نومی کی پنسل


’’ارے ! میری پنسل!!‘‘ نومی کی چیخ نما آواز پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ زبیر کی جانب رخ موڑے کہہ رہا تھا۔
’’ اچھا تو تم چور ہو ۔تم نے میری پنسل لی ہے۔‘‘
نومی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کا گہرا دوست  زبیرکیسے اس کی پسندیدہ پنسل بغیر بتائے لے سکتا تھا لیکن اس کی آنکھیں جھوٹ نہیں بول  سکتی تھیں۔
زبیر اس افتاد سے گھبرا کر  پنسل والا ہاتھ کمر کی جانب لے گیا  ۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نومی اچانک اس کے پاس آجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ اپنا کلاس ورک مانیٹر کو جمع کروائیں۔‘‘ سائنس کے سر  نے کہا تو سب بچے جلدی جلدی کاپیاں بند کرنے لگے۔ نومی نے بھی حاشیے کے اوپر تاریخ اور ’’کلاس ورک‘‘ لکھا اور کاپی بند کرکے مانیٹر  کا انتظار کرنے لگا جو کاپیاں اکھٹی کرتے کرتے اِسی سمت آرہا تھا۔جیسے ہی مانیٹرنے آخری بچے سے کاپی لی، اگلے پیریڈ کی گھنٹی بجنے لگی۔


 اب سرعمر کا پیریڈتھا جو اسلامیات پڑھاتے تھے۔ نومی نے سائنس کی کتاب الٹی سیدھی بیگ میں ٹھونس دی اور  بے پرواہی سے ٹانگیں ہلانے لگا۔۔
’’اب آپ لوگ مشق نمبر 4 اپنی نوٹ بکس میں لکھیں۔ ‘‘ سر نے آج کا سبق اچھی طرح سمجھانے کے بعد کتاب میز پر رکھی ۔
نومی پیچھے مڑ کر بیگ میں سے اسلامیات کی کاپی نکالنے لگاجو کافی تلاش کے بعد لنچ باکس والے جیب سے برآمد ہوئی۔پھر اس نے  جیومٹری باکس کھولا تو پنسل غائب تھی۔  
’’ہائیں! میری پنسل کہاں گئی؟ابھی تو میں نے سائنس کا کام کیا تھا ۔‘‘ اس نے  سے سوچا۔ 
پھر پیچھے مڑ کر اپنے بیگ میں جھانکنے لگا۔ اچھی طرح ساری جیبیں دیکھ لیں لیکن اس کی پنسل نہ مل سکی۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا جا رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد ہی سر کاپی چیک کرنے کے لیے مانگنے والے تھے اور نومی ابھی تک ایک سطر بھی لکھ نہیں پایا تھا۔
’’زبیر! تم نے میری پنسل تو نہیں دیکھی؟‘‘ اس نے سرگوشی میں آگے والی کرسی پر بیٹھے زبیر سے پوچھا۔
’’نہیں! تمھارے ہی پاس تھی  ناں۔‘‘ زبیر نے پیچھے مڑے بغیر سرگوشی میں جواب دیا۔
’’ہاں! لیکن ۔۔‘‘ نومی نے کچھ کہنا چاہا مگر اسی اثناء میں سر ان کےسر پر آکھڑے ہوئے۔
’’ابھی  تک آپ نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا؟‘‘ سر نے اس کی کاپی اٹھا کر دیکھی اورغصے سے پوچھنے لگے۔
نومی کی آنکھوں میں مارے شرمندگی کے آنسو آگئے۔سر نے اسے ڈانٹا اور ایک اور بچے سے فالتو پنسل لے کر اسے دے دی۔
بریک کے وقت دوستوں نے اسے بلایا۔
’’نومی! آؤ فٹ بال کھیلیں۔‘‘
’’نہیں یار! مجھے اپنی پنسل تلاش کرنی ہے۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے بیگ سے ساری کاپیاں نکال کر میز پر رکھ دیں۔ بیگ کو اچھی طرح جھاڑا۔ سارے خانے چیک کر لیے۔ حتیٰ کہ لنچ باکس والا خانہ بھی دیکھ لیا۔ لیکن پنسل نہ ملی۔
 گھر آکر بھی نومی خاموش خاموش رہا۔اسے رہ رہ کر اپنی نئی چمکیلی پنسل یاد آرہی تھی۔ وہ  عام پنسلوں سے کافی بڑی تھی اور اس میں کئی سکے تھے جو شیشے کے کیس میں سے نظر آتے تھے۔ اوپر کی طرف ایک گلابی رنگ کا بڑا سا  ربر تھا۔ اس نے تواس کے ربر کو استعمال کرنے کی بجائے الگ سےپرانا سا ربر رکھ لیا تھا مبادا نیا گلابی ربر گھس کر کالا نہ ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن جب نومی کلاس میں پہنچا تو حسب معمول اس نے اپنا بیگ دھڑام سے کرسی پر گرایا۔ جیومیٹری باکس میز کی دراز میں ٹھونسا اور بوتل نکال کر پانی پینے لگا۔
سب سے پہلا پیریڈ حسب معمول سائنس کا تھا۔ سر نے اندر آتے ہی ہوم ورک کاپیاں جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے، میز پر رکھیں اور احسن کو کہا۔
’’احسن! یہ بچوں میں تقسیم کریں  ۔اوہ!  میں مارکرسٹاف روم میں بھول آیا ہوں۔‘‘
سر نے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور بولے۔
’’ میں کچھ ہی دیر میں آتا ہوں۔  آپ لوگ اپنی کتابیں کھول کر کل کا سبق دہرائیں۔  مجھے کسی قسم کے شور کی آواز نہیں آنی چاہیے۔ ‘‘  سر نے کہا اورباہرچلے گئے۔
اسی اثناء میں نومی کو زبیر کے ہاتھ میں پکڑی پنسل نظر آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جی نہیں! یہ میری پنسل ہے نومی۔میں نےایک ہفتہ پہلے خریدی تھی۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘
زبیر نے سے کہا تونومی کواور غصہ آنے لگا۔
’’نہیں یہ تو میری پنسل ہے اور میں کل سے ڈھونڈ رہا ہوں۔بھئی میری پنسل واپس کرو ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک ہی جست میں زبیر کے سر پر پہنچ گیا اور غورسےزبیر کے ہاتھ میں پکڑی پنسل کی طرف دیکھا۔ اس کا گلابی ربر ایک سائیڈ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ ’’اف! اس نے میرا ربر بھی خراب کر دیا۔‘‘ نومی نے غصے سے سوچا۔
اسی اثناء میں سر واپس لوٹ آئے تو نومی کو اپنی کرسی پر واپس آناپڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پیریڈ ختم ہوا تو نومی  اردو کی کاپی اٹھا کر بیگ میں ڈالنے لگا جو کب سے میز پر ہی پڑی تھی۔ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ۔ اس نے جھک کر دیکھا۔
یہ اس کی  گمشدہ پنسل تھی جو کاپی سے نکل کر نیچے جا گری تھی۔
’’اوہ! یہ ۔۔ پنسل مل گئی!  میری پنسل مل گئی!‘‘ نومی نے نعرہ مارا اور جلدی سے پنسل اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔ اچانک اسے خیال آیا۔ اس نےرخ موڑ کر ساتھ والی قطار میں بیٹھے زبیر کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر دکھ اور اداسی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سوری زبیر! وہ ۔۔ میری پنسل تو کاپی میں ہی  رہ گئی تھی۔میں سمجھا کہ تم نے میرے پنسل لے لی ہےاور۔۔۔ ‘‘ نومی بمشکل اتنا ہی کہہ پایا تھا۔ اپنے گہرے دوست کو بھری کلاس میں چور کہنے پر اسے بہت شرمندگی ہورہی تھی جبکہ غلطی بھی اسی کی تھی۔زبیر نے کوئی جواب نہ دیا اور رخ پھیر لیا۔
’’ہمیشہ اپنی چیزیں سنبھال کر رکھو۔ کاپیاں اور کتابیں اچھی طرح بند کرکے رکھو۔ پنسل ربر دھیان سے جیومیٹری میں رکھو تاکہ ضرورت پڑنے پر فورا مل جائے۔‘‘ نومی کو ا می کی نصیحت یاد آرہی تھی لیکن اب کیا فائدہ۔ اس کا سب سے بہترین دوست اس کی لاپرواہی اور بدگمانی کی وجہ سے ناراض ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آج میں کینٹین  سے بن سموسہ لینے جاؤں گا۔ ‘‘ اگلے دن بریک شروع ہوتے ہی نومی نے زبیر سے کہا اور کلاس سے نکل گیا۔ لمبی قطار میں کھڑے ہونے سے نومی کی جان جاتی تھی لیکن کیا کرتا! آخراپنے پیارےدوست کو منانا بھی تو تھا۔