیک کرتا ہوں اور بھوک
لگانے میں مدد دیتا ہوں۔‘‘
’’میں
بند گوبھی ہوں۔ میں خون کی خرابیاں ٹھیک کرتی ہوں اور پیاس کی زیادتی ختم کرتی
ہوں۔‘‘
’’میں
میتھی ہوں۔ پیارے نبی کریم ﷺؑ کا فرما ن ہے۔ ’’میتھی سے شفاء حاصل کریں۔ میں کولیسٹرول
کم کرتی ہوں۔‘‘
’’میں
پالک ہوں۔ میں آپ کو طاقت دیتی ہوں۔ مجھے ضرور کھائیں۔‘‘
’’میں
کریلا ہوں۔ میں خون صاف کرتا ہوں۔ راشد! مجھے ضرور کھانا!‘‘
’’ہم
بھنڈی اور توری ہیں۔ ہمارے اندر وٹامن اے، بی، سی، اور ڈی ہوتے ہیں۔‘‘
’’میں
اروی ہوں۔ اگر راشد مجھے کھائے تو میں اس کے گردوں کو طاقت دوں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد
یہ سب دیکھ کر حیران تھا اور خوش بھی۔ کیونکہ اس کا کمرہ رنگ برنگا ا ور بہت پیارا
لگ رہا تھا۔ امی جان نے دوسری دیوار پر اس کی فیورٹ کار کے سٹیکرز بھی بہت سارے
لگائے تھے۔ بیڈ اور سٹڈی ٹیبل کی سیٹنگ بھی تبدیل ہو گئی تھی۔ میرے بچو! کچھ
وقت تو لگا لیکن راشد کو آہستہ آہستہ سبزیوں کا شوق ہو گیا۔ اب وہ سکول سے آکر
یہ نہیں پوچھتا کہ کیا پکایا ہے۔ بلکہ وہ پوچھتا ہے کہ سبزی پکی ہے یا نہیں!