میں نے سگریٹ کیسے چھوڑا ؟ (مکمل کہانی)

 


میں نے سگریٹ پینا کب شروع کیا اب تو ٹھیک سے مجھے یاد بھی نہیں ہے۔ ہاں اتنا بتا سکتا ہوں کہ میرے گھر کا ایک بہت اہم فرد سموکنگ جیسی بری عادت میں مبتلا تھا۔ تو وہ فرد میری فرسٹ انسپیریشن بن گیا۔ پھرجب میں ساتویں جماعت میں تھا تو  دوستوں کی حوصلہ افزائی نے مزید رنگ لگایا۔ یوں میں اس برائی میں آگے سے آگے بڑھتا گیا۔

 اب میری شادی کوبھی پانچ سال ہو گئے ہیں۔بیگم سموکنگ سے بہت چڑتی ہیں تو میں لان میں کر لیتا ہوں۔ پھر پان ٹافی منہ میں رکھ کر کمرے میں آجاتا ہوں۔ اب پتہ نہیں پھر بھی کیسے اس کو اسمیل آجاتی ہے اور اس کا منہ بن جاتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ میں اسموکنگ نہیں چھوڑ سکتا۔

اچھا!خیر!  میں بتا رہا تھا کہ  ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی مجھے اللہ پاک نے بیٹی جیسی نعمت سے نوازاہے۔جی جی خیر مبارک !  جب ہم ہسپتال سے گھر آئے تو میری ننھی پری  دونوں ٹھیک ٹھاک تھی۔ لیکن دوسرےہفتے سےاس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ پہلے تو ہم معمولی بخار سمجھے بلکہ میری اماں کا خیال تھا ۔ 



بچہ بہت صحت مند ہو تو نظر بھی بہت جلدی لگتی ہے۔ اسی لیے یہ بیمار ہو گئی ہے۔ لیکن جب وہ ایک ہفتے کے بخار اور نزلے کے بعد بے سدھ ہونے لگی تو ہم ہسپتال کو دوڑے۔ بیگم کو اس کی والدہ کے ہاں چھوڑدیا کہ خود اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔این آئی سی یو میں اسے جب شفٹ کر دیا گیا تو مجھے لگا کہ میرا دل بھی  جکڑا گیا ہے کچھ۔ نہ جانے کیوں ہر باپ کو اپنی بیٹی سے اتنا پیار کیوں ہوجاتا ہے۔

’’یا پھر شاید ہماری ننھی پری پورے پانچ سال کے انتظار کے بعد آئی ہے اسی لیے یہ مجھے اتنی اچھی لگ رہی ہے۔ ‘‘ میں نے اس کے ننھے پاؤں کو تصور میں لاتے ہوئے سوچا۔ جب سے این آئی سی یو میں شفٹ ہوئی ہے نرسوں نے تومجھے اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھنے دی۔ بس دوائیوں کی لسٹ پکڑا کر کھڑکی بند۔ لو جی!


اچھا چلو! یہی بہتر ہے ان ننھے منے فرشتوں کو جراثیموں سے بچانے کے لیے۔ بے چار ے خود ڈاکٹرز بھی تو کتنی احتیاط کر رہے ہیں۔ ہاتھوں میں گلوز منہ پر ماسک سفید صاف ستھرا لباس پاؤں میں صاف جوتے۔اللہ ان کو اجر دے۔ پتہ نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو ڈاکٹرز کو قصائی کہتے ہیں۔ مجھے تو یہ واقعی میں مسیحا لگتے ہیں۔فرشتوں جیسے!

اچانک رونے کی آواز سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ بنچ پر بیٹھتے ہوئے نظر تو پڑی تھی میری اس لڑکے  پر لیکن زیادہ غور اس لیے نہیں کیا تھا کہ اپنی ہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔

’’آپ رو۔۔ کیوں رہے ہو بھائی۔ کیا آپ کابھائی زیادہ بیمار ہے؟‘‘ اس کی عمر کے حساب سے میں نے یہی اندازہ لگالیا کہ اس کا کوئی چھوٹا بھائی یا بہن این آئی سی یو میں ہو گا۔

اس نے جلدی سے ناک صاف کی اور غمگین آواز میں  بولا۔



’’بھائی؟‘‘ اس  نے روتے روتے ہی منہ بنایا اور کہنے لگا۔

میرا بیٹا بہت زیادہ بیمار ہے لیکن میں اس لیے نہیں رور ہا۔‘‘

یکدم مجھے ہنسی آگئی۔ مجھ سے عمر میں اتنا چھوٹا تھا یہ لڑکا اور اتنی جلدی اس کی شادی  اور پھر بچہ بھی ہو گیا۔

’’پھر! رونے کی کیا وجہ ہے۔ مرد رویا نہیں کرتے بھائی۔ آپ کی بیگم نے آپ کو دیکھ لیا یوں روتے ہوئے تو مذاق اڑائے گی ۔‘‘ میں نے اس کا موڈ اچھا کرنے کے لیے کہا۔

’’اڑانے دو مذاق ۔ میں کوئی کیا اس سے کم ہوں۔ ‘‘ لڑکے نے جلدی سے کہا۔

’’ اور میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔‘‘ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر اس نے این آئی سی یوکی ان کھڑکیوں کی جانب دیکھا جو باہر لان میں کھلتی تھیں۔

’’میرا بیٹا میری وجہ سے زیادہ بیمار ہو گیا ہے۔‘‘

’’کیوں ۔۔ کیسے؟‘‘ میں الجھ ہی تو گیا۔

’’وہ میں۔۔۔۔میں سموکنگ کرتا ہوں۔ جب ثناء ہسپتال میں تھی تو تب میں بہت پریشان تھا۔میں اس کے ساتھ ہسپتال نہیں جا سکا تھا۔ اپنی نائٹ ڈیوٹی کی وجہ سے۔ پھر جب وہ گھر آئی تو اس نے مجھ سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی۔ مجھے لگا وہ مجھ سے ناراض ہے۔ میں نے بہت اسموکنگ شروع کر دی۔ سموکنگ کر کے اپنے بیٹے کو اٹھاتا تو مجھے یکدم سکون سا مل جاتا۔ لیکن میرا بیٹے کو میری گود میں سکون نہیں ملا۔ اسے سگریٹ کی بو سے  سانس کا مسئلہ ہو گیا۔ میں نہیں جانتا تھا لیکن سگریٹ کی بو تومیری کپڑوں اور میرےمنہ میں رچی ہوئی ہوتی تھی اورمیں اندر آتے ہی اسے گود میں لے لیتا اور دیر تک پیار کرتا رہتا۔ مجھے احساس تک نہ ہوا کہ میں اسے اپنے ہاتھوں سے بیمار کر رہا ہوں۔ بس ایک ہفتے میں ہی اس کی سانس بگڑنا شروع ہو گئی اور اب۔۔۔۔ وہ وینٹی لیٹر پر ہے۔ ڈاکٹر مجھے کوئی امید نہیں دلاتے۔ کیوں بھلا کیوں؟‘‘

اتنا کہہ کر اس نے پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔

’’ثناء مجھے روکتی تھی لیکن میں نے کب بھلا اس کی بات مانی ہے۔ اماں کہتی ہیں بیوی کی ہر بات ماننی بھی نہیں چاہیے ورنہ سر پر چڑھ جاتی ہیں۔لیکن دیکھوناں ! کتنا ٹھیک کہتی تھی وہ۔ ننھے بچے سگریٹ کی بو برداشت نہیں کر پاتے۔ انہیں سانس کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘ اس کا لہجہ پچھتاووں سے بھرا ہوا تھا۔

’’آں ہاں! دیکھو! مایوس مت ہو۔ اللہ سے مانگو بس! ‘‘  میں بس اتنا ہی کہہ پایا۔



میں اور کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس کا موبائل بجنے لگا۔ وہ فون سننے کے لیے ایکسکیوز کرتے ہوئے اٹھ کر چلاگیا۔

میں ذرا ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا اور جیب سے لائٹر اور ڈبی دونوں نکال لیے۔

’’ٹش!‘‘ ہلکی سی آواز کے ساتھ سگریٹ سلگ اٹھا۔ پہلے کش کے ساتھ ہی میری نظر ساتھ پڑے اس لڑکے کے بیگ پر پڑی۔ کوئی بے بی بیگ تھا۔ پیارا سا۔

’’اوہ! یہ کہاں چلا گیا فون سنتے سنتے!‘‘ میں نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ اچانک میرے ذہن میں کچھ الفاظ گونجے۔

’’ کتنا ٹھیک کہتی تھی وہ۔ ننھے بچے سگریٹ کی بو برداشت نہیں کر پاتے۔ انہیں سانس کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔‘‘

میں اچھل کر بنچ سے یوں کھڑا ہو گیا جیسے مجھے اسی بنچ پر سو واٹ کا کرنٹ لگا ہو۔ ہاتھ میں پکڑا ہو سگریٹ ۔۔کانٹے کی طرح چبھنے لگا۔طرح طرح کے وسوسے دل میں آنے لگے۔ اپنی پریوں جیسی بیٹی ماہم کا گلابی چہرہ بار بار سامنے آنے لگا۔اس کی بند ناک، کھینچ کھینچ کر سانس لینا۔

’’تو کیا ماہم میری بیٹی بھی۔۔؟‘‘

اس سے آگے میں نہ سوچ سکا۔ دل کیا کہ اٹھا کر پھینک دوں لائٹر بھی اور سگریٹ کی پوری ڈبی بھی۔ ڈبی اٹھا بھی لی اور اٹھ کر کھڑا بھی ہوا لیکن ۔۔۔۔۔

لیکن پھر اس کم بخت دھویں کی محبت غالب آگئی اور میں دھپ سے دوبارہ ببنچ پر بیٹھ گیا۔

’’واٹ ربش!۔۔یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ہونہہ! بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔یہ آج کل کے لڑکے بھی ۔۔ ذرا سی بات کو لے کر ایمونشنل سے ہو جاتے ہیں۔ نہیں بھئی! ایسے تو کسی کی جان نہیں جاتی۔ وہ بھی بھلا اسموکنگ سے۔ لو ! یہ نئی بات  سنی ہے۔‘‘



اسی طرح کی اوٹ پٹانگ سوچوں سے میں نے خود کو ریلیکس کیا اور موبائل نکال کر بیگم کو کال ملانے لگا۔وہ میکے میں تھی۔

’’کیا بتایا ڈاکٹر نے؟‘‘  بیگم نے کال ملتے ہی پوچھا۔

’’کچھ نہیں۔ ابھی تو بس ڈرپس لگی ہوئی ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں تو آپ نے پوچھنا تھا کہ ہماری بے بی ٹھیک ہے  ناں؟ اسے بس بخار ہی تھا اور تو زیادہ مسئلہ نہیں ہے؟‘‘

’’ہاں! میں نے پوچھا تھا ۔ کل صبح جو ڈاکٹر راؤنڈ پر آئیں گے اس سے پوچھوں گا تفٖصیل سے۔‘‘

میں اندر سے اچھا بھلا پریشان ہو چکا  تھا لیکن میں نے ناز پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح ڈاکٹر نے میرے سر پر بم ہی پھوڑ دیا۔

’’بچی کی سانس ٹھیک نہیں لگتی۔ اسے آکسیجن لگانی پڑے گی۔ اگر اس سے بہتر نہ ہوئی تو ہمیں اسے وینٹیلیٹر پر شفٹ کرنا پڑے گا۔‘‘

’’کک کیا مطلب۔۔‘‘ میں اچھا بھلا اس لمحے ہکلا کر رہ گیا۔ الفاظ میرے منہ میں ہی رہ گئے اور میں یک ٹک ماہم کو دیکھنے لگا۔کتنی پیاری لگ رہی تھی وہ گلابی کمبل میں لپٹی لپٹائی۔

’’لیکن یہ ڈاکٹر کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ میں نے کچھ الجھ کر سوچا۔ شاید یہ کسی اور کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ماہم کو تو صرف بخار ہے۔

’’جی! پھر کیا سوچا آپ نے؟‘‘ ڈاکٹر نے میرا کندھا ہلایا۔

’’کک۔۔کس بارے ۔۔ میں؟‘‘ میں اندر تک گھبرا گیا۔

سسٹرز نے میری طرف قابل ترس نظروں سے دیکھا ۔

اس سے آگے کی داستان سناتے ہوئے میرے ہونٹ کپکپا رہے ہیں۔ یہ کم بخت ہونٹ اس وقت کیوں نہ کانپے جب میں سموکنگ کر کے اندر آتے ہی ماہم کو گود میں لے لیا کرتا تھا۔ اس ننھی پری نے میری اس بد عادت کو بالکل پسندنہ کیا۔ اسے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا۔ اب وہ وینٹی لیٹر پر تھی اور آدھی سانس مشین کے ذریعے سے لے رہی تھی۔



بے چارہ وینٹ بھی کیا کرتا۔ دو دن ہی میں اس نےہمت ہار دی اور میری ماہم میر ی پری نے بھی۔ وہ واپس اسی دنیا سدھار گئی جہاں سے آئی تھی اور ہم سب کو روتا کلبلا تا چھوڑ گئی۔ باقی سب کو اس کے جانے کا غم تھا مجھے اس کے جانے کے سبب بن جانے کا غم ستائے دیتا تھا۔ اس کی سانسیں چلی گئیں کیونکہ میری سانسیں آلودہ تھیں وہ برداشت نہیں کر سکی ان کی بدبواوراندر سے بیمار ہوتی چلی گئی۔ ہمیں تب پتہ چلا جب اسے بخار ہونا شروع ہوا۔ اب مجھے سانس نہیں آتی تھی۔ مجھے نیند نہیں آتی تھی یہ سوچ سوچ کر کہ میری پری میری وجہ سے دنیا سے چلی گئی۔ میں شدید ڈیپریشن کا مریض ہو گیا۔ ناز نے میرا بہت ساتھ دیا۔ اس نے ایک بار بھی مجھے گلٹ فیل نہیں کرایا حالانکہ ڈاکٹرز نے ہم دونوں کے سامنے کہا تھا کہ بچی کو لنگز کا انفیکشن اسی فیصد اسی لیے ہوا ہے کہ فادر سموکنگ کرتے ہیں۔ آہ!! آہ!! آپ اس پچھتاوے کا تصور کر سکتے ہیں۔

اور کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اس سب کے بعد سگریٹ نوشی ترک کر دی؟ تو آپ غلط ہیں۔ میں جس قدر ڈیپریشن میں چلا گیا تھا، میں نے اور زیادہ سگریٹ پینے شروع کر دیے۔ ہاں اب ناز سے مکمل طور پر چھپا لیتا تھا۔ آفس میں پی لیتا تھا یا پھر دوستوں کے ساتھ۔ لیکن میں اسے بالکل چھوڑ نہیں سکا تھا۔ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے شاید پہاڑوں جتنی ول پاور چاہیے جو میرے پاس بالکل نہیں تھی۔ اتنے بڑے حادثے سے گزرنے کے باوجود بھی نہیں تھی۔

اس دن بھی میں یونہی، آفس سے آ کر پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھا اسی شغل میں مصروف  تھا کہ ایک موٹر سائیکل کی آواز آئی ۔ پھر ایک اڑتا ہوا کاغذ گیٹ پر سے ہوتا ہوا اندر آگرا۔ ہوا تیز تھی ۔ تو کاغذ سرکتے ہوئے میرے پاؤں کے پاس آکر رکا۔

میں نے اٹھا کر ایک نظر پر ڈالی۔ کسی جم کا پمفلٹ تھا۔ میں آفس سے آکر فارغ ہی ہوتا تھا۔ سوچا ، کیوں نہ جم جائن کر لیا جائے۔ کہیں سے دل میں یہ بات بھی تھی کہ جم جانے سے ول پاور بڑھ جاتی ہے تو سگریٹ نوشی چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ بس! میں نے اگلے ہی دن سے دو گھنٹے کے لیے جم جانا شروع کر دیا۔

پہلے پہل تو میں ذرا گھبرا گیا۔ میرا جو ٹرینر تھا، وہ سارا وقت میرے ہی سر پر کھڑ ا رہتا تھا، حالانکہ اور بھی اس کے کئی کسٹمر ہوں گے۔ لیکن ناں جی! میں ذرا اس کی نظر بچا کر ٹریڈ مل کی سپیڈ کم کرنے کی کوشش کرتا یا آہستہ دوڑتا تو وہ کہتا۔

’’سر! واک نہیں کرنی۔ رننگ کرنی ہے۔ پلیز ۔ مشین کی سیٹنگ نہ چھیڑیں۔ یہ میرا کام ہے۔ ‘‘



لو جی! ایک ہی ہفتے میں میرا دو کلو وزن کم ہو گیا۔ میں اندر سے خاصا ہشاش بشاش محسوس کرنے لگا۔ تین ہفتے ناز کہنے لگ گئی۔’’سمارٹ ہونے لگے ہیں۔ احتیاط کریں۔ نظر لگ جائے گی۔ ‘‘

دو ماہ بعدرمضان کا مہینہ آگیا۔ سموکنگ کرنے والے جانتے ہوں گے ، اگر وہ دل سے سموکنگ چھوڑنا چاہتے ہوں تو رمضان کا مہینہ اس کام میں بہت مدد دیتا ہے۔ سو میں نے اس بار پکی ٹھان لی۔

’’اب اس ناسور سے جان چھڑا کر رہوں گا جس نے میری بیٹی مجھ سے چھین لی۔ ‘‘

میں آپ کو بتانا بھول گیا۔ ہمارے ہاں پھر سے نیا مہمان آنے کو تھا۔ سو، یہ بھی ایک موٹیو بن گیا میری سموکنگ کو چھڑانے کو۔

پہلی افطاری کے بعد بار بار میرا دل کہتا۔ چلو اٹھو۔ کسی بہانے سے باہر چلو۔ لیکن میں دل کی بات کو نظر انداز کیے صوفے پر مزید جم کر بیٹھ جاتا اور اپنے آپ کو ناز اور امی کے ساتھ باتوں میں لگا لیتا۔بہت بے چینی ہوتی تو موبائل اٹھا کر تلاوت لگالیا، دوستوں سے واٹس ایپ کر گپ شب کر لیتا ۔

یوں ایک ایک کر کے روزے گزرتے چلے گئے۔ میں اندر ہی اندر مضبوط ہوتا گیا ۔ عید آگئی۔ عید کے بعد پھر وہی بے چینی اور سگریٹ کی خواہش عود کر آئی لیکن اس بار شدت بہت ہی کم تھی۔ بس آہستہ آہستہ اللہ پاک نے مجھے سموکنگ کی بری لت سے نکال لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج جب کہ پورا ایک سال ہو چکا ہے اور میں نے سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں ملایا ہے، تو میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ کہ آپ جب کسی چیز کا ارادہ کر لیں تو بس پھر پکے ہو جائیں۔ اورباقی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ خود ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جو آپ کی مدد کرتے ہیں  اور آپ کے لیے راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔

میں جب قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے اللہ پاک مجھے سے باتیں کر رہے ہیں۔ آج ہی سورۃ آل عمران کی  ایک آیت میری  نظر سے گزری ہے۔

فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ (159)

 پھر جب تم اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔

اس آیت میں میری اس ساری روداد کا خلاصہ ہے۔

اگر آپ یا آپ کے کوئی رشتہ دار سموکنگ کرتے ہیں تو آپ انہیں میری یہ آب بیتی ضرور پڑھوائیے گا۔

اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں لکھ پاؤں گا کیونکہ میرے  چھ ماہ کے بیٹے محمد احمد زور و شور سے رونے لگے ہیں۔ ناز کچن میں ہے۔ مجھے ہی اس کو اٹھانا ہے۔ امی اپنے کمرے میں ہیں۔ وہ آج کل زیادہ چل پھر نہیں سکتیں۔ میں محمد احمد کو اس کی دادی کے پاس لے کر جا رہا ہوں۔

مجھے اجازت دیجیے۔ اپنا خیال رکھیے اور ہو سکے تو دعاؤں میں میری اس ننھی پری کو بھی ہمیشہ یاد رکھیے  جو میری ایک خراب عادت کی وجہ سے روٹھ کر چلی گئی تھی۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھر سکتا۔ یہ پچھتاواتو عمر بھر کا ہے اور سائے کی طرح ساتھ رہے گا۔

چلیں سوری! میں آپ کو اداس نہیں کرنا چاہتا۔  خوش رہیے۔ اللہ حافظ!


ad: YOUR BABY IS PREICOUS