ننھے منے امتی کو صحت مند بنائیں - 1


ابھی چند دن پہلے مجھے چیک اپ کے لیے ہسپتال جانا پڑا۔ وہاں اور بھی خواتین اور بچے آئے ہوئے تھے۔ مین لاونج میں سامنے ہی بڑی ساری کینٹین تھی۔ اکثر بچوں کے ہاتھوں میں چاکلیٹ، چپس کے پیکٹ، لالی پاپ یا ببل گمز تھے۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ تین سال کا بچہ بھی مٹھی میں ٹافیاں بھر کر کھا رہا ہے بارہ سال کا بچہ بھی جوس کا ڈبہ اٹھائے بیٹھا ہے۔
میں نے سوچا یہ سب کچھ کھلا کر دراصل ہم اپنے بچوں کی صحت کو کس نہج پر لے کر جا رہے ہیں؟ مطلب کیا آپ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ٹائیگر بسکٹ کھا کر کوئی بچہ واقعی میں ٹائیگر جیسی طاقت حاصل کر سکتا ہے؟ میرا یقین کریں ابھی تک کوئی ببل گم ایسا ایجاد نہیں ہوا جسے کھاتے ہی بچہ پھرتیلا ہو کر شرارتی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے چلا جائے۔ کیا حقیقت میں میں اور آپ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ کریم والے بسکٹ سالانہ امتحانوں میں کامیابی دلا سکتے ہیں؟ کیا آپ کے دل نے مان لیا ہے کہ ٹافیوں میں آم سٹرابری اور امرود کا اصلی خالص رس ڈالا جاتا ہے؟


واقعی ابھی وہ لالی پاپ اس دنیا میں نہیں آئی جسے کھا کر آپ کا بچہ انتہا کا نشانہ باز ہو جائے اور میلے میں اس کے سارے تیر ٹھیک ٹھیک لگ جائیں۔ اور ایسا چیونگم بھی نہیں بنا جس کا غبارہ بنانے سے آپ کا بچہ شاہد آفریدی بن جائے۔ اگر آپ کا بچہ 'آئی ڈرنک مینگو جوس' کا اردو ترجمہ 'میں آم رس ٹافی کھاتا ہوں' لکھے گا تو سوائے اس اشتہار والے ماسٹر جی کے، اور کوئی ماسٹر اسے پاس نہیں کرے گا۔
ہر ہر چینل پر ان انتہائی مضر صحت اشیاء کے اشتہارات تواتر کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ ہماری نئی نسل کی صحت یہ الابلا چیزیں کھا کر کس قدر نقصان سے دوچار ہو گی۔ آپ بچے کو چند دن دو بسکٹ کے پیکٹ یا چپس کا ایک پیکٹ کھلا دیں۔ وہ روٹی کھانے سے انکاری ہو جائے گا۔ اسے گھر کا پکا کھانا چاول گندم سبزی فروٹ سب سے نفرت ہونے لگے گی۔ اس کی بھرپور کوشش ہو گی کہ اب اسے ہر وقت وہی چپس کا چٹپٹا پیکٹ وہی میٹھے بسکٹ اور رنگ برنگی ٹافیاں مہیا کی جائیں۔ اور یہ سب چیزیں پانے کے لیے اپنی عمر وہ مطابق ہر ممکن حربہ استعمال کرنے لگتا ہے۔ ضد کرنا۔ چڑچڑا پن دکھانا۔ کھانا کھانے سے منع کرنا۔ رونا دھونا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹافیوں ببل گم بسکٹ لالی پاپ کو نقصان دہ سمجھتے ہی نہیں۔ یا ہمیں لگتا ہے کہ چلو کبھی کبھار کھلانے میں کیا حرج ہے۔ جی نہیں۔ زہر زہر ہی ہوتا ہے۔ روز کھائیں یا کبھی کبھی۔ اس کا اثر صحت اور جان لیوا ہوتا ہے۔ ان ٹافیوں اور چیونگم میں مضر صحت رنگوں کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ آرٹیفیشل ذائقے، میدے اور سفید چینی سے بھرے ہوئے بسکٹ ہمارے بچوں کی بھوک اڑا کر انہیں بھربھرا اور کمزور تو بنا سکتے ہیں، طاقتور اور مضبوط بنانا ان کے بس کی بات نہیں۔
کیا ہمیں حقیقت میں ان ٹافیوں کے ingredients معلوم ہیں؟ کیا چپس کے پیکٹ میں واقعی آلو کے بنے ہوئے چپس ڈالے جاتے ہں اور ان پر لگا مصالحہ اصل میں کیا ہے جو انہیں مہینوں کرسپی یا تازہ رکھتا ہے؟ لالی پاپ میں لال سبز یا سیاہ رنگ کا کون سا محلول جمایا گیا ہے؟ ببل گمز کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ پانچ دس بیس روپے کی چاکلیٹ میں کیا ڈالا جاتا ہے؟ کچھ پتہ نہیں لیکن ہم پورے پورے ڈبے خرید کر گھر میں رکھ لیتے ہیں کہ بچہ روئے گا تو بسکٹ کا وہ پیکٹ اس کے ننھے ہاتھ میں تھما دیں گے جس میں غذائیت کے نام پر میدہ سفید شکر اور سالوں تک محفوظ رکھنے والے preservatives کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
بسکٹس کھانے سے بچے قبض جیسی ام الامراض بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تافیوں اور چاکلیٹس میں چینی کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو نہ صرف شوگر جیسی بیماری سے دوچار کر سکتی ہے۔ ان میں پائے جانے کیمیکلز اور آرٹیفیشل فلیورز سے فولاد جیس دانت بھر بھرے ہو کر ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ڈبہ بند جوسز کو گرم کر کے پورے سال کے لیے سٹور کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اور اس پراسس کے دوران ان میں سے سارے وٹامنز ختم ہو جاتے ہیں۔ جن جوسز کے اوپر no preservatives لکھا گیا ہوتا ہے ان میں آکسیجن نکال دی جاتی ہے۔ جب آکسیجن نکل جاتی ہے تو جوسز میں (برائے نام) ڈالے گئے اصلی فروٹ فلیورز کی کوالٹی گر کر رہ جاتی ہے۔ آپ خود سوچیں کامن سینس کی بات ہے جو چیز آپ کو سات ماہ بعد بھی فریش نظر آرہی ہے اس میں پھل کا اصلی رس کیونکر پایا جا سکتا ہے؟ جوس کے جن ڈبوں پر سرخ سرخ سیب دکھائے گئے ہیں اس پر ایکسپائری ڈیٹ سال یا چھ ماہ بعد کی لکھی جاتی ہے۔ تو کیا یہ اصلی رس ہو سکتا ہے؟ وہ سیب کا تازہ رس جو ہم جوسر سے نکالتے ہیں اور پندرہ منٹ بعد ہی وہ سیاہ ہونے لگتا ہے، اس کو ان ڈبوں میں ڈھونڈنا خام خیالی ہے۔
سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ سب کچھ کھلا کر ملک و ملت کو عملی طور پر فائدہ پہنچانے والا امتی بنارہے ہیں؟ یا ان کے ہاتھوں میں چپس اور لالی پاپ تھما کر ان کی ہڈیوں کو کمزور کر کے ان کے معدوں کو نقصان پہنچا کر، انہیں سوکھا سڑا اور لڑکھڑا کر چلنے والا امتی بنا رہے ہیں؟ جس کا پچپن بجائے دیسی گھی، بغیر چھنے آٹے کی روٹی، تازہ سبزی و فروٹ، انڈے اور دودھ کی بجائے ٹافیوں اور بسکٹ کے سہارے گزرا ہو وہ کس طرح بڑے ہو کر ایک مضبوط اور صحت مند انسان کے طور پر سامنے آئے گا۔
2008 میں جب میں حج کرنے گئی تو مجھے وہاں کی ایک بات بہت اچھی لگی اور ابھی تک مجھے یاد ہے۔ اکثر دکانوں پر کھجور سے بنی ہوئی چاکلیٹس اور کینڈیز دستیاب تھیں۔ جیسے کجھور کے اندر بادام یا دوسرا ڈرائی فروٹ ڈالکر فروخت کرنا یا کجھور کے گودے سے بنے ہوئے مزیدار میٹھے بسکٹ بنانا۔ کیا یہ کام ہمارے ملک کی کمپنیاں نہیں کر سکتیں؟ میں سوچتی ہوں کسی ایک کمپنی کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ہماری ننھی نسل ہمارے گاہک نہیں ہمارا سرمایہ حیات ہمارا مستقبل ہیں۔ کیا ہم ان کو صحت مند اور فائدہ مند ٹافیاں اور چاکلیٹس بنا کر نہیں دے سکتے؟ ٹھیک ہے لاگت زیادہ آئے گی اور شروع میں پرافٹ کم ملے گا لیکن کوئی تو ہو جو گاہک کی تعداد بڑھانے کی بجائے اس کی صحت بڑھانے پر غور کرے۔ دنیا کا تقریبا ہر مشہور پھل ہمارے ملک میں دستیاب ہے۔ کاش کوئی آم رس ٹافی واقعی آم کا رس ہو اور کوئی فانٹا جوس واقعی تازہ مالٹوں کا جوس ہو۔ کاش کسی بسکٹ میں کجھور اور ڈرائی فروڑ کا اصل کمبینیشن ہو اور کسی چپس کے پیکٹ میں واقعی وہ سادہ سے پاپڑ مل جائیں جو ہم بچپن میں مصالحہ چھڑک کر کھایا کرتے تھے۔
کیا آپ کا بچہ بڑے ہو کر آپ سے شکوہ نہیں کرے گا کہ بابا میں تو ناسمجھ تھا آپ نے مجھے یہ مضر صحت چیزیں کیوں کھلائیں وہ بھی اتنی زیادہ کہ میرے جسم کا سب سے مضبوط عضو میرے دانت بھربھرے ہو گئے اور مجھے روٹی سالن چاول گوشت جیسے صحت مند کھانے سے نفرت ہو گئی۔ پیاری ماما! آپ نے وقتی طور پر میری ضد اور چڑچڑاہٹ سے اپنی جان چھڑانے کے لیے میری صحت ہی برباد کر دی؟ کیوں؟ کیا میں آپ کے لیے اتنا بڑا بوجھ تھا۔ آپ کا کام تو میری تربیت کرنا تھا اور مجھے صحت مند غذا کھلا کر صحت مند انسان بنانا تھا۔
یقین کریں ابھی بھی وقت باقی ہے۔ ابھی بھی آپ کا بچہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ کے کنٹرول میں ہے۔ اسے ان کمپنیوں کا مستقل گاہک نہ بنائیں جو پیسوں کے بدلے صحت کا سودا کرتی ہیں۔ بچہ بچہ ہوتا ہے۔ جو آپ کھلائیں گے وہ کھائے گا۔ جو آپ نہیں دیں گے وہ اسے چند ہفتوں کے لیے یاد تو کرے گا ضد بھی کرے گا اور پھر سمجھنے لگے گا کہ یہ اس کے فائدے کی بات ہے۔ لیکن اس کے سمجھنے سے پہلے خود آپ کا سمجھنا بہت ضروری ہے اور یہ ابھی سے کرنا ہے۔ آج سے۔