’’نیا سال شروع ہو چکا ہے۔ سب بچے سوچ کر
آئیں کہ انہوں نے گزشتہ سال 2019 میں سب سے اچھا کام کیا کیا ہے؟ ‘‘
سر شفیق نے لیکچر
ختم کرتے ہوئے کہا اور مسکراتے ہوئے کلاس
سے چلے گئے۔ اس دن گھر جاتے جاتے سب بچے یہی باتیں کر رہے تھے۔دو ہفتے کی
چھٹیوں کے بعد آج سکول میں پہلا دن تھا۔ یہ سوات کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اچھی
خاصی سردی اور برفباری نے کاروبارِ زندگی ناممکن تو نہیں مشکل ضرور بنا دیا تھا۔
بارہ سالہ عبدل بستہ اٹھائے سڑک کے کنارے چل رہا تھااور
سوچ رہا تھا پچھلے پورے سال میں میں نے سب سے اچھا کام کیا کیا ہے۔ کچھ دیر چلنے
کے بعد وہ سڑ ک کے کنارے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ایک طرف پہاڑ اور اس کے اوپر
اگے ہوئے برف سے ڈھکے درخت ،درمیان میں بل کھاتی سڑک اور دوسری جانب گہرائی میں
بہتا ہوا پرسکون لیکن برف سے اٹا دریا ۔
یہ سب مل کر بھی عبدل کو آج اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے تھے۔ورنہ وہ اکثر سکول سے
واپس آتے وقت اسی پتھر پر بیٹھ جاتا اور اپنے بیگ سے رنگ اور برش نکال کر فطرت کے
ان حسین نظاروں کو کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ۔
در اصل دو ماہ پہلے عبدل
کے والد کا انتقال ہو گیا تھا جن سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا۔بابا اس کے بہترین
دوست بھی تو تھے۔ وہ اس کی بنائی ہوئی تصاویر
کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اس کا حوصلہ
بڑھاتے اور اس کو نت نئی اقسام کے رنگ اکثر تحفے میں دیتے رہتے تھے۔جب سے وہ اچانک
اس دنیا سے گئے تھے، عبدل چپ چپ رہنے لگا تھا۔اب تو بہت سارے دنوں سے اس نے کوئی تصویر نہیں بنائی تھی
کیونکہ اس کے رنگ سب کے سب سوکھ چکے
تھے اور سکیچ بک تو نہ جانے کب سے ختم تھی۔
’’ کل جب سر پوچھیں گے تو میں کیا جوا ب دوں گا۔میرے پاس تو
بتانے کے لیے ایساکچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے دلی سے سوچا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے
نوکدار کنکر دور نیچے بہتے ہوئے دریا میں
اچھال دیے۔
’’جی ! سب سے پہلے آپ بتائیں یسریٰ! آپ نے پچھلے سال میں سب
سے اچھا کام کیا کیا؟‘‘ سر شفیق کلاس میں آچکے تھے۔وہ اپنے ساتھ سرخ اور سنہری
کاغذ میں لپٹا ہوا یک انعام بھی لائے تھے جو انہوں نے میز پر رکھ دیا۔
سب بچوں کی حاضری لینے کے بعد انہوں نے سب سے آگے بیٹھی یسریٰ سے سوال کیا۔
’’سر! میں نے ان گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک پودا لگایا تھا۔ جو
اب بڑا ہو گیا ہے اورابو کہتے ہیں کچھ ہی مہینے بعد یہ پھل دینے لگے گا۔ سر! میرے
خیال میں پودا لگانا سب سے اچھا کام ہے ۔ ‘‘ چھوٹی سی یسریٰ نے اعتماد سے کہا تو
سر مسکرانے لگے۔
’’بے شک۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ جی نبیل آپ بتائیں۔‘‘ سر
نے نبیل کو اجازت دی جو بار بار ہاتھ کھڑا کر رہا تھا۔
’’سر! میری دادی جان بہت بیمار ہو گئی تھیں ۔ میں نے ان کی
لگاتار خدمت کی۔ان کے سارے کام کرتا تھا میں۔ حتیٰ کہ وہ رات کو بھی آواز دیتیں
تو میں بستر چھوڑکر اٹھ جاتا تھا۔ ‘‘
سر شفیق نے اسے بھی شاباش دی ۔ اسی طرح کئی بچوں نے اپنے اچھے
اچھے کام گنوائے۔ کسی نے چھوٹے بچوں کو بغیر معاوضے کے ٹیوشن پڑھائی تھی اور
کسی نے گھر کی ٹوٹی دیوار کو کھڑا کرنے میں ابو کی مدد کی تھی۔ کوئی باورچی
خانے کے کاموں میں امی جان کی مدد کرتا رہا تھا تو کوئی اپنا کمرہ روز صاف
ستھرا کرتا رہا تھا۔ اول آنے والے بچے شاہدنے تو یہ بھی بتایا کہ میں
نے سارا سال سکول سے کوئی چھٹی نہیں ۔
جب عبدل کی باری آئی تو اس نے آہستہ سے کہا۔
’’سر! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس سال کوئی بہت ہی اچھا
کام کیا ہو۔‘‘
یہ سن کر بچے دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے۔
’’ عبدل ! آپ یاد کرو۔ کوئی تو ایک کام ایسا ہو گا جس پر
آپ کو گھر والوں سے شاباش ملی ہو گی۔‘‘
لیکن عبدل کوئی جواب نہ دےسکا۔
آخر سر شفیق نے کہا۔
’’بچو! آپ سب کے اچھے اچھے کام سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ شاباش!
آپ سب نے بہترین کام سر انجام دیے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے۔ عبدل نے اس سال
کا سب سے اچھا کام کیا ہے۔‘‘ سر نے گویا دھماکہ کر دیا۔
’’لیکن سر! لیکن سر!‘‘ کی دبی دبی آوازیں آنے لگیں۔ خود
عبدل کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھنے والے تھے۔ وہ حیران پریشان سا ہو رہا تھا۔ آخر
ایک بچے نے سر کی اجازت سے اٹھ کر کہا۔
’’سر! عبدل نے تو کسی بھی اچھے کام کے بارے میں نہیں
بتایا۔‘‘
سر مسکرائے اور کہنے لگے۔
’’بات یہ ہے کہ میں کئی دن سے عبدل کو دیکھتا ہوں۔ وہ گھر جاتے ہوئے سڑک پر سے
، پہاڑ سے گرنے والے نوک دار کنکر اٹھا کر جمع کر تا رہتا ہے اور پھر نیچے دریا
میں پھینک دیتا ہے۔ بچو! میں آپ کو بتاؤں عام راستے میں سے نقصان دہ چیز
کو ہٹا دینا بڑی نیکی کا کام ہے۔ عبدل بیٹا! شاید آپ کو اندازہ نہیں آپ
کا یہ چھوٹا سا عمل نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
مسافروں کی گاڑی کے ٹائر محفوظ رہتے ہیں اور وہ اپنا سفر سکون کے ساتھ جاری
و ساری رکھتے ہیں۔ لوگوں کو آسانی اور سکون پہنچانا بہت بڑی بھلائی ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر سر شفیق نے عبدل کو اپنے پاس بلایا اور بہت
محبت سے انعام اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’سر! میرے بابا جان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اورجب گاڑی انہیں لے
کر ہسپتال جارہی تھی تو ان کنکروں کی وجہ
سے دو ٹائر پنکچر ہو گئے ۔ جب تک ہم نئے ٹائر لگاتے بابا کی سانسیں ختم ہو
گئیں۔ ڈاکٹر نے بھی کہا اگر آپ ان کو پندرہ بیس منٹ پہلے لے آتے تو ہو
سکتا تھا یہ بچ جاتے۔ سر! میں اس کے بعد سے روز یہ پتھر چنتا ہوں
اورسڑک صاف رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں تاکہ کوئی اور بچہ اپنے بابا سے کبھی
نہ بچھڑے ۔‘‘ اتنا کہہ کر عبدل کی
آنکھیں ڈبڈباگئیں۔
سر شفیق نے اسے گلے سے لگا لیا۔
’’کوئی بات نہیں عبدل! حوصلہ رکھو ۔ چلو اب انعام کھول کر دیکھو
اور سب کو بتاؤ اس میں کیا ہے۔‘‘ سر نے کہا تو عبدل نے آنسو صاف کیے اور انعام
کا ڈبہ کھول ڈالا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ اس میں نئی طرح کے رنگ اور برش
کے ساتھ ایک بڑی سکیچ بک بھی پڑی ہوئی تھی۔ عبدل کو مسکراتا دیکھ کرسر شفیق بھی
مسکرانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجیے
جس سے مجھے فائدہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا۔
’’مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا کرو۔‘‘ (صحیح
مسلم)
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا۔’’ میں نے ایک شخص کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا(اوروہ جنت میں اس
وجہ سے داخل ہوا)کیونکہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے
لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔‘‘ (سنن ابی داؤد)