چار بچے چار امیدیں


میرا نام زبیر ہے۔میری عمر نو سال ہے۔ میری امی بہت بیمار ہیں۔پہلے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں اور ہم صاف ستھرا کھانا کھایا کرتے تھے۔ اب تو کافی مہینوں سے میری امی بستر پر ہیں۔ میں روز صبح صبح اٹھ جاتا ہوں  ۔مجھے گلی کے آخر میں  بنی ہوئی کچرا کنڈی سے کھانا لانا ہوتاہے۔ مجھے کتوں اور بلیوں پربہت غصہ  آتا ہے۔ یہ سارے شاپر پھاڑ دیتے ہیں اور سالن اور سوکھی ہوئی روٹیاں کیچڑ میں بکھر جاتی ہیں۔لیکن  میں بھی بہت عقلمند ہوں۔ میں گھر سے ایک کپڑا اسی لیے ساتھ لے کر آتا ہوں  تاکہ روٹی اور پھل گود میں اکھٹے کرنے سے پہلے صاف کر لوں۔ اوہ یہ کیا! آپ نے تو منہ  اور ناک پر ہاتھ رکھ لیا ہے۔ اچھا تو آپ کو بد بو آرہی ہے ناں! چلیں ٹھیک ہے آپ تھوڑا دور کھڑے ہو کر میری بات سن لیں ۔پتہ ہے ! ہر روز سفید اور سرخ دیواروں والے گھر سے ایک بچہ آتا ہے اور تین چار شاپر جس میں چاول، روٹیاں اور چاول ہوتے ہیں کچرے میں پھینک جاتا ہے۔ایک دن میں نے اس سے کہا کہ وہ یہ سب چیزیں خراب ہونے سے پہلے پہلے ہی مجھے دے دیا کرے لیکن اس نے میری پوری بات نہیں سنی اورمیرا مذاق اڑاتا ہوا بھاگ گیا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ ایک منٹ! اس سے پہلے کہ وہ موٹی سی بلی اس  بچےکے پھینکے ہوئے شاپر اپنے پنجوں سے پھاڑ ڈالے، میں جلدی سے وہ سب اٹھا کر اپنی گود رکھ لوں۔ 


ہاں میں کہہ رہا تھا کہ  آپ جیسے دو بچے بھی ا س دن آئے تھے۔انہوں نے بہت پیارا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔باتیں کرتے کرتےانہوں نے اپنے لنچ باکس کچرے کے ڈھیر کے اوپر الٹ دیے اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ شکر ہے باکس خالی ہو گیا ورنہ امی  بچا ہوا لنچ دیکھ لیں تو بہت ڈانٹی ہیں۔کاش وہ آلو والے پراٹھے  کیچڑ میں پھینکنے کی بجائےمجھے ہی دے دیتے تو میں آج بہت سارے دنوں بعد بغیر تازہ کھانا کھاتا۔ سنا ہے نیا سال آنے والا ہے۔آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ نئے سال میں آپ کبھی بھی  بچا ہوا کھانا کچرے میں نہیں پھینکیں گے بلکہ میرے جیسے کسی زبیر کو دے دیں گے ۔مجھے امید ہے آپ اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام جمیل ہے۔ میری عمر گیارہ سال ہے۔ میں یہیں اسی پٹرول پمپ پر رہتا ہوں۔ پٹرول پمپ کے مالک انکل مجھے ہر ماہ  ۵سو روپے دیتے ہیں۔ اس کے بدلے ،میں یہاں سے سارا دن کچرا چنتا ہوں۔ اگر انکل کو کہیں  بھی کچرا پڑا نظر آجائے تو وہ مجھے بہت ڈانٹتے ہیں اور پھر میرے پیسے بھی کاٹ لیتے ہیں۔اگر میں آپ سے ایک بات کہوں تو آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ آپ نے وہ جوس کا ڈبہ اور چپس کا پیکٹ ابھی ابھی گاڑی کے شیشے سے نیچے پھینکا ہے۔ کیا آپ اس کو اٹھا کر کیاری کے ساتھ پڑے ڈرم میں ڈال آئیں گے؟ بہت شکریہ! آپ نے جمیل کا کام آسان کر دیا۔ ویسے میں ہرروز ٹافیوں  چپس اور چاکلیٹس کے ریپر، پلاسٹک کی بوتلیں اورجوس کے خالی ڈبے اٹھاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لوگ کچرے والے ڈرم کو کیوں استعمال نہیں کرتے حالانکہ اس پر مالک انکل نے بڑا بڑا لکھوایا ہے۔ ’’مجھے استعمال کریں ۔‘‘ اس دن میں نے دیکھا کہ آپ جیسا ہی  ایک بچہ ٹک شاپ سے کولڈ ڈرنک لے کر آیا۔جب  اس کے بابا نے پٹرول بھرا وا کر گاڑی آگے بڑھانے لگے تو اس نےجاتے جاتے  خالی بوتل کیاری میں پھینک دی۔  مجھے دکھ تو بہت ہوا کیونکہ میں کچرا اٹھاتے اٹھاتےبہت تھک جاتا ہوں  لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ اس لیے میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جب بھی اپنے بابا کےساتھ پٹرول پمپ پر آئیں تو صفائی کا خیال رکھیں۔ اس طرح کر کے آپ نہ صرف جمیل جیسے کئی دوسرے ملازموں کی مدد کریں گے بلکہ اپنے وطن کو صاف ستھرا رکھنے میں بھی حصہ ڈالیں گے۔ اوہ ۔۔۔ ہاں! میں نے ابھی ابھی سنا کہ آپ  اپنے دوستوں کے ساتھ نئے سال کی خوشی  میں اس سامنے والے پارک میں سیرکرنے آئیں گے اور نیو ائیر نائٹ بھی منائیں گے۔ مجھے آپ جیسے پیارے بچوں سے پوری امید ہے کہ جب آپ پارٹی کر کے گھر جانے لگیں گے  تو پہلے  اپنا کچرا، کیاریوں کے ساتھ پڑے اس ڈرم میں ڈالیں گے۔اور اگر آپ  ہمیشہ ایسا ہی کریں تو کتنا اچھا ہو ناں!ہمارا پیارا وطن خوب صاف ستھرا رہے اور بہت خوبصورت لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام عمر ہے۔ میری عمر تیرہ سال ہے۔ میں ساتویں جماعت میں  پڑھتا ہوں۔ میں اس  اولڈ بک ہاؤس سے اسلامیات کی کتاب خریدنے آیا  ہوں جو دو دن سے گم ہوگئی ہے۔ ہر سال سوچتا ہوں کہ کاش مجھے اس بار نئی کتب ملیں لیکن ابو  ہمیشہ اولڈ بک سے ہی دلاتے ہیں۔کتاب گم ہونے پرابو نے مجھے بہت ڈانٹا۔ وہ ایک آفس میں کلرک ہیں۔  ہر سال وہ بہت مشکل سے مجھے کتابیں لے کر دیتے ہیں ۔ آہا! یہ تو مجھے بہت اچھی کتاب مل گئی ہے۔دیکھیں تو سرورق کہیں سے بھی پھٹا ہوا نہیں ہے۔ ایک منٹ ! ذرا میں اندر سے چیک کر لوں کہ صفحات پورے ہیں یا نہیں۔ اوہ! یہ کیا!پین کےاتنے سارے نشان اور جگہ جگہ فالتو سطریں۔ چلو۔۔ کوئی بات نہیں۔ ویسے ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ   اپنی کتابوں پر پین سے نشان نہ لگایا کریں۔اگر ضروری ہو تو پنسل استعمال کر لیں۔ پتہ ہے میری انگلش کی کتاب  جو میں نے اسی اولڈ بک سے لی ہےوہ یقیناً کسی بہت اچھے بچے کی کتاب رہی  ہو گی۔ کیونکہ اس پرکہیں بھی پین کاکوئی نشان، کوئی فالتو سطر یا دستخط نہیں تھے۔ بس بہت کچھ کچھ جگہ  پنسل کا استعمال تھا جو میں نے مٹا دیا ۔یوںمیری کتاب بالکل نئی ہو گئی۔ خیر! جب نیا سال شروع ہو گا تو دو تین ماہ بعد سب سکولوں میں بھی نیا سیشن شروع ہو جائے گا۔ میرا دل کرتا ہے آپ جب نئے نصاب کی کتابیں لیں تو پھر پورا سال اسے نیا اور صاف ستھرا رکھیں۔جابجاپین سے نشان نہ لگائیں۔ بہت ضروری ہو تو پنسل سے لکھیں۔ ان کے صفحات کو بھی خراب نہ کریں۔  آپ کے ایسے کرنے سے میرے جیسے  بہت سارے عمر نئی  اور صاف ستھری کتابوں سے پڑھ سکیں  گے۔ نئے سال کی نئی جماعت کےلیے جب میں اولڈ بکس کی دکان پر جاؤں گا تو مجھے پوری امید ہے میں  بھی صاف ستھری کتابیں خرید سکوں گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام ذیشان ہے۔ میری عمر دس سال ہے۔ کچھ مہینوں پہلے تک میں بھی آپ کی طرح بھاگا دوڑا کرتا تھا۔ پھر میرا ایک بہت خوفناک ایکسیڈنٹ ہوا۔ سامنے سے آنے والی ویگن ہمارے موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی۔میری دونوں  ٹانگیں کچلی گئیں۔ ابا تو ابھی تک ہسپتال میں ہیں۔ انہیں دماغ  میں کوئی چوٹ آئی ہے جس کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں آ سکتے۔ امی نے ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور میں! میں یہاں گھر کے سامنے کی سیڑھیوں پر سارا دن بیٹھا رہتا ہوں۔ ساتھ والی آنٹی مجھے کھانا دے دیتی ہیں۔ امی جب گھر آتی ہیں تو مجھے بہت پیار کرتی ہیں ۔ کل وہ میرے لیے کچھ کتابیں بھی لائی تھیں۔ لیکن مجھے جو چیز  بہت شدت سے چاہیے وہ مجھے کوئی نہیں دیتا۔ مجھے میری ٹانگیں واپس چاہیں۔ میں آپ کی طرح تیز تیز بھاگنا چاہوتا ہوں۔  فٹ بال کھیلنا چاہتا ہوں۔ ریس لگانا چاہتا ہوں اور دوڑ کر وہ سامنے والی دکان سے اپنی پسند کی چیز  لانا چاہتا ہوں۔ ویسے تومیرے سارے دوست بہت اچھے ہیں لیکن جو نیا بچہ  شاہدہمارے محلے میں آیا ہے وہ مجھے اچھا نہیں لگا۔ جب اس نے مجھےپہلی بار دیکھا تو وہ ہنسنے لگا ۔ پھر وہ جاتے جاتے مجھے لنگڑا کہہ کر گیا۔شاہد جب بھی میرے پاس سے گزرتا ہے وہ میرا مذاق اڑاتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی اور بچے بھی میرا مذاق اڑانے لگے ہیں۔ میں آپ سے بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بے شک آپ لوگ میرے ساتھ نہ کھیلیں لیکن میری معذوری کا مذاق نہ اڑائیں۔ جب مجھے کوئی لنگڑا کہتا ہے ناں تو میں اس دن کھانا نہیں کھاتا۔ مجھے لگتا ہے یہ لفظ میرے اندر بیٹھ گیا ہے اور اس نے میری بھوک پیاس سب ختم کر دی ہے۔ انسان تو سب ایک سے ہوتے ہیں۔ کیا ہوا جو میری ٹانگیں حادثے میں چلی گئیں۔ اللہ کا شکر ہے میری آنکھیں سلامت ہیں میرے بازو ٹھیک کام کرتے ہیں اور میں سن سکتا ہوں۔کل میرا پڑوسی فاخر اپنی امی سے جھگڑ رہا تھا کہ اسے نئے جاگرز چاہیں۔ کیونکہ اس کے پرانے جاگرز اب اسے پسند نہیں ہیں۔یہ سن کر میں نے سوچا ہم کتنے ناشکرے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ نئی چیزوں کے لیے امی کو تنگ کرے، فاخر کو اس بات پر اللہ کا لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کی ٹانگیں اور پاؤں سلامت ہیں۔ وہ چل سکتا ہے اور دوڑ سکتا ہے۔ اس دن جو فقیر آیا تھا ناں گلی میں وہ نابینا تھا اور بچوں نے اس کی لاٹھی چرا لی  تھی۔ جب وہ سیبوں کی ریڑھی  سے ٹکرا کر گرنے لگا تو بچوں نے اس کی لاٹھی واپس کی۔ کیا آپ نئے سال میں اس بدصورت رویے سے جان چھڑانے کی کوشش کریں گے؟ کیا نئے سال میں آپ میرے جیسے لوگوں کو محبت ، عزت اور آسانی دینے کی کوشش کریں گے؟ کیا آپ آنے والے سال میں  وطن، رزق، صحت اور عافیت جیسی بڑی نعمتوں کے لیے اللہ کے شکرگزار بندے بنیں گے؟اگر ہاں تو پھر میں پر امید ہوں انشاء اللہ!  یہ نیا سال میرے اور آپ کے لیے سب سے پیارا اور خوبصورت سال ہو گا۔