کورونا وائرس۔ امید کا جگنو بنیں


اس دن جب میں گرین ویلی گئی تو ریسیپشن پر دو ملازم تھے۔ ایک نے میرے ہاتھ پر سینیٹائزر کے ڈراپس ڈالے اور دوسرے نے ٹرالی کے ہینڈل پر سینیٹائزر چھڑک کر صاف کپڑا پھیر دیا۔
رینبو مارٹ میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ دکاندار بھی فکر مند ہیں اور اکثر نے ماسک لگا رکھا ہے۔
پنجاب کیش اینڈ کیری والوں نے برا سا بورڈ لگا رکھا ہے جس پر لکھا ہے کہ اس مشکل وقت میں ہم آپ کے ساتھ ہیں سو پریشان نہ ہوں۔ بس جلدبازی نہ کریں اور ایک ساتھ بہت زیادہ چیزیں نہ خریدیں جیسے دودھ کے کارٹن وغیرہ۔ آپ کو چیزیں سٹور پر ہمہ وقت دستیاب ہوں گی۔
میں تین چار بار شاپنگ کے لیے جاچکی ہوں جب سے کورونا وائرس آیا ہے اور میں ہر جگہ اکثر لوگوں کو ماسک پہنے ہوئے دیکھتی ہوں۔ پیدل چلتے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے گاڑیوں سے اترتے ہوئے۔ دکاندار ویٹر ڈرائیور حتی کہ مزدور بھی۔


ہماری قریبی مسجد میں بھی جمعہ کا خطبہ بہت ہی مختصر تھا اور تھا بھی کورونا سے بچاؤ کے طریقوں پر۔یہ اور بات ہے لوگ عام روٹین سے زیادہ تعداد میں جمعہ پڑھنے آئے ہوئے تھے اور نناوے فیصد نے ماسک بھی لگا رکھے تھے۔ شاید اس لیے کہ اس خوفناک وبائی مرض نے لوگوں کو آخرکار ایل سی ڈی یا موبائل کے سامنے سے اٹھا کر اللہ اور اللہ کے گھر کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔
ابھی ابھی میرے دروازے پر دو پلمبرز نے دستک دی ہے جن کو ہم نے ایک مسئلے کی وجہ سے بلایا تھا۔ ان دونوں نےماسک پہنے ہوئے ہیں جو اگرچہ میلے اور پرانے سے ہیں اور یہ دونوں پلمبر ہو سکتا ہے فیس بک پر بھی نہ ہوں لیکن میں جانتی ہوں ان کے اندر کا شعور بہت مضبوط اور صاف ستھرا ہے۔
لیکن جب میں فیس بک پڑھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے ہم پاکستانی دنیا کی سب سے غیر سنجیدہ اور نااہل قوم ہیں۔
جی نہیں! میرے معزز بھائیو اور بہنو! اگرچہ ہم کبھی کبھار کورونا وائرس پر مزاحیہ پوسٹ شئیر کر لیں لیکن اس کا بالکل بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کی صحت کے لیے اس وبائی مرض کے حوالے سے فکرمند نہیں ہیں۔ جہاں ہلکا پھلکا مزاح چل رہا ہے جو بہر حال صورت حال کی سنگینی کو کم تو نہیں کرتا لیکن دلوں اور دماغوں کو کچھ راحت تو پہنچا ہی دیتا ہے وہاں تقریبا ہر کوئی گھر میں سینیٹائزر بنانے کی ترکیبیں، گھریلو ماسک بنانے کے طریقے، کالی مرچ اور سینیٹائزر کا تجربہ، کورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر، علمائے کرام اور ڈاکٹرز کے وڈیو بیان بھی زور و شور سے شئیر کر رہا ہے۔
یہ سارا منظر کتنا اچھا، خوش کن اور مثبت ہے!
چونکہ میں ننھے بچوں کی کہانیاں لکھتےلکھتے جنگل کے جانوروں سے عشق میں مبتلا ہو چکی ہوں اس لیے بہت خوشی کے ساتھ آپ کو ایک بات بتانے جا رہی ہوں۔ وہ یہ کہ کینیڈا میں رہنے والی ایک خاتون نے اپنے بیک یارڈ کی وڈیو شئیر کی ہے جس میں برف کے اوپر دو سفیدسفید ہرن خوشی بھری چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ چونکہ انسان اپنے گھروں میں محدود ہو چکے ہیں تو ان دو ننھے اور شرارتی جانوروں نے بہتر سمجھا کہ آو عہد رفتہ کو کچھ دیر کے لیے آواز دیں جب جانور اور انسان میں، دواوں کے تجربات کے علاوہ بھی ایک اور رشتہ تھا۔ وہ انسانیت، سبز ماحول سے محبت اور دھرتی ماتا سے عشق کا رشتہ تھا۔
ابھی میں جس کھڑکی کے ساتھ بیٹھی ہوں اس میں سے بہت پیاری دھوپ اندر آرہی ہے اور میرا سارا کمرہ روشنی سے بھرا ہوا ہے۔ سورج تو اسی طرح اپنے رب کا دیا ہوا نور پھیلا رہا ہے۔ جب رات ہو گی تو میرے سامنے والے زیر تعمیر گھر میں تھکے ہارےمزدور گہری نیند سو جائیں گے۔ انہیں خبر بھی نہیں ہو گی کہ جس دیوار کو مکمل کرتے کرتے وہ سو گئے ہیں اسی دیوار کی اوٹ سے سفید ستھرا چاند اپنی چاندنی ہر سو پھیلا رہا ہے۔ فطرت کبھی ظالم اور جابر نہیں ہو سکتی۔ وہ تو بس خاموشی سے اپنا کام کیے جاتی ہے۔ ہاں جب انسان اپنی حدوں سے آگے نکلنے لگیں تو ان پر آزمائش ڈالی جاتی ہے۔
پھر جو اللہ کی رسی کو تھام لیں وہ گرنے نہیں پاتے۔ پس میں آپ سب کو دل سے تسلی دینا چاہتی ہوں اور کہنا چاہتی ہوں کہ پریشانی نہ کریں۔ احتیاط کریں۔ وہ سب تدابیر جو حکومت بتا رہی ہے اس میں حکومت کا پورا ساتھ دیں، مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان کو ضرور سنیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔
اتنے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم طاعون کی وبا میں شہید ہو گئے۔ تو وبائی مرض میں مر جانا ہمارے لیے شہادت ہے اور اس سے بڑی خوشخبری کیا ہو سکتی ہے۔
اٹلی کی سڑک پر فوجی گاڑیوں کے اندر لیٹے ہوئے بے حس و بے حرکت بیسیوں لوگ میں اور آپ بھی تو ہو سکتے تھے۔ لیکن کتنی بڑی خوشی اور نعمت عظیم ہے کہ میں اور آپ مسلمان ہیں۔ ہم وبا میں زندہ رہ جائیں تو بھی خوش قسمت۔ مر جائیں تو بھی خوش قسمت۔
ہاں یہ میرے اندر کا دکھ اور کڑھن ہے جو میں شئیر کرنے میں تھوڑا ججھکتی ہوں کہ اتنے ہزاروں لوگ بغیر ایمان کی دولت لیے فوت ہو گئے اور فوت ہورہے ہیں۔ وہ جو مجھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ سلم "فبلغ الشاہد الغائب (پس یہاں حاضر غائب کو (میری بات) پہنچا دے) " کا اصول سکھا کر گئے ہیں، وہ کیا ہوا۔ ایک چھوٹا سا جگنو جب بے چین بلبل کو راستہ بھٹکتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔ "خدا نے مجھے روشنی دی ہے۔ میں تمھیں راستہ دکھاؤں گا۔" کیا میں اور آپ کورونا کے اس اندھیرے میں روشنی اور امید پھیلانے والا جگنو بن سکتے ہیں؟ کیا ہم امید آگاہی اور محبت پھیلا سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو بچانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی صحت کے ساتھ ساتھ اپنا اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا ایمان بچانے کی بھی تگ و دو کر سکتے ہیں؟
اگر ایسا ہو جائے تو کورونا وائرس کی یہ وبا ہمارے لیے ایک ایسی آزمائش بن جائے گی جو ہمیں اللہ کی رضا اور اس کی بے پایاں محبت کی جانب لے جانے والی ہے۔