سفید گڑیا بولی۔ ’’آج آپ سب میرے مہمان ہیں۔ چلیں! میرے
گھر چلیں۔‘‘
یہ کہہ کر سفید گڑیا ایک سفید ہی رنگ کے گھر کی طرف چلنے
لگی۔ اس گھر کی کھڑکیاں نیلے رنگ کی تھیں ۔ گھر کی پچھلی جانب ایک چھوٹا سا کتا
بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اتنے سارے کھلونوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اٹھ کر کھڑا ہو
گیا۔
’’آہا! گڑیا آپا! آپ کا گھر تو بہت پیارا ہے ۔‘‘ ایک
بلاک نے ادھر ادھر اچھلتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! بہت بڑا بھی!‘‘ بندر بولا۔
’’لیکن یہ کچھ بور سا ہے۔ مجھے سفید رنگ زیادہ پسند نہیں
ہے۔‘‘ باربی گڑیا ناک چڑھا کر بولی۔
تھوڑی دیر بعد سب کھانے کی میز پر اکٹھے ہو گئے تھے۔ سفید
گڑیا نے آہستہ آہستہ کھانا میز پر لگانا شروع کیا۔ ریسنگ کار اور ٹینک والا فوجی
اس کی مدد کررہے تھے۔ گاجر ، مولی اور کھیرے والا سلاد، سفید ابلے ہوئے چاول،
چھوٹا سا روسٹ چکن، بڑی بڑی پلاسٹک کی سبزیاں جیسے بینگن، ٹماٹر اور مٹر، دو بڑی
بڑی مچھلیاں۔
’’یہ کیا! زنگر برگر نہیں ہے کیا؟‘‘ ٹیڈی
بئیر نے ایک نظر میز پر ڈالی۔
’’آپا!! ایہم ایہم!‘‘ ٹرین گلا صاف کر کے کہنے لگی۔’’کیا
آپ مجھے پیپسی منگوا کر دے سکتی ہیں۔ ویسے میں رات کے کھانے میں سیون اپ بھی پی
لیتی ہوں۔ یہ عجیب سے رنگ کا قہوہ دیکھ کر
الجھن سی ہو رہی ہے۔‘‘
’’میں تو۔۔ رات کے کھانے میں پزا کھاتی ہوں۔مجھے بینگن
بالکل پسند نہیں ہیں۔‘‘ باربی ڈول تو کرسی دھکیل کر کھڑی ہوگئی۔
’’آنٹی! کیا آپ کے پاس نوڈلز ہیں۔ ہمیں تو بس وہی پسند
ہیں۔‘‘ بلاکس کچھ پریشان سے تھے اور وہ بار بار آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔
سفید گڑیا گھبرا گئی۔ وہ تو اپنے خیال میں بہت اچھا کھانا
لائی تھی۔
’’بچو! یہ کھانا بھی تو بہت اچھا ہے۔ تم یہ سلاد چکھ کر تو
دیکھو۔‘‘
’’ایہو! پتے اور گھاس تو میں بالکل نہیں کھاتی۔ ‘‘ ریسنگ
کار بھی ناراض ناراض سی ایک طرف کھڑی تھی۔
’’ٹوں ٹوں ٹوں!! مجھے رنگ برنگی کینڈیز اور ببل گمز اچھے لگتے
ہیں۔ میں تو بس وہی کھاتا رہتا ہوں۔۔ سارا دن! ٹوں ٹوں ٹوں!!‘‘ پیانو نے فخر سے بتایا ۔و ہ خود
بھی رنگ برنگا سا تھا۔
صرف چھلانگیں لگانے والے بندر نے تھوڑا سا چکن کھایا ۔
بلاکس نے چاول بس چکھ کر رکھ دیے۔ ٹینک والا فوجی البتہ ، شوق سے مچھلیاں کھاتا
رہا۔
جب سب کھلونے چلے گئے تو سفید گڑیا نے جلدی جلدی برتن
سمیٹے۔ وہ یہ برتن ، چائے کی کتیلی سے ادھار لائی تھی۔ چائے کی کتیلی بہت اچھی تھی
اورہر دعوت پر اپنے سارے کپ اور پلیٹیں تھوڑی دیر کے لیے دے دیا کرتی تھی۔
’’آپ اداس لگتی ہیں گڑیا آپا!‘‘ جب سفید گڑیا برتن واپس
کر کے جانے لگی تو کتیلی بول اٹھی۔
سفید گڑیا نے ایک لمبی سانس لی۔
’’ہاں! کھلونوں کو میرا کھانا پسند نہیں آیا۔‘‘
’’کیوں! کیوں!‘‘
چائے کی کتیلی حیران رہ گئی۔ وہ دیکھ رہی تھی کسی نے بھی
کچھ خاص نہیں کھایا تھا۔ سب کا سب کھانا یونہی بچ رہا تھا۔
’’پتہ نہیں! ایسا تو پہلی بار ہوا ہے۔‘‘ سفید گڑیا اداسی سے
بولی اور واپس چل دی۔راستے میں اس نے سبز رنگ کی ایک دم دیکھی جو دائیں بائیں ہل
رہی تھی۔
’’یہ۔۔ یہ کیا ہے!‘‘ سفید گڑیا نے جلدی سے ٹرین کےپیچھے جا
کر دم کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ صبح ہونے والی
تھی۔ سبھی کھلونے ڈبوں میں واپس جا چکے تھے۔ سفید گڑیا نے بھی اپنے کپڑے ٹھیک کیے،
بال دوبارہ سے باندھے اور شوکیس میں جا کر بیٹھ گئی۔
’’میں ۔۔ ڈائنو سار ہوں۔‘‘
اچانک ہی قریب سے ایک آواز آئی تو سفید گڑیا اچھل پڑی۔