ننھے شیر کی سیر


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے برفانی شیر کی جس کا نام شیرو تھا۔کچھ دنوں سے شیرو کی امی جان نوٹ کر رہی تھیں  کہ وہ بہت سست ہو گیا ہے۔ یہ خیال انہیں تب آیا جب شیرو کا دوست بوبی چیتااس سے لنے آیا۔ وہ  قریبی پہاڑی کی چوٹی پر کھیلنے جا رہا تھا۔ اس کے پاس گرم سوپ کا تھرماس اور برف پر پھسلنے کے تختے تھے۔
’’شیرو! تم ہر وقت بستر میں کیوں لیٹے رہتے ہو؟ آؤ میرے ساتھ سیر کرنے چلو۔ ‘‘ ایک دوست نے کہا۔
یہ سن کر شیرونےایک لمبی سانس لی ، کمبل مزید اپنے اردگرد چپکایا اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ پہاڑی کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر اسے مزید سردی سی لگنے لگی۔
بوبی چیتا کہنے لگا۔


’’ بہت مزہ آئے گا شیرو۔ میرے پاس گاجریں اور فالتو ٹوپیاں بھی ہیں۔ ان سے ہم سنو مین بنائیں گے۔چلو اٹھو!‘‘
شیرو تنگ آگیا۔
’’جی نہیں! میں تو کہیں نہیں جا رہا۔ یہ موسم تو گرم گرم بستر میں لیٹ کرکتاب پڑھنے والا ہے۔‘‘ شیرو  نےیہ کہہ کر تکیے کے نیچےسے کتاب نکال لی۔
جب بوبی چلا گیا تو شیرو نےسوچا۔
’’شکر ہے میں نہیں گیا ورنہ میں کتنا تھک جاتا۔ اوہ!میں تو ویسے بھی تھکاہوا ہوں۔‘‘یہ سوچ کر شیرو کمبل اوڑھ کر سو گیا۔ جب امی جان کمرے میں آئیں تو وہ خراٹے لے رہا تھا۔
’’خدایا! یہ کتنا سست ہو گیا ہے۔ مجھے کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ امی نے سوچا اورکمرے سے باہر نکل گئیں۔
اگلے دن شیرو کی امی نے اسے صبح صبح جگا دیا۔
’’شیرو! اٹھ جاؤ۔ آج تمھیں میرے ساتھ شکار کو جانا ہو گا۔ ‘‘
شیرو نے یہ سنا تو منہ بنا کراٹھ گیا۔
’’امی جان ! میں آج سادہ سا ناشتہ کر لیتا ہوں۔ کیا ضروری ہے اتنی صبح جا کر خرگوشوں کو پکڑنا۔ اف وہ کتنا بھاگتے ہیں۔ ‘‘ شیرو رونے والا تھا۔ اسے بہت نیندا ٓرہی تھی۔
’’چلو! ہم دونوں مل کر شکار کرلیں گے۔تمھیں زیادہ بھاگنا نہیں پڑے گا۔‘‘ امی نے کہا اور اس کا کمبل اٹھا کر الماری کے اوپر رکھ دیا۔
راستے میں امی جان کو چیتے کی بہن مل گئیں۔ وہ ان سے باتیں کرنے لگیں تو شیرو بور ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نظر ایک سرخ تتلی پر پڑی جو گھاس پر لگے پھولوں پر اڑ رہی تھی۔ شیرو نے سوچا میں اس تتلی کو پکڑ کر اپنے دوستوں کو دکھاؤں گا۔
’’ادھر آؤ پیاری تتلی! میرے پاس!‘‘  شیرو یہ کہہ کر تتلی کے پیچھے بھاگنے لگا۔
سرخ تتلی نے شیرو کو دیکھا تو تیز تیز  اڑنے لگی۔
شیرو اب تیزی سے تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا ۔ بھاگتے بھاگتے وہ پہاڑی پر کافی اوپر آگیا تھا۔
’’یہ کیا! امی جان تو نیچے رہ گئیں اور میں چوٹی تک پہنچ گیا ہوں۔ کیا مجھے واپس جانا چاہیے؟‘‘ شیرو نے مڑ  کر دیکھتے ہوئے سوچا۔
اچانک ہی ایک آواز آئی۔                         
’’ارے میرا تختہ۔ پھسلتا جا رہا ہے۔ پکڑو پکڑو!‘‘یہ شیرو کا دوست بوبی تھاجو پہاڑی کی چوٹی پر برف میں کھیلنے آیا ہوا تھا۔
شیرو کی نظر پھسلتے ہوئے تختے  پر پڑی تو اس نے جلدی سے بھاگ کر اسے اٹھالیا ۔ اتنے میں بوبی بھی شیرو کے پاس پہنچ گیا تھا۔
’’شکریہ  شیرو! تم  توبہت پھرتیلے ہو۔‘‘ بوبی نے اپنا تختہ واپس لیتے ہوئے کہا۔ شیرو کو بہت اچھا لگا۔ آج پہلی بار اسے کسی نے پھرتیلا کہا تھا۔
’’کیا تم میرے ساتھ تختے پر بیٹھ کر برف پر پھسلنا پسند کرو گے؟‘‘ بوبی نے پوچھا تو شیرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس نے تختے کو دونوں جانب سے مضبوطی سے پکڑ لیا اور جم کر بیٹھ گیا۔
جب وہ دونوں تختے پر بیٹھے ،پھسلتے ہوئے نیچے جنگل میں پہنچے تو امی جان انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے شیرو کو بہت شاباش دی اور بوبی کا شکریہ ادا کیا۔
 بچو! اب شیرو ہر روز شکار کرنے جاتا ہے اور خوب بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ وہ پہاڑی کی چوٹی پر برف کے دو سنو مین بھی بنا چکا ہے ۔ اسے  آپ کبھی غیر ضروری طور پر بستر میں لیٹا نہیں دیکھیں گے۔  آپ بھی سستی کو دور بھگا نا چاہتے ہیں توروزانہ صبح کی سیر کریں۔