میرے سوہنے موہنے
بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے بچےکی جس کو بال کٹوا نا بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کا
نام منا تھا۔ منے میاں کو جب بھی ابا جان نائی انکل کے پاس لے جانے
لگتے۔ منے میاں شور مچادیتے۔
’’نہیں نہیں! میں بال نہیں کٹواؤں گا۔
مجھے قینچی سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘
سب نے منے میاں
بہت سمجھایا لیکن منے میاں کے دل میں قینچی سے ڈر بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ ڈر نہ نکل
سکا۔ انہیں لگتا تھا کہ قینچی ان کے بالوں کے ساتھ ساتھ ان کے کان اور ناک بھی کاٹ
دے گی۔ پھر وہ خواب میں اپنے آپ کو دونوں کانوں کے بغیر دیکھتے کبھی دیکھتے کہ ان
کی ناک ہی سرے سے کٹ چکی ہے۔
پیارے بچو! آخر
وہ دن آگیا جب منے میاں کو نائی انکل کے پاس جانا پڑ ہی گیا۔
ہو ا یہ کہ اس دن
جب منے میاں ابا کی انگلی پکڑے بازار سے واپس آرہے تھے تو ابا کی نظر نائی کی
دکان پر پڑی۔ دکان خالی تھی اور نائی فارغ بیٹھا ہوا تھا۔ ابا جان نے سوچا چلو منے
میاں کے بال ہی کٹوا لیتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا!
ایک ہڑبڑ سی مچ
گئی۔
’’نہیں نہیں! ابا
جان !میں بال نہیں کٹواؤں گا۔ میرے کان کٹ جائیں گے نہیں نہیں نہیں!‘‘
منے میاں ابا کے
ہاتھوں سے نکل نکل کر بھاگنے کی کوشش میں تھے۔ ادھر ابا کی پوری کوشش تھی کہ منے
میاں کم از کم نائی کی دکان کے سامنے تو پہنچ جائیں ۔ باقی کام نائی جانے !
اور ہوا بھی یہی!
وہ منے میاں کو مناتے مناتے نائی کی دکان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ نائی نے منے میاں
کا رونا دھونا سنا تو دکان سے باہر آگیا اور کہنے لگا۔
’’ارے منے میاں!
کس نے کہا ہم بال کاٹتے ہیں۔ بس آپ یہاں آئیے اور اس والی کرسی پر بیٹھ جائیں۔
ہم آپ کو رنگ برنگی تصویروں والی ایک بہت پیاری کتاب دکھاتے ہیں ۔ آج ہی
نئی لائے ہیں۔ آجائیں!‘‘
یہ کہہ کر نائی
انکل نے منے میاں کو گود میں اٹھا لیا اور ایک اونچی سی کرسی پر بٹھا لیا۔
پھر ابا جان جلدی
سے منے میاں کے لیے ٹافیاں لے آئے ۔ انہوں نے دیکھا منے میاں کتاب میں ہر تصویر
کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر نائی انکل نے کہا۔
’’یہ دیکھیں!
بیٹا! یہ ہے ببر شیر! اس کے بال دیکھیں کتنے بڑے بڑے اور سنہری ہیں ۔ واہ واہ!
اچھا! اب دیکھیں
یہ آگئی ببر شیر کی خالہ !‘‘
’’بلی مانو!‘‘ منے
میاں نے نعرہ مارا اور غور سے بلی کی تصویر کو دیکھا۔
’’دیکھاآپ نے بلی
مانو کے بال بھی بڑے ہیں ۔ یہ بھی بال نہیں کٹواتی کیونکہ جنگل میں کوئی نائی نہیں
ہے ۔‘‘
پھر نائی انکل نے
ایک بھالو کی تصویر نکالی اور کہا۔
’’ارے واہ! لگتا
ہے بھالو بھی بال نہیں کٹواتا۔ دیکھیں تو منے میاں! اس کے بال کتنے
بڑے بڑے ہیں ناں! ‘‘
’’ہمم!‘‘ منے میاں
نے آہستہ سے کہا ۔ وہ کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر وہ بولے۔
’’انکل! جانور بال
کیوں نہیں کٹواتے؟‘‘
’’اس لیے بیٹا
کیونکہ ان کے لمبے بال ان کو سردی سے بچاتے ہیں۔ اگر ببر شیریا بھالو کے اوپر بال
نہ ہوں تو وہ کتنا عجیب لگے؟‘‘
’’جی انکل! ببر
شیر بالکل اچھا نہ لگے اور بلی مانو تو گنجی سی لگنے لگے!‘‘ منے میاں یہ کہتے ہوئے
کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
پھر نائی انکل نے
کہا۔’’ہاں منے میاں ! یہ سب جانور ہیں۔ اور اللہ پاک نے ہمیں انسان
بنایا ہے۔کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی۔ سب لڑکے بال کٹواتے ہیں۔ اور آپ کے بال تو
بہت بڑے ہو گئے ہیں۔ اب بھی اگر آپ بال نہیں کٹوائیں گے تو آپ اپنی
آپی کی طرح لگنے لگیں گے!اوہ! پھرتو آپ کے بالوں کی بھی دو پونیاں
بنانی پڑیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نائی انکل ہنس پڑے۔
منے میاں
سوچنے لگے۔ ہائیں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ صبح صبح امی آپی کی دو پونیاں
بناتی ہیں تو آپی درد کے مارے کتنے برے برے منہ بناتی ہیں۔اوہ!!
’’نہیں نہیں انکل
آپ میرے بال کاٹ دیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر منے میاں سیدھے ہو کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ نائی
انکل نے انہیں ایک کپڑا اوڑھایاجس کو منے میاں نے اوپر کر کے کانوں تک کر لیا۔
تھوڑی دیر بعد جب
منے میاں نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو انہیں اپنا آپ بہت اچھا لگا۔ پھر
انہوں نے غور سے دیکھ کر پھر ہاتھ لگا لگا کر اپنے دونوں کانوں کو محسوس کیا۔ وہ
بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے کان ابھی تک سلامت تھے۔نائی انکل کی قینچی نے انہیں
نہیں کاٹا تھا۔ ویسے بھی اگر نائی انکل کی قینچی سے کان کٹ جاتے ہوتے تو ابا جان
کے کان کیسے سلامت ہوتے ابھی تک!