میرےسوہنے
موہنے بچو! آم کے درخت پر بہت ساری چڑیاں رہتی تھیں۔ ان میں ایک نیلے پروں والی
چڑیا تھی جس کا نام نیلی تھا۔
نیلی
آج صبح صبح اٹھ گئی اور بولی۔
’’مجھے
ناشتے میں چاول کھانے ہیں۔‘‘
امی
چڑیا نے سمجھایا ۔’’پیاری نیلی! جو بھی ہمیں مل جائے اس پر اللہ کا شکر کرنا
چاہیے۔ منہ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘
نیلی
کو کبھی سمجھ نہ آتی۔کبھی امی جان سبزی پکاتیں اور کبھی روٹی کے مزیدار ٹکڑے اٹھا
لاتیں جو سب ہی شوق سے کھاتے لیکن نیلی تو بس چاول ہی پسند تھے۔ وہ
اکثر کھانے کی میز پرناراض ہو جاتی ۔منہ بنا کر الگ بیٹھ جاتی۔ اس کے سب بہن بھائی
مزے سے کھانا کھاتے اور اپنے کمروں میں جا کر سو جاتے ۔
ایک
دن نیلی سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔
’’آہا!
بارش! ‘‘ یہ کہ نیلی خوشی سے اڑی اور دوسری ٹہنی پر جا بیٹھی۔
’’آج تو میں خوب کھیلوں گی۔ موسم کتنا اچھا ہو گیا ہے اور آج
گرمی بھی نہیں لگے گی۔ ‘‘ یہ سوچ کر نیلی کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ ادھر ادھر
ٹھنڈی ہوا میں اڑتی رہی۔ کچھ دیر بعد جب وہ گھونسلے میں واپس پہنچی تو امی جان اٹھ
چکی تھیں اور ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں۔ وہ کچھ پریشان سی تھیں۔
’’امی
! آپ پریشان لگتی ہیں۔‘‘ نیلی نے پوچھا۔
’
’میرے بچو! آج کھانا ملنا بہت مشکل ہے۔ بارش کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نہیں
نکلتے اور کھانا بھی نہیں ڈالتے۔ جو پہلا کا بچا ہوا پڑا ہوتا ہے وہ پانی سے
بھیگ جاتا ہے اور ہم اسے نہیں کھا سکتے۔‘‘ امی جان نے بتایا تو ایک لمحے کے لیے
نیلی بھی پریشان ہو گئی۔ پھر اس نے سوچا۔
’’اوہ
ہو! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ مجھے پتہ ہے امی جان مذاق کر رہی ہیں۔ انہوں نے الماری میں
ضرور میرے لیے سفید سفید چاول رکھے ہوں گے۔ ‘‘ یہ سوچ کر نیلی اپنے گیلے
پروں کو خشک کرنے چلی گئی۔
’’امی
! مجھے بھوک لگی ہے۔ آج ناشتہ نہیں بنا کیا؟‘‘ نیلی کی ننھی بہن بھی اٹھ گئی تھی
اور اب امی سے پوچھ رہی تھی۔
’’
میں نے پرسوں والا کھانا گرم کر دیا ہے۔ ‘‘ امی جان نے کہا تو ننھی خوش ہو
گئی ۔
’’پرسوں
والا کھانا۔۔ ہم آج کھائیں گے؟ نہیں! نہیں!‘‘ نیلی نے بھی امی کی بات سن لی اور
اس نے کہا۔ ’’میں نے یہ باسی ٹکڑے نہیں کھانے۔‘‘
’’میری
پیاری نیلی! آج بارش ہو رہی ہے۔ ہم کھانا تلاش کرنے زیادہ دور نہیں جا سکتے۔آج
آپ کو یہی ناشتہ کرنا پڑے گا۔ ‘‘
امی
جان کچن میں چلی گئیں لیکن نیلی سوچنے لگی۔ ’’اف! آج تو بھوک بھی بہت لگ گئی ہے۔
اور میرا پسندیدہ کھانا بھی نہیں پکا۔ کیا کروں۔ چلو میں کچھ کھاتی ہی نہیں ہوں۔
کیا ہوا۔ کل کھا لوں گی۔ ‘‘
پھر
وہ گھونسلے سے باہر آگئی۔ اس نے دیکھا اس کی ساری سہیلیاں آ گئی تھیں اور اسے
بلا رہی تھیں۔ نیلی نے کچھ دیر ہی ان کے ساتھ کھیلا ہو گا کہ اس کے پیٹ میں بھوک
سے درد ہونے لگا۔
’’ہائے!
اب کیا کروں۔ اچھا دوستو! میں گھر جا رہی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ پھُر سے اڑی اور
اپنے گھونسلے میں واپس آگئی۔ اس نے دیکھا امی کچن صاف کر رہی تھیں۔
’’امی
جان! مجھے کچھ کھانے کو دیں ۔ ‘‘ نیلی نے کراہتے ہوئے کہا تو امی پریشان ہو گئیں۔
انہوں نے جلدی سے نیلی کو وہی روٹی کے ٹکڑے پانی میں بھیگے ہوئے لا کر دیے۔ اس بار
نیلی نے چپ چاپ کھاناکھا لیا۔
کھانے
کے بعد وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اس نے امی سے کہا۔ ’’میری توبہ امی جان! اب میں
کسی کھانے کو برا نہیں کہوں گی۔ ‘‘
امی
جان مسکرانے لگیں اور کہنے لگیں۔’’میری پیاری نیلی! سب کھانے اللہ کی دی ہوئی نعمت
ہیں۔ اسے برا نہیں کہنا چاہیے۔‘‘
’’امی
جان ! مجھے معاف کر دیں۔ اب میں سب کچھ خوشی خوشی کھاؤں گی۔ آپ کل میرے
لیے نارنجی رنگ والی دال ضرور بنانااور اگر ہو سکے تو۔۔ساتھ میں تھوڑے سے چاول
بھی۔‘‘ نیلی نے آخری جملہ آہستہ سے کہا تو امی جان ہنسنے لگیں ۔