کھلونوں کی جنگ اور عقل مند ڈائنو سار- 1



 بچو! ابھی جب کہ یہ ناول میں لکھ رہی ہوں تو میرے ذہن میں ایک ننھے سے ڈائنو سار کی باتیں آرہی ہیں جو اس نے باقی کھلونوں سے کہی تھیں۔ یہ ننھا ڈائنو سار جو سبز رنگ کا ہے اور آہستہ آہستہ چلتا ہے، ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی  سبزپہاڑی کے اوپر بیٹھا ہے۔ پہاڑی کے ایک طرف بنچ ہے اور دوسری طرف سلائیڈ اور جھولا لگا ہوا ہے۔ کچھ پتھر بھی سرمئی سے رنگ کے ایک طرف پڑے ہیں۔ یہ ننھے  ڈائنو سار کا پارک ہے۔ اس کا نام ایلو ہے اور یہ اسی پہاڑی کے اوپر بیٹھا رہتا ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں اس لیے بتار ہی ہوں کیونکہ جب ناول کے بیچ میں سب کھلونے آپس میں لڑنے لگیں تو ہمارا ننھا ایلو ان کھلونوں کی صلح کروائے گا۔ اور یہ سب کیسے ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے آپ میرے ساتھ پڑھنا شروع کریں ۔

یہ اس وقت کی جب کھلونوں کی اس بڑی سی  دکان، جی ۔کے ٹوائے سٹور  میں کافی سارے نئے کھلونے آئے تھے۔ وہ ابھی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ کچھ ڈبوں میں بند تھے اور کچھ باہر فرش پر بکھرے تھے۔ دکان کا مالک ٹرک سے کھلونوں کے ڈبے اتار اتار کر تھک گیا تو وہ دکان بند کر کے گھر چلا گیا ۔

کچھ دیر بعد ڈبوں میں اچھل کود شروع ہو گئی۔ چھلانگیں لگانے والا بندر ڈبے سے باہر آنا چاہتا تھا۔


’’کوئی مجھے کھولے۔ میں  سب کو ایک بہت اونچی قلابازی لگا کر دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

ٹینک والا فوجی بھی اپنے ٹینک کو سٹارٹ کر رہا تھا۔

’’زوں! زوں! زوں!‘‘ اس کے ڈبے میں سے تو اتنی اونچی آوازیں آرہی تھیں کہ ایسا لگتا تھا کہ ٹینک  گتے کو پھاڑتا ہوا باہر آجائے گا۔

ٹیڈی بئیر ، ٹرین اور پٹڑی، ریسنگ کار اور گلابی گڑیائیں سب کی سب  سوچ رہی تھیں کہ نہ جانے کب ان کو الماری میں رکھا جائے گا۔ ایک پیانو نے تو خود کو ہی بجانا شروع کر دیا۔

’’ٹوں ٹوں ںں ٹوں ٹوں ٹوں‘‘

یہ آواز سن کر رنگ برنگے بلاکس اندر ہی اندر ہلنے لگے۔

’’ارے کوئی ہمیں نکالے یہاں سے۔ ہم نے پیانو کو دیکھنا ہے کہ وہ بجتا ہوا کیسا لگتا ہے۔‘‘

آخر کار اس شور شرابے سے تنگ آکر ایک گڑیا الماری میں سے نیچے اتری۔ یہ ایک بوڑھی سی گڑیا تھی۔اس کے سفید بال اورسفید  اونی گاؤن  دیکھ کر کوئی بھی اس کو نہیں خریدتا تھا۔ یوں اس گڑیا کو اس دکان میں رہتے ہوئے کئی سال ہو چکے تھے۔ سفید گڑیا نیچے آئی اور سب کھلونوں کو ان کے  ڈبے میں سے باہر نکال دیا۔

’’آہا! کیا خوبصورت اور بڑی جگہ ہے! میں ادھر بہت اچھی طرح دوڑ سکتی ہوں۔‘‘

 سب سے پہلے ریسنگ کار بولی ۔ وہ اپنے اگلے دونوں ٹائروں پر کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

’’جی نہیں! آپ آرام سے بیٹھی رہیں۔ مجھے کار کی آواز سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔‘‘ باربی ڈول نے منہ بنا کر کہا۔ وہ باہر آتے ہی اپنے بال درست کرنے لگ گئی تھی۔

’’ہاں تو! میں نے کس الماری میں سونا ہے؟‘‘ موٹے سے ٹیڈی بئیر نے آگے پیچھے جھومتے ہوئے کہا۔ ایسا لگتا تھا اسے بہت نیند آئی ہوئی ہے اور اسے باقی سب کھلونوں سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔

’’تم ہر وقت سوتے رہتے ہو۔ دیکھو! مجھے دیکھو! میں کتنا ایکٹو ہوں! ‘‘ چھلانگیں لگانے والا بندر بولا۔ وہ ڈبے سے باہر آکر دس چھلانگیں لگا چکا تھا۔ اس کی چھلانگیں دیکھ دیکھ کر رنگ برنگےABC والے  بلاکس ہنستے ہنستے ادھر ادھر ہو رہے تھے۔

اتنے میں ایک بلاک نے کہا۔

’’بھئی! گم مت ہو جانا۔ سب بلاکس پاس پاس رہیں۔ خاص طور پر A اور J  والے بلاک دھیان رکھیں ۔ تم لوگ پہلے بھی غائب ہو گئے تھے۔ ‘‘

جو کھلونے پہلے سے الماریوں اور ریکس میں رکھے ہوئے تھے، وہ بھی نئے کھلونوں کے شور اور بات چیت سے جاگ گئے تھے۔

ٹیلی فون نے اپنی لمبی سی تار سمیٹی اور کہنے لگا۔

’’تم سب کو خوش آمدید! یہاں بہت آرام ملے گا ۔ ہر روز دکان کا ایک ملازم ہمیں نرم کپڑے سے صاف کرتا ہے اور ہمارے اوپر سینیٹائزر بھی چھڑکتا ہے۔ بس تم لوگوں نے لڑنا نہیں ہے۔ ہاں! جب رات ہو جاتی ہے تو ہم دعوت کرتے ہیں ۔ ہم میں سے کوئی ایک کھلونا کسی ایک کے گھر جا کر کھانا کھاتا ہے۔‘‘

’’آہا! کھانا!‘‘ ٹیڈی بئیر کی نیند اڑ گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’ہاں تو! میں کہاں کھانا کھاؤں؟‘‘