ابھی ابھی اماں سے لڑائی ہوئی ہے۔ کہتی ہیں تیری شادی اس
وقت تک نہ کروں گی جب تک تیری تینوں بہنوں کی شادی نہ ہو جائے۔ لو بھلا بتاو۔ اگر
صائمہ کا ہر رشتہ آ کر چلا جاتا ہے اور اگر نیلو کا بی اے پاس ہو کر نہیں دے رہا
تواس میں میرا قصور ہی کیا ہے۔ اور چھوٹی۔۔ تو اس کی شادی تک تو میرے بال سفید ہو
جائیں گے کیونکہ وہ ابھی صرف میٹرک میں ہے۔ لیکن اماں کو کون سمجھائے۔
کتنی ہی بار اماں کو یقین دلا چکا ہوں کہ شادی کے بعد بھی صائمہ نیلو اور چھوٹی کا ایسے ہی خیال رکھوں گا پر اماں تو اردگرد کے حالات دیکھ کر ڈری ہوئی ہیں۔
خیر آپ سے کیا چھپانا عمر میری 32 سال ہو گئی ہے اور تین سال سے ابا کی پنسار اور دواخانے کی دکان بہت ہی اچھی طرح چلا رہا ہوں۔ بلکہ اب تو آس پڑوس کے لوگ مجھے جیدو کی بجائے حکیم جاوید کہنے لگے ہیں۔ ہاہ! اکا دکا سفید بال جو کنگھی میں آنے لگےہیں۔
کل ہی مجھے ساتھ والی کوثر گلی میں ملی ہے۔
کتنی ہی بار اماں کو یقین دلا چکا ہوں کہ شادی کے بعد بھی صائمہ نیلو اور چھوٹی کا ایسے ہی خیال رکھوں گا پر اماں تو اردگرد کے حالات دیکھ کر ڈری ہوئی ہیں۔
خیر آپ سے کیا چھپانا عمر میری 32 سال ہو گئی ہے اور تین سال سے ابا کی پنسار اور دواخانے کی دکان بہت ہی اچھی طرح چلا رہا ہوں۔ بلکہ اب تو آس پڑوس کے لوگ مجھے جیدو کی بجائے حکیم جاوید کہنے لگے ہیں۔ ہاہ! اکا دکا سفید بال جو کنگھی میں آنے لگےہیں۔
کل ہی مجھے ساتھ والی کوثر گلی میں ملی ہے۔
اب آپ سے کیا چھپاوں
میری بچپن کی محبت ہے۔ دیوار سے دیوار ملی ہے ہماری اور شاید دل سے دل بھی۔ کہہ
رہی تھی جیدو تم اماں کو کب بھیجو گے۔ میری ممانی تو اس بار سمجھو بات پکی کرنے
آنے لگی ہیں۔ میں کیا کہتا۔ بس اتنا ہی بول پایا کہ اماں نہیں مانتیں۔ کہتی ہیں
پہلے صائمہ اور نیلو کی کریں گی پھر میری باری آئے گی۔
یہ سن کر وہ ہمیشہ سے زیادہ اداس ہو گئی۔ شاید اس کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارا ملن ممکن نہیں ہے۔
چلو جی مٹی پاو محبت پہ۔ میرا اصل مسئلہ تو اب کچھ اور ہوتا جا رہا ہے۔ جب بھی یار دوستوں میں بیٹھتا ہوں جن کے دو چار بچے بھی ہو گئے ہیں۔ تو ان کی باتیں سن سن کر خون کھولنے لگتا ہے اور بے اختیار میرا دل کرنے لگتا ہے ابھی جاوں کوثر کا ہاتھ پکڑوں اور مسجد کے امام صاحب کے پاس لے جاوں۔ نکاح پڑھاوں اور گھر لے آوں۔ لیکن یہ ارادہ بس ارادہ ہی ہے۔ نہ میری اتنی ہمت ہے نہ کوثر کبھی اس طرح میرے ساتھ شادی پر راضی ہو گی۔
تو پھر کیا کروں کہاں جاوں۔ کبھی سوچتا ہوں خودکشی کر لوں۔ سارا دن سوچتا رہتا ہوں اماں کو شادی کے لیے کیسے مناوں۔ دکان پر کیبل لگوا بیٹھا تھا۔ بس جی بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ سارا دن ناچ گانے دیکھ دیکھ کر گھر جاتا تو گندے خیالات میرے ساتھ چمٹے ہوتے تھے۔ دل کی خواہشات سر اٹھا اٹھا کر اول فول بکنے لگتیں۔ تنگ آکر میں نے کیبل ہٹا دی۔
پتہ نہیں کیوں ابا بھی میری حمایت میں نہیں بولتے۔ ماشاءاللہ سے اللہ زندگی دے انہیں اس جون میں ساٹھ سال کے ہو جائیں گے اور اماں اٹھاون کی لیکن عمر کے اس حصے میں بھی دونوں اکھٹے ہی سوتے ہیں۔ پھر میں اور میری خواہشات انہیں کیوں نظر نہیں آتیں۔ وہ میرے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ یہ سوچ سوچ کر میں تھک گیاہوں۔
امام صاحب سے بات کی ہے۔ وہ سہہ روزہ لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں وہ۔ بس اب جو جمعرات آئے گی تو میں بھی بسترا تیار کر کے نکل جاوں گا۔ دکان ابا دیکھ لیں گے۔
ابا اکثر کہتے ہیں پتر پہلے لاکھ ڈیڑھ لاکھ جمع کر لے۔۔بری میں پرانے جوڑے اور ولیمے میں چھوہارے کھلائے گا کیا مہمانوں کو۔
میں کہنا چاہتا ہوں ابا ولیمے میں کھجوریں بھی کھلائی جا سکتی ہیں اور نکاح مسجد میں بھی تو ہو سکتا ہے سادہ طور پر۔ آخر نبی جی پاک کی سنت ہے۔ میں ہر جمعے کا خطبہ غورسے سنتا ہوں۔ امام صاحب کھول کھول کر بتاتے ہیں نبی جی کے ہر طریقے کو۔ اس جمعے کو جب امام صاحب نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا بتایا تو میں سوچتا ہی رہ گیا کہ دین مین اتنی آسانی بھی ہے اور ہم نے یقین کرو جی شادی کو ہمالیہ پہاڑسر کرنا بنا دیا ہے۔
اور رہ گئی بری تو کوثر دو جوڑوں میں بھی میرے ساتھ خوش رہ لے گی۔ پر یہ سب کہہ کر ابا سے بے شرم اور اماں سے بے دید اور بے غیرت ہونے کے طعنے کون سنے۔ سو خاموش رہتا ہوں۔
بڑے بزرگوں سے سنا ہے پہلے زمانوں میں چھوٹی عمروں میں شادی ہو جایا کرتی تھی۔ واہ کیا دور ہوتا تھا۔ نہ کمانے کی شرط نہ پاوں پر کھڑا ہونے کا جنون۔ بس جیسے ہی لڑکا جوان ہوا تو والدین نے شادی کر دی۔ سارا خرچہ ماں باپ برداشت کر لیا کرتے تھے اور خرچہ بھلا ہوتا بھی کیا تھا۔ بھئی نہ ان دنوں مہنگے ہوٹلوں میں بکنگ ہوتی تھی نہ چھبیس کھانوں کا کورس چلتا تھا۔ نہ۔لڑکی والے جہیز میں بحریہ یا ڈی ایچ اے میں پلاٹ مانگتے تھے نہ دودھ پلائی کی رسم میں ہزاروں اڑانے کا رواج تھا۔ نئے نئے جوان ہوئے بچے نکاح کے پاکیزہ بندھن میں بندھ جاتے تھے۔ سو برائیوں سے بچتے تھے اور حلال طریقے سے خواہشات پوری کر لیتے تھے۔ اور آپ مجھے دیکھ لیں۔ مجھے جوان ہوئے نہ جانے کونسواں سال ہے اور اب تک میں اللہ جھوٹ نہ بلوائے نفسیاتی مریض سا بن گیا ہوں۔
بس بھئی! میں نے تو سوچ لیا ہے۔ نکڑ کی دکان والے طارق بھائی کی بات ہی ماننی پڑے گی اب۔ وہ کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ جیدو اماں ابا پر زور ڈالو اور لازما اپنی شادی کروالو۔ اس سے پہلے کہ حرام طریقے پر پڑو جو آج کل مانو اتنا آسان ہے کہ کیا بتاوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو جی! آج میری بارات ہے۔ چھوٹی سی ہے پر محلے والوں کی زبانیں کون ناپے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں کہ کیا بتاوں۔ جیسے ان سب کا نکاح تو فائیو سٹار ہوٹل میں ہوا تھا۔
مجھے کیا۔ میری استطاعت تو اللہ کے کرم سے اس سب سے بڑھ کر ہے پر میں تو نبی جی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت دیکھوں گا۔ ان کے طریقے سے اپنی شادی کروں گا کہ اصل اجر اور آسانی تو اسی میں ہے۔ لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔
وہ دیکھیں اماں مجھے دلہا بنے دیکھ کر پھولے نہیں سما رہیں۔ ویسے ان کی خوشی کی وجہ ایک اور بھی ہے۔ کوثر کی ممانی کو میری بہن صائمہ پسند آگئی ہے اور بس وہ اج کل میں نکاح کی تاریخ ڈالنے آجائیں گی۔ دیکھا اماں میں نے کہا تھا اللہ پاک راستے کھولتے ہیں جب ہم اس کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ خیر جی! میں چلا دلہنیا کو لینے اور جانا بھی کون سا کوسوں دور ہے۔
آپ میں سے کوئی میری طرح اب تک کڑھ رہا ہے تو اسے بھی طارق بھائی کی بات مان لینی چاہیے۔ اسی میں فائدہ ہے کیونکہ نکاح میں جلدی کا حکم نبی جی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیا ہوا ہے۔ انہی کے بتائے طریقوں پر چلنے میں میری آپ کی بھلائی ہے اور انہی کا راستہ جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔
یہ سن کر وہ ہمیشہ سے زیادہ اداس ہو گئی۔ شاید اس کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارا ملن ممکن نہیں ہے۔
چلو جی مٹی پاو محبت پہ۔ میرا اصل مسئلہ تو اب کچھ اور ہوتا جا رہا ہے۔ جب بھی یار دوستوں میں بیٹھتا ہوں جن کے دو چار بچے بھی ہو گئے ہیں۔ تو ان کی باتیں سن سن کر خون کھولنے لگتا ہے اور بے اختیار میرا دل کرنے لگتا ہے ابھی جاوں کوثر کا ہاتھ پکڑوں اور مسجد کے امام صاحب کے پاس لے جاوں۔ نکاح پڑھاوں اور گھر لے آوں۔ لیکن یہ ارادہ بس ارادہ ہی ہے۔ نہ میری اتنی ہمت ہے نہ کوثر کبھی اس طرح میرے ساتھ شادی پر راضی ہو گی۔
تو پھر کیا کروں کہاں جاوں۔ کبھی سوچتا ہوں خودکشی کر لوں۔ سارا دن سوچتا رہتا ہوں اماں کو شادی کے لیے کیسے مناوں۔ دکان پر کیبل لگوا بیٹھا تھا۔ بس جی بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ سارا دن ناچ گانے دیکھ دیکھ کر گھر جاتا تو گندے خیالات میرے ساتھ چمٹے ہوتے تھے۔ دل کی خواہشات سر اٹھا اٹھا کر اول فول بکنے لگتیں۔ تنگ آکر میں نے کیبل ہٹا دی۔
پتہ نہیں کیوں ابا بھی میری حمایت میں نہیں بولتے۔ ماشاءاللہ سے اللہ زندگی دے انہیں اس جون میں ساٹھ سال کے ہو جائیں گے اور اماں اٹھاون کی لیکن عمر کے اس حصے میں بھی دونوں اکھٹے ہی سوتے ہیں۔ پھر میں اور میری خواہشات انہیں کیوں نظر نہیں آتیں۔ وہ میرے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ یہ سوچ سوچ کر میں تھک گیاہوں۔
امام صاحب سے بات کی ہے۔ وہ سہہ روزہ لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں وہ۔ بس اب جو جمعرات آئے گی تو میں بھی بسترا تیار کر کے نکل جاوں گا۔ دکان ابا دیکھ لیں گے۔
ابا اکثر کہتے ہیں پتر پہلے لاکھ ڈیڑھ لاکھ جمع کر لے۔۔بری میں پرانے جوڑے اور ولیمے میں چھوہارے کھلائے گا کیا مہمانوں کو۔
میں کہنا چاہتا ہوں ابا ولیمے میں کھجوریں بھی کھلائی جا سکتی ہیں اور نکاح مسجد میں بھی تو ہو سکتا ہے سادہ طور پر۔ آخر نبی جی پاک کی سنت ہے۔ میں ہر جمعے کا خطبہ غورسے سنتا ہوں۔ امام صاحب کھول کھول کر بتاتے ہیں نبی جی کے ہر طریقے کو۔ اس جمعے کو جب امام صاحب نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا بتایا تو میں سوچتا ہی رہ گیا کہ دین مین اتنی آسانی بھی ہے اور ہم نے یقین کرو جی شادی کو ہمالیہ پہاڑسر کرنا بنا دیا ہے۔
اور رہ گئی بری تو کوثر دو جوڑوں میں بھی میرے ساتھ خوش رہ لے گی۔ پر یہ سب کہہ کر ابا سے بے شرم اور اماں سے بے دید اور بے غیرت ہونے کے طعنے کون سنے۔ سو خاموش رہتا ہوں۔
بڑے بزرگوں سے سنا ہے پہلے زمانوں میں چھوٹی عمروں میں شادی ہو جایا کرتی تھی۔ واہ کیا دور ہوتا تھا۔ نہ کمانے کی شرط نہ پاوں پر کھڑا ہونے کا جنون۔ بس جیسے ہی لڑکا جوان ہوا تو والدین نے شادی کر دی۔ سارا خرچہ ماں باپ برداشت کر لیا کرتے تھے اور خرچہ بھلا ہوتا بھی کیا تھا۔ بھئی نہ ان دنوں مہنگے ہوٹلوں میں بکنگ ہوتی تھی نہ چھبیس کھانوں کا کورس چلتا تھا۔ نہ۔لڑکی والے جہیز میں بحریہ یا ڈی ایچ اے میں پلاٹ مانگتے تھے نہ دودھ پلائی کی رسم میں ہزاروں اڑانے کا رواج تھا۔ نئے نئے جوان ہوئے بچے نکاح کے پاکیزہ بندھن میں بندھ جاتے تھے۔ سو برائیوں سے بچتے تھے اور حلال طریقے سے خواہشات پوری کر لیتے تھے۔ اور آپ مجھے دیکھ لیں۔ مجھے جوان ہوئے نہ جانے کونسواں سال ہے اور اب تک میں اللہ جھوٹ نہ بلوائے نفسیاتی مریض سا بن گیا ہوں۔
بس بھئی! میں نے تو سوچ لیا ہے۔ نکڑ کی دکان والے طارق بھائی کی بات ہی ماننی پڑے گی اب۔ وہ کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ جیدو اماں ابا پر زور ڈالو اور لازما اپنی شادی کروالو۔ اس سے پہلے کہ حرام طریقے پر پڑو جو آج کل مانو اتنا آسان ہے کہ کیا بتاوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو جی! آج میری بارات ہے۔ چھوٹی سی ہے پر محلے والوں کی زبانیں کون ناپے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں کہ کیا بتاوں۔ جیسے ان سب کا نکاح تو فائیو سٹار ہوٹل میں ہوا تھا۔
مجھے کیا۔ میری استطاعت تو اللہ کے کرم سے اس سب سے بڑھ کر ہے پر میں تو نبی جی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت دیکھوں گا۔ ان کے طریقے سے اپنی شادی کروں گا کہ اصل اجر اور آسانی تو اسی میں ہے۔ لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔
وہ دیکھیں اماں مجھے دلہا بنے دیکھ کر پھولے نہیں سما رہیں۔ ویسے ان کی خوشی کی وجہ ایک اور بھی ہے۔ کوثر کی ممانی کو میری بہن صائمہ پسند آگئی ہے اور بس وہ اج کل میں نکاح کی تاریخ ڈالنے آجائیں گی۔ دیکھا اماں میں نے کہا تھا اللہ پاک راستے کھولتے ہیں جب ہم اس کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ خیر جی! میں چلا دلہنیا کو لینے اور جانا بھی کون سا کوسوں دور ہے۔
آپ میں سے کوئی میری طرح اب تک کڑھ رہا ہے تو اسے بھی طارق بھائی کی بات مان لینی چاہیے۔ اسی میں فائدہ ہے کیونکہ نکاح میں جلدی کا حکم نبی جی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیا ہوا ہے۔ انہی کے بتائے طریقوں پر چلنے میں میری آپ کی بھلائی ہے اور انہی کا راستہ جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت
ابوسعید اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ
وآله وسلم نے ارشاد فرمایا۔"جب اولاد بالغ ہوجائے اور والدین ان کے نکاح سے
آنکھیں بند کئے رکھیں، اس صورت میں اگر اولاد کسی غلطی کی مرتکب ہو تو والدین بھی
اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔" (مشکوہ)
رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"اے نوجوانو کی جماعت تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ شادی کرے ، اس لیے کہ وہ آنکھوں کونیچا کرتی ہے اورشرمگاہ کی محافظ ہے ، اورجس میں شادی کرنے کی طاقت نہيں اسے روزے رکھنے چاہییں کیونکہ روزے اس کے لیے ڈھال ہیں۔"
)صحیح بخاری(
"اے نوجوانو کی جماعت تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ شادی کرے ، اس لیے کہ وہ آنکھوں کونیچا کرتی ہے اورشرمگاہ کی محافظ ہے ، اورجس میں شادی کرنے کی طاقت نہيں اسے روزے رکھنے چاہییں کیونکہ روزے اس کے لیے ڈھال ہیں۔"
)صحیح بخاری(