جنید جمشید ۔ یہ خزانے تجھے ممکن ہے خوابوں میں ملیں



وہ گانے گاتا تھا۔ معصیت کی زندگی تھی۔ پھر تبلیغی جماعت سے تعلق کیا ہوا کہ اللہ جی سے تعلق بنتا چلا گیا۔ اللہ کی محبت اور رحمت ہمہ وقت اپنے ساتھ محسوس کرنے لگا۔ دین کی تبلیغ کے لیے ملکوں ملکوں کوچے کوچے کا مسافر بننے  لگا۔ جہاں جہاں گانے گا کر میوزک کا جادو جگایا تھا وہاں وہاں اس کی کوشش ہوتی کہ دین کا نام لے لوں لوگوں کو اللہ کی طرف بلا لوں۔ سینکڑوں نوجوان لڑکے جو اس کی آواز اور اس کے میوزک کے دیوانے تھے، اس کا بدلہ ہوا روپ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان کے دلوں نے گواہی دے دی کہ بے شک یہی سچائی اور کامیابی کا راستہ ہے۔ ہزاروں لاکھوں دلوں پر یوں اثر انداز ہوا کہ گانوں اور میوزک کی نفرت ہٹا کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت بٹھا دی۔ لاکھوں لوگوں کی زندگی اس کی وجہ سے بدل گئی کیونکہ اس کی نرم آواز میں دین کی دعوت اس کا ملکوں ملکوں پھرنا اس کا دن میں تین تین بیان کرنا اس کی محبت بھری باتیں اس کا اپنے گناہوں والی زندگی یاد کر کر کے رونا۔۔۔ کون سا دل تھا جو متاثر نہ ہوا۔ وہ نوجوان نسل کے لیے اسلام کی ایک عملی مثال بن گیا تھا۔

آپ یقین کریں جب اس نے گانوں اور مصنوعی گلیمر والی زندگی کو خیر باد کہ دیا تو اس کے پاس بچوں کی فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہ تھے۔ جب اس نے پیپسی والوں کے کروڑوں کے ایڈ کو ٹھکرایا تو اس کے پاس اگلے مہینے کے بل ادا کرنے کو ایک دھیلہ نہ تھا۔ لیکن اس نے قربانی دے دی۔ صرف اس لیے کہ اس کا نام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سچے عاشقوں میں لکھا جائے۔ صرف اس لیے کہ جتنے لوگوں کو وہ گمراہ کر چکا تھا اس کے ہدایت پکڑ لینے سے شاید وہ بھی اسی راستے پر چلے آئیں۔
پھر جب اس نے اللہ کی راہ میں دعوت کا کام شروع کیا تو یہ واقعتا بے غرض و بے لوث ہی تو تھا۔ وہ اپنی شب و روز کی محنت کا کوئی معاوضہ نہیں چاہتا تھا۔ صرف اللہ سےاجر مانگ لیتا تھا۔ ’’میرے نبی پیارے نبی ﷺ‘‘ ’’بدر الدجی‘‘ ، ’’محبت کیا ہے‘‘ ، ’’اے رسول امیں‘‘ اے اللہ تو ہی عطا تو جودو سخا‘‘ ’’دنیا کے اے مسافر‘‘ اور اسی جیسے کئی لازوال یادگار نعتیں نظمیں حمد اس نے کیا پڑھیں دل احکام ِ الٰہی اور سنتوں پر عمل کرنے کے لیے نرم ہوتے چلے گئے۔ مجھے یاد ہے اس نے جب بغیر میوزک کے اپنا ہی پرانا لیکن یادگار اور سبھی کا فیورٹ قومی نغمہ ’’دل دل پاکستان‘‘ پڑھا تو نوجوان سامعین میں جوش اور جذبے کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ تالیوں اور نعروں کا ایک نہ تھمنے والا طوفان برپا تھا۔
اگر میں اور آپ سمجھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کی مانند ، اس کی چاہتیں اس کی دینی محنتیں صرف مسلم بھائیوں تک محدود تھیں تو ہم یقیناً غلط ہیں۔ ایسا نہیں تھا۔ وہ ان نادان راہ بھٹکے مسافروں کے لیے بھی ویسا ہی مہربان اور شفیق تھا جیسے اپنے دینی بھائیوں کے لیے۔ وہ ان کے پاس جا کر ان کے دلجوئی کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ چیرٹی اور مدد کی کمپینز صرف مخصوص لوگوں کے لیے بلکہ ہر طبقے ہر فرقے کے لوگوں کے لیے تھیں۔ وہ چاند نہیں تھا کہ صرف اپنے قریبی ستاروں ہی کو روشن کر پاتا۔ وہ سورج نہیں تھا کہ اس کی روشنی تپش اور جلن میں تبدیل ہو جاتی۔ وہ بارش تھا۔۔بارش برستے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ کون اسے برا بھلا کہتا رہا اور کون اس کے آنے کی دعا مانگتا رہا۔ کون اس کے انتظار میں چھتری لیے کھڑا ہے اور کس نے مارے نفرت کے نادانی ہی میں اپنی کھڑکیوں کے کواڑ بند کر رکھے ہیں۔ بارش! جو ہر ذرے ہر پتے ہر ٹہنی اور ہر پیڑ پر برس جاتی ہے۔ بارش! محبت کی بارش احترام خلوص اور بے لوث بے غرض چاہتوں کی بارش۔۔
اردن کے رائل اسلامک سٹریٹجک سٹڈیز سینٹر کی طرف سے ایک رپورٹ 2009 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ رپورٹ امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں واقع ’پرنس الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسٹین انڈرسٹینڈنگ‘ کے تعاون سے اب ہر سال شائع ہوتی ہے۔ سال 2012 کی اس رپورٹ کے مطابق وہ کرہ ارض پر بسنے والے ڈھائی ارب کلمہ گو انسانوں میں سے 500 بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
بقول زوار مہدی ممتاز
آؤ ہم مل کے یہاں پیارکی دنیا میں رہیں
ہم سبھی اُلفت و ایثار کی دنیا میں رہیں
نفرتیں بغض و عداوت کو جنم دیتی ہیں
دوریاں بڑھ کے ہمیں رنج و اَلم دیتی ہیں
عارضی ہیں یہ شب و روز،یہ جیون یہ بہار
اِن کو اِک جذبہء ایثار و محبت سے گزار
آو اب مل کے نئے دور کا آغاز کریں
کوئی گھائل ہے تو ہم اُس کا بھی دل شاد کریں
اولیں فرض ہے ِبَس شِِیرو شکرہو جانا
ڈھیربن جاتا ہے مل جائے جو دانہ دانہ
ایک دن وہ حسبِ معمول اسی طرح اپنے محبت بھرے انداز میں بیان کر رہا تھا۔ اس کے ارد گرد اسی طرح نوجوان اکٹھے تھے۔ اس نے حضور اکرم ﷺ کی ازدواجی زندگی کا تذکرہ شروع کیا۔ اس کے بیان کرنے کا اپنا مخصوص انداز تھا جس کے لیے نوجوان اس کے گرویدہ تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی اللہ تعالٰی نے بالکل اوپن کر دی ہے۔ عام طور پر عام آدمی ایسا نہیں کرنا چاہتا لیکن امت کی رہنمائی کے لیے اللہ نے اپنے نبی کی ایک ایک بات ایک ایک طریقے کو کھول کول کر بیان کردیا ہے۔ پھر اس نے شوہر اور بیوی کی محبت و الفت کو بیان کرنا شروع کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضور ﷺ کے ایک محبت بھرے واقعے کا ذکر اتنے پیارے اور بے ساختہ انداز میں کیا کہ جس نے بھی سنا ہونٹوں پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک محبت و احترام بھری مسکراٹ در آئی۔ دل ان کے احترام اور ان کی چاہت سے لبریز ہو گیا۔
اس نے بیان کیا۔ اس کے بیان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں لایکس اور شئیرز پا گئیں۔ اس کی آڈیو اس کی باتیں اس کا نرم لہجہ اس کا محبت و عقیدت سے چھلکتا لہجہ نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے سنا اور اپنے اندر کی برائی کو اچھائی میں بدلنے کا ایک نیا جذبہ محسوس کیا۔
زمین میں ایک قیمتی پتھر پایا جاتا ہے جس میں کاربن میٹل ایک مخصوص ڈھانچے کی شکل میں جڑی ہوتی ہے۔ یہ پتھر ہیرا کہلاتا ہے۔ قدرتی طور پر ہیرے انتہائی بلند درجہ حرارت اور انتہائی زیادہ دباؤ کے نتیجے میں زمین کی سطح سے 140 تا 190 کلومیٹر نیچے بنتے ہیں اور اس کے بننے کا عرصہ ایک ارب سے تین اعشاریہ تین ارب سال تک ہوتا ہے۔ آتش فشاں کے پھٹنے کے وقت لاوے کی حرکت سے ہیرے سطح زمین کے قریب آ جا تے ہیں۔ کم کاربن رکھنے والے اور دیگر عام اقسام کے پتھروں کو اگر اس سے زیادہ درجہ حرارت اور عرصہ وقت دے دیا جائے تب بھی وہ ہیرے کی شکل اختیار نہیں کرپاتے کیونکہ ان کے اندر کاربن کی وہ مخصوص مقدار اور ڈھانچہ نہیں پایا جاتا جو ہیروں کو ان سے ممتاز کرتا ہے۔
نیک لوگ بھی ہیرے ہوتے ہیں۔ اور ان پر آزمائشات زیادہ آتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ اللہ کو بے حد پسند ہوتے ہیں اور اللہ کی محبت ان کو ہمہ وقت گھیرے میں لیے رکھتی ہے۔ وہ آزمائشات کی بھٹی سے، پریشانیوں کے دباؤ اور تکالیف کے درجہ حرارت سے گزر کر قرب الٰہی حاصل کر جاتے ہیں اور آرام و آسائشات میں مگن رہنے والے انہیں لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ایک دن اس پر بھی آزمائش آگئی۔ اس کے کہے ہوئے چندجملوں کو کچھ لوگوں نے قابل ِ اعتراض قرار دے دیا۔ ایک مخصوص فرقے کے لوگوں نے اس کے دو گھنٹے کے بیان کی ویڈیوز جن کو آٹھ مہینے پہلے ساری دنیا دیکھ اور سن چکی تھی، میں سے ایک منٹ کا ایک کلپ نکال کر سوشل میڈیا پر اپ لوٖڈ کیا۔ آپ یقین کریں میں نے وہ دو گھنٹے کا بیان پورا سنا بار بار سنا مجھے اس سے سنت نبوی، اعلیٰ اخلاق، غریبوں کی مدد، خوبصورت ازدواجی تعلقات، پاکستان کی محبت ، عاجزی و انکساری اور خدمتِ خلق جیسے موضوعات تو نظر آئے لیکن کہیں سے بھی وہ کچھ نظر نہ آیا جو اس کے حاسدین اور مخالفین چیخ چیخ کر دنیا کو بتلانا چاہ رہے تھے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ اگر مصیبت اور آزمائش میں فرق معلوم کرنا ہو تو یہ دیکھ لو کہ وہ شخص اس کے آنے کے بعد اللہ سے دور ہوگیا یا اس کے قریب۔اور وہ بھی اللہ کے مزید قریب ہو گیا۔ راتوں کو اس کے سجود بڑھ گئے اس کا قیام طویل ہو گیا۔ پھر اس نے ایک فیصلہ کیا۔ امت کو جوڑ کے رکھنے کا فیصلہ، فتنے کو ختم کر دینے کا فیصلہ اور اپنی عزت نفس اپنی انا اپنی ایگو سب کچھ پاؤں تلے روند دینے کا فیصلہ۔ اپنے بڑوں کے ہر فیصلے کو دل سے مان جانے کا فیصلہ۔ اطاعت اور قربانی کا فیصلہ۔
ہے کوچۂ جاناں کا سفر باعثِ تسکیں
چل کر تو ذرا دیکھئے اک گامِ محبت
ناکام بھی ہوجائے تو رہتا ہے زباں پر
گُمنام نہین ہوتا ہے ناکامِ محبت
اس نے آگے بڑھ کر اپنے ممکنہ گناہ کی معافی مانگ لی۔ اس نےمعافی مانگ لی ایک ایسے گناہ کی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک ایسی ناکردہ غلطی کا جس کاوہ خوابوں میں بھی مرتکب نہیں ہو سکتا تھا۔معافی کیا مانگی ایک بھیک تھی جو ایک بھکاری ہاتھ جوڑے مانگ رہا تھا۔ وہ بھیک معافی کی تو تھی ہی درحقیقت وہ بھیک امت کے اتحاد اور امت کے جوڑ کی بھیک تھی۔ وہ استدعا تو تھی ہی دراصل وہ استدعا فتنہ کے نہ پھیلانے کی ایک آنسوؤں بھری ہوئی درخواست تھی۔
وہ تحمل اور اعلی ظرفی کے اس مقام پر کھڑا ہو گیا جہاں مجھے اور آپ کو سر بہت اونچا کر کے دیکھنا پڑتا ہے۔ کیا میں اور آپ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی بلاوجہ بلا قصور اتنا بڑا الزام دے ڈالے جو ہم نے سرے سے کیا ہی نہ ہو اور ہم اگلے دن لاکھوں لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ، معافی مانگ کر مجرم بن کر کھڑے ہو جائیں۔ زمانہ تو اپنا کیا ہوا سامنے آجانے پر منہ سے ہوا نہیں نکالتا۔ لیکن وہ بھی کیا شخص تھا! پتھروں کو پھول اور کیچڑ کو شبنم کے قطرے سمجھ کر اپنے دامن میں بھرتا رہا۔۔ اس نے امت کو جوڑ لیا اور فتنہ کو واپس اسی الماری میں بند کر دیا جس کے دونوں پٹ کھول کے کھڑے مخالفین خیالوں ہی خیالوں میں قتل و غارت کا مزہ بھی لے چکے تھے۔
نیک لوگ چکی کی کیل کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر چکی کی کیل کو جس پر چکی کا مدار ہوتا ہے اسے کھینچ لیا جائے تو چکی چلنا رک جاتی ہے کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ امت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے والے بے علم بے عمل لوگوں نے اس کیل کو کھینچنے کی کوشش کی اور اپنے تئیں بڑے ہی کامیاب رہے۔
اس کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب تھی۔ اس کے شب و روز لوگوں کے سامنے تھے۔ ایک بہترین مصنف، خوبصورت موضوعات عمدہ ایڈیٹنگ و ڈیزائننگ اور کئی سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ کر آپ کے سامنے لے کر آئے اور آپ کہیں کہ یہ جو آپ نے فلاں صفحے پر اس ایک جملے میں ٹائپنگ کی جو غلطی کی ہے اس کی بنا پر آپ کی پوری کتاب رد کی جاتی ہے۔ برائے مہربانی دوبارہ کوئی کتاب لکھنے کی کوشش نہ کریں بس آپ تو ہیں ہی ناکارہ بے کار نالائق اور فضول ترین مصنف۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اس کا سترہ سالہ سفر پورا کا پورا سنت کا چلتا پھرتا نمونہ تھا۔ اس کی زندگی احکامِ اسلام پر عمل کی عمدہ مثال تھی اور چند  لوگوں نے اسی کے چند الفاظ کو لے کر اسے دنیا کا سب سے گندہ لقب دے ڈالا۔ اللہ اکبر! کیا اس نے کبھی سوچا بھی ہو گا کہ وہ جو بیان جو باتیں اتنی محبت اتنے احترام اور اتنے خلوص کے ساتھ کر رہا ہے کچھ لوگ اسے انہی باتوں کی وجہ سے ’گستاخ رسول‘ قرار دیں گے؟ کچھ لوگ دنیا کے سامنے اسی کے الفاظ کی اتنی غلیظ تعبیر پیش کریں گے۔ کہاں محبت رسول، احترام اماں عائشہ جیسے جذبات سے گندھا ایک خوبصورت بیان اور کہاں یہ غلیظ القاب۔ کہاں سترہ سال سے تبلیغ کے میدان میں برسر پیکار بے شمار قربانیاں دینے والا ایک عظیم شخص!!! کہاں گستاخیٔ رسول جیسا غلیظ جرم۔۔۔۔۔
پھر اس کے حاسدین کو مخالفت کرنا بھی تو نہ آئی۔ مولانا رومی کہتے ہیں کہ بلند آواز کی بجائے دلیل کی مضبوطی کام آتی ہے کیونکہ یہ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج نہیں بلکہ متواتر بارش کے نرم قطرے ہی ہیں جو پھولوں کو اگاتے ہیں۔ ماں اور بہن کی گالیاں دے کر اس کے حاسدین نے اپنی کم علمی، بغض اور حسد کا ببانگ دہل اعلان کر دیا۔ جو ’’آنرنگ آر مدرز‘‘ (ہماری ماؤں کی تکریم و تعظیم) کے نام سے پوری دنیا میں کمپین چلا رہا ہو، جو مسلم اور غیر مسلم کا فرق کیے بغیر ماں کے رشتے کو ایک نہایت محبت و احترام بھرا رشتہ جانتا ہو، کیا اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پوری امتِ مسلمہ کی ماں، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا تصور بھی کرے؟؟ لیکن جب دل کی آنکھ پر تعصب اور کینےکا پردہ پڑ جائے تو سب سے پہلے عقل کا قتل ہوتا ہے۔ تنگ دلی اور بد تہذیبی اپنے رنگ جمانے لگتی ہے۔
بلند آواز اور نفرت سے بھر پور لہجوں میں اپنے موقف کا اعلان، اوٹ پٹانگ دلائل سے بھری ہوئی ویڈیوز، جذباتی نعروں سے سامنے بیٹھے گنتی کے چند لوگوں کو مشتعل کرنا۔۔۔ کمنٹس اور میسج کے نام پر سوشل میڈیا پر اپنے اپنے دماغوں کی گندگی الٹ دینا۔۔۔ کیا کچھ نہ تھا جو اس کے کینہ پرور مخالفین کر رہے تھے۔
اور اس سب کے جواب میں وہ، اعلی ظرفی اور کشادہ دلی کا ایک سمندر تھا۔ اس نے مڑ کر بھی نہیں کہا کہ میری مری ہوئی ماں کو گالی دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ارے ماں تو معزز ، محترم و مکرم ہوتی ہے کافر کی ہو یا مسلمان کی۔ یہ کیسے عاشق رسول تھے جو عشقِ اماں عائشہ کے نام پر ایک بے گناہ شخص کی ماں کو گالی دے رہے تھے؟ یہ کیسی محبت رسول تھی یہ کیسی تکریم اماں عائشہ تھی جس کے دعوے داروں نے ایک بے قصور شخص کو ماں بہن اور بیوی کی گالیاں دے ڈالیں؟؟
اوروبورس‘ ایک یونانی علامت ہے۔ یہ ایک ایسے سانپ کی شکل ہے جو اپنی دم خود کھارہا ہوتا ہے۔ یعنی یہ اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرنا چاہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب اوروبورس بن چکے ہیں۔ ہم سب جنید جمشید جیسے عظیم لوگوں کو کم علمی اور نفرت جیسے ہتھیاروں سے مار ڈالتے ہیں۔ ہم اسی درخت کو کاٹ ڈالتے ہیں جس نے ہمیں برسوں پهل سایہ اور ٹھنڈی میٹھی چھاؤں سے نوازا ہوتا ہے۔ ہم اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے محسنوں پر کیچڑ اچھال دیتے ہیں۔ ہم ایک ایسے بندے پر بغیر سوچے سمجھے گستاخ رسول کا لقب لگا دیتے ہیں جس کی سترہ سالہ زندگی جس کی قربانیاں جس کی دین کے لیے شب و روز کی محنتیں سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
جس گلستان کا مالی خود اپنے ہاتھوں میں کلہاڑا لے کر برباد کرنے پر تل جائے، اس چمن کو کسی آندھی اور کسی طوفان کی ضرورت نہیں رہتی۔ مالی کی لاعلمی ، نادانی اور ناسمجھی گلستان کے لیے تیز رفتار آندھی سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
کسی دشمن کے بارے میں میں نے اب تک نہیں سوچا
ہمیشہ دوست ہی کے ہاتھ پہنچے ہیں گریباں تک!"