. آپ ﷺ نے فرمایا: اِنّما الاَعْمَالُ بِالنّیَّاتٍُ (صحیح بخاری)
ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
پیارے بچو! اعمال عمل کی جمع ہے۔ عمل کا مطلب ہے کام کرنا۔ نیتوں ، نیت کی جمع ہے۔ نیت کا مطلب ہے ارادہ کرنا یعنی کسی کام کے بارے میں سوچ لینا کہ ہم یہ کام کرنے لگے ہیں یا کریں گے۔
اس حدیث میں پیارے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ سب کاموں کادارومدار نیت پر ہے۔ یعنی جب بھی ہم کوئی نیک کام کرنے لگیں تو پہلے یہ سوچ لیں کہ میں یہ نیکی اللہ کے لیے کر رہا ہوں۔ مثلاً ہم نماز پڑھیں تواللہ کے لیے پڑھیں۔ تلاوت کریں تواللہ کے لیے کریں۔ ہم سچ بولیں تو یہ سوچ کر بولیں کہ ہم اللہ کے لیے سچ بول رہے ہیں۔ ہم ہوم ورک میں اپنے چھوٹے بہن بھائی کی مدد کریں تو یہ سوچ کر کریں کہ ہم یہ مدد اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں، کسی دوسرے کو دکھانے کے لیے نہیں۔
بچو! آپ تعریف حاصل کرنے کے لیے مسجد نہ جائیں بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے جائیں، آپ واہ واہ سننے کے لیے امی ابو کی خدمت نہ کریں، بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں۔
پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کا مطلب یہی ہے کہ نیت یا کسی کام کو کرنے کے لیے ہماری سوچ بہت اہم ہے اور قیامت والے دن جب اللہ پاک ہمیں اچھے برے کاموں کا بدلہ دیں گے تو اس میں بھی ہماری نیت اور سوچ دیکھی جائے گی۔ اگر ہم نے اچھی سوچ کے ساتھ کوئی چھوٹی سی بھی نیکی کی ہو گی تو اللہ پاک اس کا ثواب پہاڑوں سے بھی بڑا کرکے دیں گے۔
بچو! برے کام تو ہوتے ہی برے ہیں ان کا بدلہ تو برا ہی ملے گا لیکن اچھے کام بھی بری نیت کے ساتھ کیے جائیں تو برے بن جاتے ہیں۔ اس لیے اپنی سوچ اور نیت صاف ستھری رکھیں۔
امید ہے آپ پیارے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کو دل سے سمجھیں گے اور اس پر ہمیشہ عمل کریں گے۔انشاء اللہ!