میمو میمنا اور میں میں بکری



 میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک
 ننھے منے سے میمنے، میمو کی جو صحرا کے ایک گاؤں میں رہا کرتا تھا۔ میمو کی امی کا نام میں میں بکری تھا۔ میں میں بکری کے مالک نے ان کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنا رکھا تھا۔ اس گھر کے بس دو کمرے تھے۔ ایک کھانے اور پینے کا کمرہ۔ اس کمرے میں میں میں بکری اور میمو کے لیے کچھ سوکھی ہوئی گھاس اور پانی کا برتن رکھا تھا۔ ایک سونے کا کمرہ تھا جس میں بھورے رنگ کی گھاس کا بستر بچھا تھا۔ 

ایک دن صبح جب میمو سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا۔ میں میں بکری کمرے میں نہیں تھی۔ 

"امی! آپ کہاں ہیں؟ امی آپ کہاں ہیں؟:

میمو زور سے چلایا۔

میں میں بکری جلدی سے اندر آئی اور کہنے لگی۔

"بیٹا میں یہاں ہوں۔ میں تمھارے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ جلدی سے ناشتہ کر کے باہر آو۔ آج ہم سیر کرنے جائیں گے۔"

سیر کا سن کر میمو خوشی سے اچھلا۔ وہ کھانے والے کمرے میں آچکا تھا۔ اس کے زور سے اچھلنے سے پانی کا برتن بھی اچھلا اور کچھ پانی ادھر ادھر گر گیا۔ 

یہ دیکھ کر میمو کو مزہ آیا۔ وہ اور زور سے اچھلنے لگا بلکہ چھلانگیں لگانے لگا۔ برتن میں سے پانی کے چھینٹے اڑنے لگے حتی کہ وہ خالی ہو گیا۔ بھوری گھاس بھی گیلی ہو چکی تھی۔ 

میں میں بکری جانے کہاں تھی۔ کافی دیر پانی سے کھیلنے کے بعد میمو گھر سے باہر آیا تو اس نے دیکھا۔ صحن میں کوئی بھی نہیں تھا 

میں میں بکری دوسرے جانوروں کے ساتھ جا چکی تھی۔ 

"امی میرے بغیر کیسے چلی گئیں؟" 

میمو نے اداسی سے سوچا۔ 

شام تک وہ اداس ہی رہا۔ 

جب میں میں واپس آئی تو اس نے میمو کو بہت پیار کیا اور کہنے لگی۔

"پیارے بیٹے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھ لیا تھا کہ تم پانی ضائع کر رہے تھے۔ نہیں۔ پانی کا خیال رکھتے ہیں۔ اسے ضائع نہیں کرتے۔ ورنہ یہ ناراض ہو جاتا ہے۔"

"ٹھیک ہے امی۔ لیکن آپ مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئیں؟"

میمو نے اپنا منہ میں میں کے پیٹ سے رگڑتے ہوئے پوچھا۔ 

"میں سمجھی کہ تم گائے آپی کےساتھ ہو۔ اس لیے میں بھی باہر نکل گئی۔ "

اتنا کہہ کر میں میں بکری نے میمو کو پیار کیا۔

"اچھا۔ اب سو جاو۔ بہت رات ہو گئی ہے۔"

میمو لیٹ گیا لیکن وہ سمجھ نہ سکا کہ میں میں بکری اور دوسرے جانور تالاب سے پانی پینے کیوں گئے تھے۔ 

"پانی تو یہاں گھر میں بھی تھا۔" 

میمو سوچتا رہا پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ 

صبح جب وہ اٹھا تو گرمی شدید تھی۔ میمو کو ایک دم بہت پیاس لگی۔ وہ جلدی سے کھانے والے کمرے میں گیا لیکن یہ کیا! 

پانی والا برتن خالی تھا! اب تو پیاس کے مارے میمو کا برا حال تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کیسے اس نے اس دن اچھل اچھل کر پانی کو ضائع کیا تھا۔

"امی! امی! پانی ناراض ہو گیا ہے۔ دیکھیں ناں! وہ چلا گیا ہے۔" 

میں میں نے کہا۔ 

"نہیں میمو! اصل میں پانی اب گھر میں نہیں ہے۔ ہمیں پیاس بجھانے کے لیے تالاب پر جانا پڑے گا۔" 

یہ سن کر میمو خوش ہو گیا۔

"آہا! تالاب۔ امی مجھے تالاب پر جانے کا بہت شوق ہے۔ چلیں پھر چلتے ہیں۔" 

تھوڑی دیر بعد میمو، میں میں بکری اور دوسرے جانور تالاب پر پہنچ گئے۔

جب وہ پانی پینے کے لیے جھکے تو انہوں نے دیکھا۔ تالاب کا پانی بہت کم رہ گیا تھا۔ وہ شاید دو یا تین دن ہی مزید رہتا۔ 

"امی! یہاں پانی اتنا تھوڑا کیوں ہے۔" میمو نے واپس جاتے ہوئے کہا۔

" مجھے میرے دوست نے ایک بار بتایا تھا کہ تالاب تو پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ تو نہاتا بھی تھا تالاب پر۔ میں اس پانی میں نہا بھی نہیں سکتا امی! یہ تو بہت تھوڑا ہے۔"

"ہاں! تو جب تالاب بھر جائے گا تو تم پانی میں خوب نہانا۔ چلو! اب گھر آگیا ہے۔ شور نہیں کرنا۔ میں نے بتایا تھا ناں کہ مالک کی چھوٹی بیٹی بیمار ہے۔ وہ شور سے ڈر جاتی ہے۔" 

"جی امی! میں نے تو کب سے میں میں نہیں کی۔ یہ تو گائے آپی ہیں جو بار بار بولتی ہیں۔" 

میمو نے آہستہ سے کہا لیکن اس کے آگے چلتی ہوئی گائے آپی سن چکی تھیں۔ 

"ہوں ں ں ں! ننھے میمنے! کیا تم کم شور مچاتے ہو۔ ذرا میرے پاس آؤ میں تمھیں بتاتی ہوں۔" 

گائے آپی نے غصے سے کہا تو میمو جلدی سے اپنے گھر میں گھس گیا۔ 

خواب میں وہ تالاب کے پانی سے خوب خوب نہایا۔ لیکن جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔

یہ اس لیے بچو کہ گرمی کا موسم تھا اور ہر طرف گرم لو چلتی رہتی تھی۔ میمو میمنا ہی کیا سبھی جانور پیاس سے بے حال ہوجاتے تھے۔ 

جب جانور جلدی جلدی چلتے چلتے تالاب پر پہنچے تو اور پریشان ہو گئے۔ 

پانی تو بہت سارا سوکھ چکا تھا۔ 

بس ہر ایک جانور کے حصے میں ایک یا دو گھونٹ ہی آئے۔ میمو میمنے نے بھی مشکل سے تین گھونٹ پیے۔ وہ اداس تھا۔ 

"امی! تالاب میں پانی کب آئے گا؟" 

"بیٹا! جب بارش ہو گی۔"

"اور بارش کب ہو گی امی!" 

میمو نے الجھن سے پوچھا۔

"تم دعا کرو بیٹا۔ کہ جلدی سے بارش ہو جائے۔ پھر تالاب خوب پانی سے بھر جائے گا۔ پھر تم جی بھر کا پانی پینا اور نہانا۔"

"ٹھیک ہے امی جان! میں آج دعا کروں گا۔ کیا اللہ پاک۔۔۔ میری دعا۔۔ مان لیں گے امی؟"

"کیوں نہیں۔ اللہ پاک سب سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ اللہ پاک بہت پیارے ہیں اور ہم انہی سے ہر دعا مانگنی چاہیے۔"

میں میں بکری نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 

بہت سارے دن گزر گئے۔ میمو میمنا کمزور ہو گیا تھا۔ میں میں بکری تو ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ پانی جو نہیں تھا تو جانور ادھ موئے سے ہوئے پڑے تھے۔ کئی چھوٹے جانور اور پرندے تو مر بھی چکے تھے۔ بکرے، بکریاں اور گائیں اور اونٹ سبھی پیاس سے بے حال تھے۔ سب تالاب خشک ہو گئے تھے اور کنویں سوکھ چکے تھے۔ کہیں بھی پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ 

میمو میمنا دعا والی بات بالکل بھول چکا تھا۔ 

اس دن وہ گائے آپی کے کمرے کے پاس سے گزرا۔ وہ دعا مانگ رہی تھیں۔

"یا اللہ سلامتی والی بارش برسا دے۔"

"آہا! دعا۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔ میں بھی دعا مانگتا ہوں۔۔۔ یا اللہ! سلامتی والی بارش برسا دے۔ میں میں میں! یا اللہ سلامتی والی۔۔۔ ' 

وہ سارا دن مینو میمنا دعا کرتا رہا۔

اگلے دن اس کی آنکھ بادلوں کی آواز سے کھلی۔ اس نے جلدی سے باہر نکل کر دیکھا۔ خوب گہرے بادل آئے ہوئے تھے۔ 

بچے خوشی سے شور مچا رہے تھے اور بڑے اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ 

"امی! امی! بادل آگئے۔ بارش آگئی۔ امی! امی!" 

میمو میمنا خوشی خوشی بھاگا ہوا میں میں بکری کے پاس آیا۔ میں میں بکری نے کوئی جواب نہ دیا۔ 

"امی! امی! بارش آگئی ہے۔ دیکھیں ناں۔ کتنے پیارے بادل آئے ہیں۔ اٹھ جائیں ناں۔" 

لیکن میں میں بکری نہ اٹھ سکی۔ وہ مر چکی تھی۔ 


میرے پیارے بچو! میمو میمنا اس دن سب جانوروں کے ساتھ تالاب پر گیا اور سب نے خوب جی بھر کر پانی پیا۔ بارش زور شور سے ہوتی رہی۔ کنوئیں اور تالاب بھر گئے۔ لیکن ہمارا میمیو میمنا اپنی امی کے بغیر اداس اور خاموش رہا۔


بچو! آج کل جو گرمی پڑ رہی ہے، اس موسم میں صحرا میں رہنے والے بہت سارے جانور پیاس سے بے حال ہیں۔ کئی ایک میں میں بکری کی طرح اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں۔ اگر میں آپ سے ایک درخواست کروں تو کیا آپ مانیں گے؟ پانی ضائع نہ کریں۔ پانی کا خیال رکھیں ورنہ یہ ناراض ہو جاتا ہے۔ ان اداروں کو اپنی پاکٹ منی ڈونیشن میں دے دیں جو صحرا میں جا کر پیاس سے بے حال لوگوں اور جانوروں کی مدد کر رہے ہیں۔ 


اور ہاں! اپنی امی جان کو میرا سلام دیں اور ان کو گلے سے لگا کر کہیں۔ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میرے بچو! جیسے پانی کے بغیر رہا نہیں جاتا، ایسے ہی امی جان کے بغیر سانس آئے نہیں آتا۔  امی ہوں تو زندگی بہار ہے، امی نہ ہوں تو بے شک تالاب بھرے رہیں، کہیں نہ کہیں پیاس لگی ہی رہتی ہے۔