نرم لہجے میں بات کرنا


نرمی سے بات کرنا!!
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ( سورہ طہ 44)
"
پس اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید کہ وہ سمجھ جائے یا (اللہ کا) خوف پکڑ لے۔"
یہ اللہ تعالیٰ حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو حکم دے رہے ہیں۔ کہ وہ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور اسے اللہ کی طرف بلائیں۔ دیکھیں! عفو و کرم کی انتہا ہے۔
اللہ تعالیٰ  ماضی حال و مستقبل کے دائروں میں نہیں رہتے۔ وہ زمانے کی قید سے آزاد ہیں۔ اللہ کو خوب خبر تھی خدائی کا دعوٰی کرنے والا فرعون توبہ نہیں کرے گا۔
اس کے باوجود۔۔! حکم دیا جارہاہے نرم بات کرنا۔ کس سے؟ اس سے جو میری خدائی کی برابری کرنے پر اتر آیا ہے۔ نرم بات کرنا! کس سے؟ اس سے جو بنی اسرائیل کے ستر ہزار بیٹوں کا قاتل ہے۔ نرم بات کرنا۔ کس سے؟ اس سے جو پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوگا اور جس کی میت بطور نشان عبرت عجائب خانوں میں رکھی جائے گی۔


یہ ہمیں سکھایا جا رہا ہے۔ ہم جو۔۔ چھوٹی سی برائی کو مٹانے کے لیے سخت سے سخت الفاظ اور لہجے استعمال کرتے ہیں اور خود کو برحق سمجھتے ہیں۔ ہم جو اپنے ہی کلمہ گو بہن بھائیوں کو سخت لہجے اور طعنوں کے تیروں سے زخمی کرتے رہتے ہیں۔ہم جو اپنے straight forward ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور سامنے والے کا دل چھلنی کرتے رہتے ہیں۔۔۔
یہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا کا برے سے برا ترین انسان نرمی اور نرم لہجے کا مستحق ہے۔ اس سے ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرو۔ شاید کہ وہ سمجھ جائے اور اللہ سے ڈر جائے کیونکہ ہر کوئی فرعون نہیں ہوسکتا۔
کوئی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ کوئی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ کوئی محمد یوسف کوئی جنید جمشید بھی تو ہو سکتا ہے۔
سو  ہمیشہ نرمی کا مظاہرہ کریں اور پیارے نبی ﷺ کا فرمانِ حق ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ جو شخص نرمی سے محروم ہے وہ بھلائی سے محروم ہے۔ (صحیح مسلم)