’’جی! گیم تو خراب ہو جائے گی اگر میں نے خود ہی بتا دیا۔‘‘
’’نہیں! نہیں!میں خود ڈھونڈوں گی۔ ‘‘ یہ کہتے ہی مانو نے
برآمدے میں ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں اس سے سارا
برآمدہ چھان مارا ۔ کرسیوں کے نیچے پیچھے اور اوپر بھی دیکھ لیا۔پچھلے باغ میں
کھلنے والی کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر دیکھے اور دادی جان کے تخت پر بھی ڈھونڈ
لیا اور لیکن کچھ نہ ملا۔
مانو مایوس ہو کر ڈرائنگ روم میں چلی آئی اور تھکی ہاری
صوفے پر بیٹھ گئی۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا۔ اس نے جلدی جلدی صوفے کے گدے
الٹنا شروع کیے لیکن ان کے نیچے بھی کچھ نہیں تھا۔ پھر اس نےمیز پر رکھا گلدان
دیکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہاں
پلاسٹک کی نقلی سٹرابری کے پھل کے ساتھ سنہری رنگ کا ’’م‘‘لٹکا ہوا تھا۔کاغذ بھی
گلدان کے اندر سے ہی مل گیا۔
اس پر لکھا تھا۔
’’حضرت محمد ﷺ کسی پر غصہ نہیں ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے
فرمایا۔’’تم میں طاقتور وہ ہے جو غصے کو قابو میں رکھے۔‘‘ اس لیے تم بھی غصہ تھوک
دو اور ماہا اور فواد کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ۔‘‘
مانو نے ٹھنڈی سانس بھری اور سوچا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں اب غصہ نہیں کروں گی۔ لیکن ان دونوں
کی شرارتوں کا حل کیا ہے؟ ہر روز تو میری کوئی نہ کوئی چیز خراب ہو جاتی
ہے۔‘‘
مانو نے اداسی سے سوچا اور ڈرائنگ روم سے باہر آگئی۔
باہر آتے ہی اس کی نظر سامنے باغ پر پڑی۔ وہاں کرسی پر ایک
ڈبا رکھا ہوا تھا۔وہ دیکھنے میں گفٹ باکس لگتا تھا۔ سرخ رنگ کے ریپر میں لپٹا ہوا۔
’’یہ ڈبا کہاں سے آیا ہے۔ ابھی تو یہ یہاں نہیں تھا۔‘‘
مانو نے سوچا اور جلدی سے آگے آکر دیکھا۔
’’ہو نہ ہو چوتھا ٹکڑا اس میں ہے۔‘‘
یہ خیال آتے ہی مانو کے اندر جوش بھر گیا اور اس نے ڈبے کو
کھولنا شروع کر دیا۔
’’اوہ ہو! یہ کیا کر رہی ہو مانو! ‘‘ امی جان کمرے سے باہر
آئیں تو ڈانٹ کر کہنے لگیں۔
’’یہ میں نے خالہ انعم کے لیے تحفہ تیار کیا تھا ۔ تمھیں
معلوم نہیں آج حیدر کا عقیقہ ہے۔‘‘
امی نے کہا اور پھر ڈبے کو ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگیں۔
’’خدایا! تم نے سارا کھول دیا بلکہ ریپر پھاڑ دیا۔ اب پھر
مجھے پیک کر نا پڑے گا۔‘‘
’’اچھاچلو! تم کھانا کھالو۔ میں دادی جان کو بھی بلا تی
ہوں۔‘‘
امی نے کہا اور کچن میں چلی گئیں۔
مانو خاموشی سے کھانے کی میز پر آگئی۔ اس نے کرسی گھسیٹی
اور تھکے تھکے انداز میں بیٹھ گئی۔
’’دادی جان سے کہتی ہوں کہ چوتھا ٹکڑا وہ خود ہی بتا
۔۔۔۔ارے یہ کیا!‘‘ مانو نے اپنے سامنے رکھی پلیٹ اٹھائی تو نیچے سنہری رنگ کا
’’د‘‘ جگمگا رہا تھا۔کاغذ بھی ساتھ تھا۔
’’آہا! دادی! دادی جان! پزل مکمل ہو گیا۔ گیم ختم!!
ٓاہا!‘‘ مانوکاغذ کو بھول گئی اور پزل کا ٹکڑا اٹھائے برآمدے میں بھاگی۔اس کی
ساری تھکاوٹ اور بوریت دور ہو گئی تھی۔
دادی جان تخت پر بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔
’’شاباش مانو شاباش! تم نے اتنی جلدی سارے ٹکڑے ڈھونڈ لیے۔
زبردست! ‘‘ دادی جا ن نے مانو کو خوب شاباش دی۔پھر انہوں نے پزل کے چاروں ٹکڑے ایک
ساتھ رکھے۔ م ح م د۔ محمد ۔ ﷺ۔ لفظ مکمل ہو گیا تھا اور پزل باکس میں پڑا ہوا بہت
خوبصورت لگ رہا تھا۔
’’اچھا! ’’د‘‘ کے ساتھ رکھا ہواکاغذ پڑھا تم نے؟ اسی میں تو
تمھارے مسئلے کا حل ہے!‘‘ دادی جان نے پزل باکس ایک طرف رکھا اور پوچھنے لگیں۔
’’اوہ! نہیں تو! وہ وہیں رہ گیا۔ ٹھہریں ! ابھی لے کر آتی
ہوں!‘‘
مانو نے یہ کہہ کر واپس کھانے کی میز کی طرف بھاگی۔ پھر اس
نے جلدی سےکاغذ اٹھایا اور دادی جان کے پاس آگئی۔کاغذ پر لکھا تھا۔
’’حضرت محمد ﷺ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا کرتے تھے۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا۔’’ اچھائی اور برائی برابر
نہیں ہوسکتی۔ تو (برائی کا) اس طرح سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو
گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا (بہترین اور )گرم جوش دوست ہے!‘‘
(سورۃ حم سجدہ، 34)‘‘
ما نو نے ناسمجھی سے دادی جا ن کو دیکھا۔ دادی جان نے اس کا
ہاتھ پکڑ کر پیار سے اپنے پاس تخت بٹھایا اور بولیں۔
’’مجھے تمھاری امی نے ماہا اور فواد کے بارے میں سب کچھ بتایا
ہے کہ وہ کس کس طرح تمھیں پریشان کرتے رہتے ہیں اور یہ کہ تم ان سے کتنی تنگ ہو۔میری
پیاری مانو! میں تمھیں بتانا چاہتی ہوں کہ حضرت محمد ﷺ نے ان سب لوگوں کو معاف کر
دیا جنہوں نے آپ ﷺ کو سالوں تک تکلیفیں ہی تکلیفیں دیں۔ اور میں تو کہتی ہوں کہ
قرآن کی اس آیت پر آج ہی عمل کیے دیتے ہیں۔ یعنی ہم بھی بری شرارتوں کا بدلہ
اچھی بات سے دیتے ہیں۔وہ یہ کہ ہم ماہا اور فواد کو اچھے سے دو تحفے دیتے ہیں اور
آئندہ بھی تم انہیں چھوٹی چھوٹی چیزیں تحفے کے طور پر دیتی رہنا۔ تم دیکھو گی کہ
وہ کتنی جلدی تمھارے بہت اچھے دوست بن جائیں گے!‘‘
’’دادی جان! کوئی ہمارے ساتھ برا کرے اور ہم اس کے ساتھ اچھا
کریں تو ہمیں کیا ملے گا پھر؟‘‘ مانو نے
سوچتے ہوئے پوچھا۔
’’جنت! ہمیں جنت ملے گی جو دنیا کے ہر گھر سے پیاری ہے اور جہاں جا کر ہم حضرت محمد ﷺ سے مل سکیں گے ،
اللہ پاک سے باتیں کیا کریں گے اور جو ہمارا دل چاہے گا وہ ہمیں وہاں مل جایا
کرےگا۔‘‘
’’آہا! اللہ پاک سے باتیں! حضرت محمد ﷺ سے بھی ملیں گے! جنت کتنی اچھی ہو گی!‘‘ مانو نے
خوشی سے اچھل کر کہا۔
’’پھر ٹھیک ہے! بتائیں! ماہا اور فواد کو کیا تحفے دیں! ‘‘
مانو پر جوش ہو گئی تھی۔ دادی جان نے کہا۔
’’چلو! پھر کھانے کی میز پر چل کر ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! مانو نے ماہا اور فواد کو اگلے دنوں میں بہت
سارے تحٖفے دیے۔ وہ ہر روز کوئی چھوٹا سا تحفہ پیک کرتی اور چپکے سے اوپر والے
پورشن کی سیڑھیوں میں رکھ آتی۔ ہر تحفے کے اوپر ایک چھوٹا سا کارڈ رکھا ہوتا جس
پر لکھا ہوتا تھا۔
’’بہترین دوست کے لیے!‘‘
اور پھر وہی ہوا ۔ جو میرے اورآپ کے اللہ پاک نے قرآن پاک میں
بتایا ہے۔
اگر آپ کالونی کے سب سے پہلے گھر کے سامنے سے گزریں جو دو
منزلہ ہے اور اس کے سامنے والے چھوٹے سے باغ میں تین بچے کھیل رہے ہیں ، تو آپ
جان جائیں کہ یہی ہماری مانو، ماہا اور فواد ہیں ! جی ہاں! ماما اور فواد نے مانو
کو تنگ کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے اور اب وہ تینوں گہرےاور گرم جوش دوست بن گئے ہیں!
اور ہاں! اگلی کہانی میں دادی جان مانو کے لیے اس سے بھی مشکل
پزل لے کر آئیں گی! کیا مانو اس کو بھی ایک ہی دن میں حل کر پائے گی یا پھر۔۔۔!
بس ! اس سے آگے جاننے کے لیے آپ کو میری اگلی کہانی پڑھنی پڑے گی! آہا! نئی
کہانی!اور کیا چاہیے!