جمی بھالو اور بن بن مکھی


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے بھالو ، جمی کی جو اپنے امی  ابو کے ساتھ چھوٹی سی سر سبز پہاڑی میں رہا کرتا تھا۔ پہلے اس کا گھر جنگل کے اندر تھا لیکن وہاں بارش کا پانی آجاتا تھا۔ اب جمی کے امی ابو نے ایک اونچی سی پہاڑی کے اندرنیا گھر بنا لیا تھا۔یہ نیا گھر بہت پیارا تھا۔ اس کے دروازے سفید رنگ کے تھے اور دیواروں پر سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ کھڑکیوں کے باہر گلاب اور موتیے کے پودے اگے ہوئے تھے۔ جمی بھالو کو اپنا نیا گھر بہت پسند تھا۔ ایک دن اس کی امی نے اسے ایک چھوٹا سا کاغذ دیا۔ اس پر نئے گھر کا پتہ لکھا تھا۔ بھالو امی نے کہا۔
’’جمی بیٹا ! یہ پتہ یاد کر لو۔ ‘‘
’’جی امی ! ٹھیک ہے۔‘‘ جمی بھالو نے کہا اور کاغذ لے لیا۔
پھر وہ کاغذ کھڑکی میں رکھ کر بھول  گیا ۔


ایک دن جب جمی  سو کر اٹھا تو کھڑکی سے بہت ساری دھوپ اندر آرہی تھی۔ ساتھ ہی بھن  بھن کی کچھ  آوازیں بھی۔
’’یہ کون  ہے؟‘‘ جمی  نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔
وہ ایک شہد کی موٹی سی مکھی، بن بن تھی۔ بن بن کھڑکی کے باہر لگے ہوئے پھولوں سے، شہد بنانے کے لیےرس اکٹھا کر رہی تھی۔
’’ارے تم کون ہو؟‘‘  بن بن نے پوچھا۔
’’میرا نام جمی ہے ۔ویسے مجھے شہد بہت اچھا لگتاہے۔ کیا تم مجھے تھوڑا سا شہد دو گی؟‘‘ جمی نے کہا ۔ وہ بن بن کی کمر کے ساتھ لٹکی ہوئی بالٹی کو دیکھ رہا تھا۔اس بالٹی میں بہت سارا سنہری شہد تھا۔
’’نہیں۔ یہ تو میں نے چھتے میں لے کر جانا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو۔ وہاں فالتو شہد بھی ہے۔ وہ تم لے لینا۔‘‘ بن بن نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں امی سے پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘ جمی نے کہا او ربھالوامی سے اجازت لے کر گھر سے باہر نکل آیا۔
’’چلو!‘‘ بن بن نے اونچی آواز میں کہا اور اوپر اوپر اڑنے لگی۔ جمی بھی بن بن کو دیکھتے دیکھتے چل رہا تھا۔کافی دیر چلنے کے بعد بن بن مکھی کا گھر آیا۔ اب تک تو جمی بھالو کو سخت بھوک لگ چکی تھی۔
بن بن مکھی نے درخت پر چڑھ کر سارا شہد چھتے میں ڈالا۔ پھر ایک دوسری الماری سے شہد کی چھوٹی سی بوتل نکال کر جمی بھالو کو دی۔ جمی بھالو نے  بن بن کا شکریہ ادا کیا اور بوتل لے کر گھر کی طرف چل دیا۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد جمی کو خیال آیا کہ شاید وہ غلط راستے پر چل رہا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بن بن کا گھر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
’’اوہ مجھے راستہ بھول گیا ہے۔ اب کیا کروں؟ ‘‘  
جمی بھالو نے پریشانی سے سوچا۔ وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں وہاں سے ایک ہاتھی میاں گزرے۔
’’ہاتھی انکل! کیا آپ مجھے میرے گھر پہنچا سکتے ہیں؟‘‘ جمی بھالو نے ان سے پوچھا۔
’’ہاں کیوں نہیں۔ تمھارا گھر کہاں ہے؟‘‘ ہاتھی انکل رک گئے اور جمی بھالو سے پوچھنے لگے۔
’’آں۔۔ میرا گھر۔ میرا گھرپہلے پہلے یہیں جنگل میں ہوتا تھا لیکن اب نیا والا....... ایک پہاڑی کے اندر ہے۔ ‘‘ جمی بھالو نے بتایا تو ہاتھی میاں ہنسنے لگے۔
’’بھلا یہ کیا بات ہوئی۔یہاں تو بہت ساری پہاڑیاں اور درخت ہیں۔ ہر گھر کا کوئی پتہ ہوتا ہے۔ لگتا ہے تمھیں اپنے گھر کا پتہ نہیں معلوم۔‘‘
’’جی۔۔ ایسی ہی بات ہے۔‘‘ جمی بھالو نے اداسی سے کہا اور سر جھکا لیا۔
’’ امی نے کتنا کہا تھا نئے گھر کا پتہ یاد کر لو مگر میں نے نہیں کیا۔‘‘ جمی ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک آواز آئی۔
’’بھن بھن۔ ۔۔ بھن بھن!‘‘ اچانک ایک آواز آئی۔
’’ارے تو یہ بن بن مکھی کی آواز ہے۔‘‘ جمی بھالو نے اچھل کر کہا۔
واقعی وہ بن بن مکھی تھی جو اپنی دوست گلہری سے ملنے جا  رہی تھی۔
’’ارےجمی! تم ابھی تک اپنے گھر نہیں گئے۔ لگتا ہے تم راستہ بھول ہو گئے ہو ۔ مجھے تو سب راستے اچھی طرح یاد ہیں! ‘‘ بن بن مکھی نےبتایا۔
’’اچھا پھر تم مجھے میرے گھر پہنچا دوگی؟‘‘ جمی نے پوچھا۔
’’ہاں چلو۔ میر ی سہیلی گلہری کا گھر بھی وہیں ہے۔میں  وہیں جا رہی تھی۔‘‘ بن بن مکھی نے کہا۔
پھر ان دونوں نے ہاتھی میاں کو خدا حافظ کہا اور گھر کی جانب چل پڑے۔
اس رات کو سونے سے پہلے پہلے جمی بھالو نے اپنے گھر کا پتہ اچھی طرح یاد کر لیاتھا۔ تیسری سر سبز پہاڑی۔سرمئی پتھروں،گلاب کے پودے اورآم کے پیڑ کے ساتھ سرخ رنگ کا گھر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                             
میرے  پیارے بچو! اگر آپ کو اپنے گھر کا پتہ  یاد نہیں تو جلدی سے امی جان سے پوچھ کر یاد کر لیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اللہ نہ کرے کبھی آپ کو گھر کا راستہ یاد نہ رہے  تو گھر کا پتہ معلوم ہونا چاہیے ۔ہاں! اگر آپ کو بن بن مکھی ملے تو اس کے ساتھ جمی بھالو  کے گھر ضرور جائیں کیونکہ اس کا نیا گھر بہت پیارا ہے!