مانو، فواد اور ماہا بہترین دوست کیسے بنے - 1



’’آہا! دادی جان آئی ہیں!‘‘ مانو نے سکول سے آتے ہی نعرہ لگایا۔ وہ دروازے کے ساتھ پڑے دادی جان کے بڑ ے سے سفری بیگ کو دیکھ چکی تھی۔ دادی جان جب بھی لاہور سے مانو کے گھر رہتی آتیں، اس کے لیے ہر بار نئی گیم لے کر آتیں۔ یہی وجہ تھی کہ مانو ان کے آنے سے بہت خوش ہوتی تھی۔

مانو، شہیر صاحب کی اکلوتی اولاد تھی۔ شہیر صاحب بزنس کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتے، سو گھر میں مانو اور اس کی امی ہی ہوتی تھیں۔گھر کی اوپر والی منزل انہوں نے کرائے پر چڑھا رکھی تھی۔ آج کل نئے کرایہ داروں سے مانو خوب تنگ تھی۔

ان کےدونوں بچے مل کر خوب شور شرابہ کرتے، اونچی اونچی چیخیں مارتے، اور جب شام کو مانو پڑھنے بیٹھتی تو وہ بلند  آواز سے کارٹون نیٹ ورک لگا لیتے۔ یوں مانو کا سارا دھیان موٹو پتلو کارٹون کی آوازوں کی طرف چلا جاتا۔ کئی دنوں سے وہ ٹھیک طرح سےپڑھ نہیں سکی تھی ۔چھٹی کے دن ، نئے کرایہ داروں کے بچوں کو باغبانی کا شوق چڑھتا اور وہ مانو کے چھوٹے سے باغ میں گھس جاتے جہاں مانو نے بہت محنت سے طرح طرح سے پھول پودے اگا رکھے تھے۔ بچوں کے والدین انہیں کئی بار تنبیہ کر چکے تھے لیکن بچے بہت شرارتی تھے۔ دو بار  تو انہوں نے کھڑکی سے نیچے صحن میں کھڑی مانو کے اوپر پانی بھی پھینکا ۔

مانو کی امی بہت نرم دل کی تھیں۔ وہ ان شرارتی بچوں کو  بہت ہلکی سی ڈانٹ پلاتیں اور بس! دوسرا ان کی والدہ مسز  زبیدہ بہت اچھی خاتون تھیں۔ مانو کی امی کو بچوں کے والدین سے کوئی شکایت نہ تھی۔ سو، جب بھی مانو جواد اور ماہا کی شرارتوں سے تنگ پڑتی، اس کو سمجھ نہ آتا کہ اس کا کیا حل نکالا جائے۔

’’دادی جان کو بتاؤں گی ان بدتمیز بچوں کے بارے میں۔ وہی اب کوئی حل نکالیں۔ اب دیکھتی ہوں یہ جواد اور ماہا میرے پودوں کو کیسے نقصان پہنچاتے ہیں!‘‘ مانو نے یونیفارم بدلتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا۔ خود وہ کوئی زیادہ شرارتی نہیں تھی ۔اس کے بس دو ہی شوق تھے۔ ایک کہانیوں کی کتابیں پڑھنا، دوسرا باغبانی کرنا۔ یا پھر جب دادی جان رہنے آتیں تو ا ن کی لائی ہوئی گیم کو انہی کےساتھ مل کر کھیلنا۔

’’دادی جان! آپ اس بار کون سی گیم لائی ہیں۔ جلدی بتائیں ناں! کیا میں بیگ کھول لوں؟‘‘ مانو نے بے صبری سے کہا۔ وہ کھانے کی میز پر دادی جان کے ساتھ بیٹھی تھی۔


’’کوئی گیم نہیں۔ پہلے کھانا کھاؤ۔ پیلٹ پوری ختم کرنی ہے۔‘‘ امی نے کہا تو مانو جلدی جلدی کھانا کھانے لگی۔

’’اس بار میں لائی ہوں ایک زبردست گیم! یہ دیکھو! ‘‘ کھانے کے بعد دادی جان نے بیگ کھولا اور اس میں سے ایک سنہری ڈبہ نکالتے ہوئے کہا۔ مانو اشتیاق سے دادی جان کے بستر پر بیٹھ گئی اور ڈبے کو ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگی۔ پھر اس نے جلدی سے لکڑی کا ڈھکن اٹھایا تو وہ حیران ہی  رہ گئی۔

ڈبے کے اندر سنہری رنگ کا پزل رکھا تھا۔ اس کے  چاروں ٹکڑے مل کر لفظ ’’محمد‘‘ بناتے تھے۔ یہ سنہری رنگ کا پزل تھا اور بہت خوبصورت! مانو خوشی سے نہال ہو گئی۔

’’بہت شکریہ دادی جان!‘‘ اس نے کہا ۔

’’کیا میں اسے اپنے کمرے میں لے جاؤں ؟‘‘

’’نہیں! یہ تو پزل ہے۔ اسے بس جوڑتے نہیں ہیں۔ دیکھو! اس کے چار ٹکڑے ہیں۔ چاروں میں مختلف جگہ پر رکھوں گی ۔ ہر ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کے بار ے میں hintدے گا کہ وہ کہاں رکھا ہے۔ دیکھتے ہیں تم چاروں ٹکڑے تلاش کر پاتی ہو یا نہیں! یہ ہے کھیل!‘‘ دادی جان  یہ کہتی ہوئی مسکرائیں اور پزل باکس مانو کے ہاتھ سے لے لیا۔

’’ٹھیک! دادی جان! اب تو یہ میرے لیے چیلنج ہو گیا! میں تو دس منٹ میں ہی آپ کو چاروں ٹکڑے ڈھونڈ کر دکھا دوں!‘‘

مانو نے جوش کے مارے ہاتھوں کو آپس میں جوڑا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’چلیں! پھر کھیلیں!‘‘

’’جی نہیں! رات ہو گئی ہے۔ اب میرا بیٹا! آپ جاؤ۔صبح ہی یہ کھیل شروع کریں گے۔‘‘ دادی جان یہ کہہ کر لحاف اوڑھنے لگیں۔ وہ  جب بھی آتی تھیں،  مانو کے کمرے میں ہی سوتی تھیں۔

مانو بھی لیٹ گئی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ دادی جان کہاں کہاں پزل کے ٹکڑے چھپا سکتی ہیں۔

’’گھر تو میرا سارا دیکھا بھالا ہے۔ یہ پزل حل کرنا کون سی مشکل بات ہے! ہی ہی ہی!‘‘ مانو یہ سوچ کر دل ہی دل میں ہنسی اور سو گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی  ۔ دادی جان چپکے چپکے جاگ رہی تھیں اور پزل کا پہلا ٹکڑا چھپانے کےلیے ایک نہایت جگہ بھی سوچ چکی تھیں۔ اب انہیں صبح کا انتظار تھا!

اگلے دن چھٹی تھی ۔مانو کی آنکھ ایک زوردار دھماکے سے کھل گئی۔ وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی اور جلدی سے صحن میں آئی تو کیا دیکھتی ہے۔ دیوار کا پررکھا اس کا پسندیدہ موتیا کا گملہ اب فرش پر ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا ہے۔

’’اوہ! اوہ! امی! یہ کس نے کیا؟‘‘

’’بیٹا! جواد اور ماہا چھت پر بیٹ بال کھیل رہے ہیں۔ وہ بال ہی نیچے آکر لگی اس گملے کو اور یہ نیچے گر گیا۔ چلو! تم اداس مت ہو۔ میں انہیں ڈانٹوں گی ضرور۔ آؤ ناشتہ کر لو۔ ‘‘

امی نے اسے تسلی دی اور پیار کیا۔ پھر اپنے ساتھ ناشتے کی میز پر لے آئیں۔ مانو کا دھیان گملے سے زیادہ پزل میں اٹکا ہوا تھا۔ و ہ سوچ رہی تھی کہ  دادی جان نے پہلا ٹکڑا کہاں چھپایا ہو گا۔ اسی سوچ میں اس نے خلاف معمول جلدی جلدی ناشتہ ختم کر لیا۔دادی جان بھی میز پر آچکی تھیں اور اب چائے پی رہی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مانو کو دیکھ کر مسکرابھی رہی تھیں۔

’’دادی جان! کیا میں اب پزل کا ٹکڑا ڈھونڈ سکتی ہوں؟ ‘‘ مانو نے بے تابی سے پوچھا۔

’’ہاں! گیم شروع!‘‘ دادی جان نے کہا تو مانو اچھل کر کرسی  سے کھڑی ہو گئی۔

سب سے پہلے وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی ۔ اس نے جلدی جلدی میز کی سب درازوں میں دیکھا۔ بستر کا گدا اٹھا کر دیکھا۔ تکیہ کے غلاف میں بھی ایک نظر جھانک لیا۔ پھر وہ الماری کی طرف بڑھ گئی۔ سارے خانے چیک کر لیے حتیٰ کہ کپڑے ہٹاکر اٹھا کر اچھی طرح جھاڑ کر بھی دیکھ لیے، پزل کا ٹکڑا تو کہیں بھی نہیں تھا۔ مانو مایوس سے قدموں سے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔ دروازے تک پہنچ کر اس نے ایک بار پھر پورے کمرے پر نظر دوڑائی۔

’’اوہ! کھڑکی تو چیک کی ہی نہیں۔ ضرور وہیں ہو گا پزل کا ٹکڑا!‘‘

یہ خیال آتے ہی وہ بھاگ کر گئی اور پردہ ہٹا کر دیکھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے دونوں پٹ کھول کر سڑک پر بھی جھانک لیا ۔

’’دادی جان نے تو بہت ہی مشکل جگہ سوچی ہے اس بار۔چلو! اب ماما کے کمرے میں ڈھونڈتی ہوں۔‘‘

پھر وہ دروزے کی طرف بڑھ گئی۔ جاتے جاتے اس کی نظر میز پر رکھے لیمپ پر پڑی۔ اس کی چھتری کچھ ٹیڑھی سی لگ رہی تھی۔ ایک خیال آنے پر مانو نے جلدی سے لیمپ کی چھتری اٹھا کر دیکھی۔ پزل کا سنہری رنگ کا ٹکڑا ’’م‘‘ وہاں سکاش ٹیپ سے چپکا ہوا تھا۔ساتھ ہی ایک لکھا ہواکاغذ بھی تھا۔

’’آہا! میں نے ڈھونڈ لیا! میں نے ڈھونڈ لیا!‘‘

مانو نے نعر ہ لگایا۔ باہر بیٹھی دادی جان مسکرائیں لیکن بولیں کچھ نہیں۔ابھی مانو کے لیے اور بھی چیلنج باقی تھے۔

مانو نے پزل کا ٹکڑا’’م‘‘ ایک طرف رکھا اورکاغذ کواٹھا کر پڑھا ۔ لکھا تھا۔

’’حضرت محمد ﷺ معاف کر دیا کرتے تھے۔آپ بھی ماہا اور فواد کو گملہ توڑنے کےلیے معاف کر دیں! ‘‘

مانو کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی ۔

پھر وہ باہر آئی اور’’م‘‘ لا کر دادی جان  کے تخت پر رکھ دیا اور بولی۔

’’اچھا! اب میں دوسرا ٹکڑا ڈھونڈنے جا رہی ہوں۔امم!! مجھے یقین ہے کہ دوسرا ٹکڑا یعنی ’’ح‘‘  آپ نے باغ میں چھپایا ہے۔‘‘

مانو دوڑتی ہوئی باغ میں آئی اور ہر جگہ نظر دوڑانی لگی۔ ایک جگہ اسے گلاب کے پودے پر ایک کاٖغذ اٹکا ہوا نظر آیا۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر وہ کاغذ پودے پر سے اتار لیا اور اسے کھول کر دیکھا۔ اندر سنہری رنگ کا ’’ح‘‘ چپکا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا۔

’’حضرت محمد ﷺ اپنے پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ نہیں لیا کرتے تھے ۔ہمیں بھی ان جیسا بننا چاہیے۔‘‘

’’امم! یعنی میں ماہا اور فواد سے بدلہ نہ لوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے میرا سب سے پسندیدہ گملہ خراب کیا ہے۔ چلو معاف کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ بدلہ۔۔ میں نے تو ان کی شکایت لگانی تھی آنٹی کو اور ان کی ٹیچر کو بھی!‘‘

مانو یہی سب سوچتی ہوئی اندر آئی تو دادی جان کچن میں تھیں۔ اس نے تخت پر رکھے پزل باکس میں احتیاط سے دوسرا ٹکڑا’’ح‘‘ بھی رکھ دیا اور وہیں کھڑے کھڑے کہنے لگی۔

’’دادی جان! میں نے ’’ح‘‘ بھی ڈھونڈ بھی لیا ہے لیکن ۔۔کاغذ پر عمل کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ کیونکہ ۔۔ کیونکہ مجھے ماہا اور فواد پر بہت غصہ آیا ہوا ہے۔‘‘

دادی جان کچن سے ہی بولیں۔

’’اچھا! چلو!پہلے  تم تیسرا ٹکڑا تلاش کرو۔پھر دیکھتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ آپ نے کہاں رکھا ہے!‘‘ مانو ایک دم سے پوچھنے لگی۔

دادی جان ہنس پڑیں۔