بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں


بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں... رحمت کے پھول ہوتی ہیں... پھولوں کی خوشبو ہوتی ہیں۔
.......................................
آج میں اس بیٹی کی رخصتی پر پھوٹ پھوٹ کر رویا ہوں جس کی پیدائش پر پورا ہفتہ میں نے اپنی بیوی سے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی۔ کومل میری پانچویں بیٹی تھی۔ اس سے پہلے اوپر تلے کی چار بیٹیاں ہی میرا موڈ خراب کرنے کو بہت کافی تھیں جب کومل بھی چلی آئی۔ مجھے اندر سے یقین تھا اس میں میری بیوی کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔لیکن یار دوستوں کا کیا کرتا۔ کوئی دیکھتے ہی استہزائیہ ہنسی ہنستا تو کوئی کسی پیر ملنگ کے پاس جانے کا مشورہ دیتا۔ کوئی کہتا یار اشفاق تیری تو نسل ہی نہیں چلے گی تو کوئی علاج معالجے کے لیے کسی ڈاکٹر کا پتہ دے دیتا۔
گھر آکر اماں کے پاس بیٹھتا تو وہ ٹھنڈی سانسیں لیتیں۔

’’ہائے میرا شفی۔۔ ۔ پتر تو دوسری کر لے۔ اس کے نصیب میں وارث دینا نہیں لکھا۔ چھوڑ اس کو۔‘‘
لیکن ایک عجیب سی بات تھی۔ یہ سب باتیں سن سنا کر جب اپنے کمرے میں داخل ہوتا تو ایک سرشاری سی اندر اترنے لگتی۔ سب سے بڑی بیٹی اقرابڑھ کر میرے جوتے اتارنے لگتی۔ اس سے چھوٹی ماریہ میرے لیے پانی کا گلاس لیے چلی آتی۔ تیسرے اور چوتھے نمبر والی بیٹیاں اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے کندھے دبانے لگتیں۔ میں ان سب کلیوں جیسی بیٹیوں کو گلے لگا کر چومنا چاہتا تھا ان کو پیار کرنا چاہتا تھا لیکن میرے اندر کی انا اور وہ کڑواہٹ آڑے آجاتی جو معاشرے کے لوگ مل کر میرے اندر بھر رہے تھے۔ سو میں بے رخی لیے بستر پر گر جاتا۔
پھر کومل چلی آئی۔ میں نے پورا دن اپنی بیوی سے بات نہیں کی۔ گھر بھی نہیں آیا۔ پھر یونہی ہونے لگا۔ میں اندر سے ناراض رہنے لگا۔ میرا بیٹا کیوں نہیں ہے۔ میرے سب دوستوں کے پاس بیٹے ہیں۔ کسی کے دو کسی کے تین۔ بلکہ یہ ساتھ والے جو نئے پڑوسی آئے ہیں ان کے ہاں ماشاءاللہ سے پورے سات بیٹے ہیں۔ واہ میرے ربا! ایک اولاد نرینہ میرے آنگن میں بھی اتار دیتا۔ لیکن اللہ کو منظورنہیں تھا۔ اور میں اپنے گھر میں آئی ہوئی رحمتوں کی ناشکری کرتا رہا۔ انہیں یکسر نظر انداز کرتا رہا۔
جب وقت نے میرے بالوں میں سرمئی سی سفیدی اتاری میں واپڈا کے محکمے سے ریٹائر ہو گیا۔ نوکری کی مدت ختم ہو گئی تھی۔ کیسا اصول ہے ہماری ریاست کا۔ جب انسان حالات کی بھٹی میں پک کر کندن ہو جاتا ہے اور اپنے محکمے کو اپنے قیمتی تجربات سے فائدہ دینا چاہتا ہے تو اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ جب وہ سونے جیسے مشورے اور ہیرے جیسی تجاویز دینے کے قابل ہوجاتا ہے تو اسے کہتے ہیں۔ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔
خیر! ریٹائرمنٹ کے بعد چڑچڑاہٹ جیسے میرے خون میں دوڑنے لگی۔ بیوی بھی بھاگ بھاگ کر میرے کام کرنے کے قابل نہیں رہی تھی لیکن وہ یقیناً ایک اچھی بیوی کے ساتھ ساتھ بہترین ماں ثابت ہوئی تھی۔ اس نے بیٹیوں کو گھر کے سب کاموں کے ساتھ اپنی اور میری خدمت کرنا بھی سکھایا تھا ۔اقرا پڑھائی میں بہت اچھی تھی یونیورسٹی بھی جاتی تھی لیکن میرے کام وہ سب سے پہلے کرتی۔ میں اس کی سب سے پہلی ترجیح تھا۔ ماریہ ، ماہم اور نازو بھی ہمہ وقت میری ایک آواز پر اپنے سب کام چھوڑ کر حاضر ہو جاتیں۔ میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا اللہ نے میری ناشکر ی کی مجھےکوئی سزا نہ دی تھی بلکہ میری بیٹیوں کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیا تھا۔
اور کومل! کومل سب سے مختلف تھی۔ ہاں واقعی۔ وہ پانچویں جماعت میں تھی ۔ سکول سے آتے ہی میرے پاس بیٹھ جاتی اور پورا ایک گھنٹہ مجھے سکول کی باتیں سناتی۔
یہ دیکھے بغیر کہ میں دلچسپی لے رہا ہوں یا نہیں وہ باتیں کرتی جاتی۔کوئی مرتبہ میں موبائل پر میسج پڑھنے لگتا تو وہ میرا موبائل میرے ہاتھ سےلے کر رکھ دیتی۔ بابا پلیز سنیں ناں ۔ اتنی مزے کی بات ہے۔۔ پتہ کیا۔۔
اور میں پھر سے ہمہ تن گوش ہو جاتا۔
میں ہر روز دو بجنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔ کب دو بجیں گے کب اس کی وین کےہارن کی آواز آئے گی اور کب وہ اچھلی کودتی بیگ صوفے پر پھینک کر میرے پاس آبیٹھے گی۔اس کے گال دھوپ سے تمتما رہے ہوتے تھے اور یونیفارم کے سفید سکارف میں وہ پری معلوم ہوتی تھی ۔ کئی بار میں نے پچگانہ انداز میں سوچا۔ کومل تو پری ہے۔ لیکن نہیں۔ پریوں کے پر ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا بیٹیوں پریاں ہی ہوتی ہیں۔ ان کے پر نہیں ہوتے لیکن وہ اڑ جاتی ہیں ۔ ۔ واپس نہ آنے کے لیے۔
اقرا کے رشتے کے لیے لوگ آئے ہوئے تھے۔ یہ لوگ ایک رشتے والی خاتون کے توسط سے آئے تھے۔ مجھے تو عجیب سے لگے۔ میری بیوی نے اقرا اور ماہم کے ساتھ مل کر کیا کچھ بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جاتے جاتے کہہ گئے ۔ ہم سوچ کر بتاتے ہیں۔
کچھ دن بعد ان کا فون آ گیا۔ ان کے بیٹے کو گورے رنگ کی لڑکی پسند تھی۔ اقرا اسے پسند نہیں آئی تھی۔
میں اس وقت سے غصے میں تھا۔
’’
مطلب کیا ہے اس بات کا۔ یعنی میری بیٹی کا رنگ کالا ہے۔ میری بیٹی میں کوئی کمی ہے۔ میری پیاری بیٹی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ بات وہ اچھی طرح سن لیں۔ ‘‘ میں آج پہلی بار اپنی بیوی سے اس انداز میں بات کر رہا تھا سو اس کا کھلا منہ دیدنی تھا۔
میری بیوی کو پہلی بار معلوم ہوا۔ میں اپنی بیٹیوں کے لیے کتنا حساس ہو ں۔
میں نے کہنے کو توکہہ دیا تھا میری کسی بیٹی میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن یہ بات تو مجھے بعد میں پتہ چلی۔ میری ہر بیٹی میں کوئی نہ کمی تھی۔میری پیاری سانولی بیٹی اقرا میں گورے رنگ کی کمی تھی۔میرے جگر کے ٹکڑے ماہم اور ماریہ کے قد چھوٹے تھے۔میرے دل کا سکون میری نازو کے بال لمبے نہیں تھے۔
آج پھر کچھ لوگ آئے اور جاتے جاتے سوچنے کا کہہ گئے۔ میرا غصے اور کوفت سے برا حال تھا۔
کچھ دن بعد انکی طرف سے اشاروں کنایوں میں پوچھا گیا۔ جہیز کتنا دے سکتے ہیں۔ بیٹا تو ہے نہیں، بوڑھا ریٹائرڈ باپ آخر کتنا جہیز دے سکتا ہے۔ یہ بات وہ اپنے منہ سے پوچھ رہے تھے۔ میں نےاپنی بیوی کو ان کی اگلی کال اٹینڈ کرنے سے ہی منع کر دیا۔
’’
میری بیٹیوں کی قیمت لگاتے ہیں۔ لالچی لوگ۔ میری بیٹیاں پتھر کا بت نہیں ہیں۔ انسان ہیں۔ ان کی عزت نفس ہے۔میں کہہ رہا ہوں۔ اب کہ کوئی ایرا غیرا رشتہ لے کر نہیں آئے گا۔‘‘
میں نے ببانگ دہل اعلان تو کر دیا لیکن یہ اعلان کس قدر پھسپھسا تھا یہ میں اور میری بیوی دونوں جانتے تھے۔
یوں جانے انجانے لوگ آتے رہے۔ میری بیٹیوں میں نقص نکال نکال کر جاتے رہے۔ میں دل کا مریض ہو چکا تھا۔ بس یونہی۔اپنی پریوں جیسی بیٹیوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کرتو نہیں۔ بس یونہی۔
میری بیٹیا ں میرے جگر کا ٹکڑا ہیں۔ ٹھیک ہے دل میں بیٹے کی خواہش آج بھی ایک تیر کی طرح پیوست ہے۔ لیکن بیٹیاں کیا کسی بیٹے سے کم ہوتی ہیں۔ جی نہیں! اور اگر کوئی ان بیٹیوں کو صرف اس لیے رد کر کے چلتا بنے کہ ان کا قد آئیڈیل قد سے ایک انچ چھوٹا ہے اور ان کا رنگ گورے رنگ سے ذرا سا کم گورا ہے۔ ان کا باپ انہیں جہیز میں گاڑی نہیں دے سکتا اور امپورٹڈ کراکری ان کے جہیز کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگر کوئی ان وجوہات پر میری بیٹیوں کو رد کر کے چلتا بنا ہے تو رو ز قیامت وہ میرے ٹوٹے دل اوراس کی کرچیوں کے اوپر سے گزر کر جنت میں نہیں جا سکتا۔
میں بیٹوں کے والدین سے دست بدستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ اپنی اولاد کو اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ بھی سکھایا کریں کہ مانگے ہوئے جہیز کے ڈبل بیڈ سے ایک سادہ سی چارپائی بہت بہتر ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے لی گئی ہو۔ کسی لڑکی کو اس کے جسمانی خامیوں پر رد تو کر دیں گے پر اس کی بدعا سے ساری زندگی آپ کی خوشیاں ہارتی رہیں گی۔
خیر معاف کیجیے میں جذباتی ہو گیا تھا۔بیٹیوں کا معاملہ ہے۔ دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا ہے معاشرے کے سنگین اور پتھر دل رویوں پر۔ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ ایک دن میری اور میری بیوی کی مراد بر آئی۔ میرے دوست عبداللہ صاحب اقرا اور ماہم کے لیے اپنے دو بیٹوں کا رشتہ لائے تھے۔ ہمارا خوشی سےبرا حال تھا۔ میری بیوی کے تو پیر زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ دونوں ہونے والے داماد اعلی تعلیم یافتہ اور اچھی نوکریوں پر تھے۔
کچھ عرصے بعداللہ کے کرم سے ماریہ اور نازو کی بھی بہترین جگہ شادی ہو گئی۔ میری چاروں بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اللہ انہیں ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے۔ کوئی غم انہیں چھو کر بھی نہ گزرے۔ آمین
یوں تو میں ہر بیٹی کی رخصتی پر آنسو چھپا لیتا تھا۔ ہر بیٹی کو الوداع کرتے ہوئے لگا تھا جیسے جسم کا کوئی ٹکڑا الگ کر کے کسی اور کے حوالے کر رہا ہوں۔ جیسے جگر کا ٹکڑا کاٹ کے کر دے رہا ہوں۔ باربار داماد پر نظریں جاتیں اور دل سے دعا نکلتی ۔ یا اللہ اس کو میری بیٹی کا بہترین شوہر بنانا۔ یا اللہ میری بیٹی کو اس سےکبھی کوئی دکھ نہ پہنچے ہمیشہ سکھ ہی سکھ پہنچے۔یا اللہ میرے داماد کو میری بیٹی کی آنکھوں کی ٹھنڈک دل کا سکون بنانا۔
آج دوپہر کومل کی رخصتی تھی۔ رات بھر سوچوں میں ہی بیٹھا رہا۔ کیسے رخصت کروں گااسے۔ گھر کی آخری رونق کو۔کومل کو نہیں دیکھوں گا تو سانس کیسے لوں گا۔ کھانا کیسے کھاؤں گا۔ کومل کی آواز نہیں آئے گی تو چین کیسے آئے گا۔ سکون کیسے آئے گا۔ پر بات تو وہی ہے جو میں نے پہلے کہی۔ بیٹیاں پریاں جیسی ہوتی ہیں ۔نازک اور خوبصورت دل والیاں۔ ان کے پر تو نہیں ہوتے لیکن یہ اڑ جاتی ہیں۔ واپس نہ آنے کے لیے۔
سو کومل بھی جارہی ہے اورمیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہوں۔ یہ غم اور جدائی کے آنسو ہیں کیونکہ آج میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ یہ پچھتاوے کے آنسو ہیں کہ میں نے کومل کی پیدائش پر ناراضگی دکھائی تھی لیکن میرے اللہ نے میری کومل کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری سانسوں کا سکون بنا دیا۔ میں نے بارہا مولانا طارق جمیل کو کہتے ہو ئے سنا ہے۔ پیارے نبی پاک ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کا بہت اکرام کرتے تھے۔ ان کے آنے پر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
مجھے بھی اتوار کا انتظار ہے۔ جب میری بیٹیاں آئیں گی تو میں بھی... میں بھی ان کے لیے اپنی چادر اپنی آنکھیں اپنی پلکیں اپنا دل بچھا دوں گا.......کیونکہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں... رحمت کے پھول ہوتی ہیں... پھولوں کی خوشبو ہوتی ہیں۔ یہ خوشبو ماں باپ کے دلوں سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔