میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے بلی مانوکے ایک چھوٹے سے بچے کی جوبڑےسے درخت کے
اندر بنے ہوئے گھر میں رہتا تھا۔ اس کا نام ’’میاؤں ‘‘ تھا۔ جب سے جنگل میں ایک بیماری، کورونا پھیلی تھی، سبھی جانور زیادہ وقت اپنے
اپنے گھروں میں گزارنے لگے تھے۔ڈاکٹر بھالو نے کہا تھا کہ خاص طور پر چھوٹے
جانوروں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ تبھی ہی سے مانو ماما نے میاؤں کو گھر سے
نکلنے سے منع کر دیا تھا۔
لیکن کیا کریں! میاؤں کو تو آم کا درخت یاد آرہا تھا جس
پر چڑھ کر وہ گھاس پر چھلانگیں لگایا کرتا تھا۔ اسے اپنی دوست چڑیاں بھی یاد آرہی
تھیں جو اس کے آنے پر چوں چوں کر کے خوب شور مچایا کرتیں۔ پھر پانی کا وہ تالاب
جہاں میاؤں نے مینڈک سے ہر روز کھیلنے کا
وعدہ کر رکھا تھا۔اور ہاتھی میاں کی سونڈ پر لٹک وہ کتنے جھولے لیتا تھا!
بچو! میاؤں بہت اداس تھا۔ ایک دن جب اس کی امی نے اسے
ناشتے کے لیے جگایا تو وہ کہنے لگا۔
’’امی جان! کیا میں اب کبھی بھی کھیلنے نہیں جا سکوں گا؟‘‘
مانو ماما مسکرائیں اور بولیں۔
’’نہیں! ایسی تو بات نہیں ہے۔ جیسے ہی جنگل کی فضا سے بیماری ختم ہو جائے گی ، آپ روز
کھیلنے جایا کریں گے۔‘‘
’’ہاں لیکن کب! امی جان! ‘‘ میاؤں تو رو دینے کو تھا۔
’’بہت جلد! اچھا! یہ دیکھو! میں آپ کے لیے کیا لائی ہوں۔‘‘
مانو ماما نے یہ کہہ کر ایک گیند میاؤں کو پکڑا دیا۔یہ گیند انہوں نے گھاس پھوس
اور تنکوں کو جوڑ کر بنایا تھا۔ پھر اس کے اوپرگولائی میں پتے چپکادیے تھے۔
’’آہا! میرا پسندیدہ گیند!‘‘
تھوڑی دیر وہ گیند کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر کہنے لگا۔
امی جان! اس کے
اوپر جو بلی ہوئی ہے اس کی تین مونچھیں ہیں۔ لیکن میری تو پانچ ہیں۔‘‘
’’ہمم!آپ اس کی پانچ مونچھیں بنا لیں۔ ‘‘ مانو ماما نے یہ
کہہ کر چلی گئیں۔
میاؤں کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اس نے کچھ تلاش کے بعد کچھ
تنکے اکھٹے کیے اور گیلی مٹی سے انہیں گیند پر چپکا دیا۔ اچانک اس کو لگا کہ تصویر
والی بلی کو ٹوپی بھی پہننی چاہیے۔ اب اسے بہت سارے تنکے اکھٹے کرنے تھے۔
وہ دن سارا وقت میاؤں مصروف رہا۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ
نیم گرم پانی بھی پیتا ۔ جیسا کہ ڈاکٹر بھالو نے بتایا تھا اور ہر ایک گھنٹے بعد
ہاتھوں کو بیس سیکنڈ کے لیے دھوتا ۔
رات کو اس نے بہت
خوشی سے مانو ماما کو گیند دکھایا۔ تصویر والی بلی ٹوپی، مفلر اور بٹنوں والے کوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
اگلے دن مانو ماما نےایک ٹہنی کے ساتھ چھوٹی سی خشک مچھلی
لٹکائی۔ میاؤں نے جب خشک مچھلی دیکھی تو بھاگابھاگا آیا۔
’’امی جان! یہ میری مچھلی ہے ناں! کیا میں اسے کھا سکتا
ہوں؟‘‘
’’بالکل! اگر آپ چھلانگ لگا کر اسے پکڑ لو۔‘‘ مانو ماما نے
کہا اور ٹہنی کو اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ اب مچھلی ، میاؤں کے سر سے کافی اوپر لٹک
رہی تھی۔ میاؤں نے چھلانگیں لگانا شروع کیں۔
’’ایک، دو، تین۔۔۔ دس۔۔ گیارہ!‘‘
’’امی جان!یہ۔۔ یہ تو!‘‘ اس نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ
کہا۔’’ یہ تو۔۔ بہت اوپر ہے۔ کیا یہ تھوڑی سی نیچے نہیں آسکتی۔‘‘
’’نہیں!مجھے معلوم ہے میرا بیٹا بہت اونچی۔۔ بہہہت اونچی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ ‘‘
مانو ماما مسکراتے ہوئے بولیں تو میاؤں کوجوش آگیا۔ اب کی بار وہ دور سے بھاگتا
ہوا آیا اور خوب اوپر اچھل کر مچھلی منہ میں پکڑ لی۔
’’زبردست!‘‘ مانو ماما نے
خوب تالیاں بجائیں تو میاؤں اور بھی خوش
ہوگیا۔
ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک
ہوئی۔ مانو ماما نے دروازہ کھولا تو ایک چھوٹا سا مینڈک کھڑا تھا۔
’’آنٹی! بہت دن سے میاؤں ہمارے تالاب پر کھیلنے نہیں
آیا۔ تو میں آج اسے لینے آیا ہوں۔ ‘‘ مینڈ ک نے کہا۔
’’نہیں! پیارے بیٹے! میاؤں کچھ دن کے لیے گھر سے باہر نہیں
نکل سکتا۔ آپ بھی احتیاط کریں اور اپنے گھر ہی میں رہیں۔ جب جنگل کی ہوا بیماری
سے صاف ہو جائے گی اور بیماری کے جراثیم ختم ہو جائیں گے تو آپ دونوں خوب کھیلیے گا۔‘‘
یہ سن کر مینڈک اچھلتا ہواواپس چلا گیا۔
میاؤں اگرچہ کھڑکی سے ساری باتیں سن رہا تھا لیکن وہ بہت
صبر اور آرام کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اس نے باہر آکر اپنے دوست مینڈک سے ہاتھ ملانے
کی کوشش نہیں کی۔ وہ جانتا تھا ڈاکٹر بھالو نے سب جانورو ں کو ہاتھ ملانے، ایک دوسرے کو چھونے اور ساتھ ساتھ بیٹھنے سے منع کر رکھا تھا۔
’’امی جان! آج میں کیا کھیلوں گا؟‘‘ اگلی صبح میاؤں نے
پوچھا تو مانو ماما نے کہا۔
’’آج کا کھیل یہ
ہے کہ آ پ نے پچاس میں سے کم از کم چالیس نمبر حاصل کرنے ہیں۔وہ یہ ہیں:
کھانے کی پلیٹ صاف کرنے پر دس نمبر
گوشت کی ہڈیاں اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالنے پر دس نمبر
نہانے اور بالوں کو اچھی طرح خشک کرنے پر دس
نمبر
اپنے تکیہ کو اچھی طرح دھوپ لگانے پر دس نمبر
کھلونے سمیٹ کر الماری میں رکھنے پر دس نمبر
اس دن میاؤں نے
پورے پچاس نمبر حاصل کر لیے۔ انعام کے طور پر مانو ماما نے اسکے پسندیدہ، گوشت والے
سینڈوچ بنائے ۔
میرےبچو! کچھ دن تو لگے لیکن آخر کار بیماری کہیں دور چلی
گئی اور جنگل کی ہواصاف ستھری ہو گئی۔اب میاؤں چڑیوں سے جی بھر کر کھیلتا ہے اور
جو بندر میاں نے نیا سکول کھولا ہے، وہاں بھی بہت شوق سے پڑھنے جاتا ہے۔
مجھے معلوم ہے آپ گھر میں رہ رہ کر تھک گئے ہیں۔ تھوڑا سا
انتظار کر لیں۔ امی جان کی بات مانیں اور گھر میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔
کچھ دن کی بات ہے۔ پھر جب
کورونا بیماری چلی جائے گی تو آپ خو ب خوب باہر نکلیں گے، دھوپ میں کھیلیں
گے اورسکول جائیں گے۔
اورہاں!پارک میں کھیلتے کھیلتے ہو سکتا ہے کسی دن آپ کی
ملاقات میاؤں سے ہو جائے۔ وہ ضرور چڑیوں کے ساتھ کھیل رہا ہو گا اور انہیں بتا
رہا ہوگا کہ اس نے خشک مچھلی پکڑنے کے لیے کتنی اونچی چھلانگ لگائی تھی!