قوم کی معصوم بیٹی زینب کی شہادت (سانحہ قصور)



یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے ۔ یہاں کوئی بھی واقعہ اچانک رونما نہیں ہو سکتا ۔ اس کے پیچھے اسباب و عوامل کی ایک پوری Chain کارفرما ہوتی ہے۔ حالیہ سانحۂ قصور روپذیر کیوں ہوا۔ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کوئی بھی انسان اس درندگی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ وہ کیا عوامل ہوتےہیں جوانسان کو ایک چھ سال کی بچی پر ہوس کی نگاہ ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا یہ مجرم پیدائشی مجرم تھے؟ ہرگز نہیں! اس معاشرے میں بہت سارے عوامل بھی اس سانحے کا سبب بنے ہیں۔
حالیہ سانحے پر جتنی بھی پوسٹس میری نظر سے گزریں، سب میں ایک شکوہ اور ایک شکایت مشترک تھی۔ شکوہ یہ ہے ہم بحیثیت قوم اخلاقی لحاظ سے گر چکے ہیں اور شکایت یہ کہ اربابِ اختیارو اقتدار نے ضمیر بیچ دیا اور لمبی تان کر سو رہے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ ہمیں کسی سے شکوہ و شکایت کرنے کی بجائے اپنے آپ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ میں اور آپ ایساکیا کر سکتےہیں کہ آئندہ ایسا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہو۔

1. ٹی وی کے ان سب پروگراموں کا بائیکاٹ کردینا چاہیے جو فحش یا ہیجان خیز سین دکھاتے ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل ڈراموں میں اکثر خواتین اور بچیوں کا کیا لباس ہوتا ہے۔ تقریباً ہر اشتہار میں مخلوط ناچ گانا دکھایا جاتاہے۔ ایک مشہور مارننگ شو میں تو کم سن بچیوں کا رقص دکھایا جاتا ہے اور اس پر شاباشی بھی دی جاتی ہے۔ پرنٹ میڈیا پر آئیں تو ڈائجسٹ میں ہر دوسری کہانی لوسٹوری ہوتی ہے۔ کیا یہ کہانیاں نوجوان اذہان پر کوئی مثبت اثر کرتی ہیں؟ اخباروں کے فل سکیپ اشتہار جس میں ماڈلز کا ایک ایک عضو واضح ہوتا ہے اس کا کیا مقصد ہوتا ہے؟
یہ سب کیا ہے؟ کیا ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں؟ اگر دیکھ رہے ہیں تو خاموش کیوں ہیں۔ بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے ۔ پوری بیس کروڑ عوام پیمرا کو شکایات درج کروانا شروع کرے اور جیسے ہی اس قسم کے پروگرام ، ڈرامہ یا اشتہار آن ائیر آئے اٹھیں اور ٹی وی آف کر دیں۔ آپ نہیں دیکھیں گے ، میں نہیں دیکھوں گی تو ان کی Viewership کم ہو جائے گی اور یہ اپنے آپ کو درست کرنے پر مجبور ہو ں گے۔ کیا ہم ننھی زینب کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے؟
ابھی اور اسی وقت یہاں جا کر اپنی کمپلین درج کروائیں۔
2. انٹرنیٹ پر فحش مواد تک باآسانی رسائی کو ناممکن بنا دیں۔ یہ میں اور آپ کر سکتےہیں۔ اس کے لے حکومتی سطح پرEthical Fliters لگائے جانے چاہیں۔ ان فلٹرز کو لگوانے کے لیے پوری عوام ان نمبرز پر کالز اور میسج کرے اور ای میلز بھیجے۔
ٹول فری نمبر
080055055
تمام موبائل یوزرز کے لیے فری میسج
8866
ای میل ایڈریس
complaint@pta.gov.pk
3. گانوں اور موویز کے کاروبار کی دل شکنی کریں۔ تمام اہل محلہ مل ایسا کاروبار کرنے والے شخص کو سمجھائیں اور اس کے لیے متبادل کاروبار کا بندوبست کریں۔ اسی طرح نیٹ کیفے اور وہ چھوٹی چھوٹی دکانیں جو ہر محلے میں کھلی ہوتی ہیں اور چند پیسوں کے عوض ہر قسم کی ویڈیو آپ کے موبائل میں ٹرانسفر کر دیتی ہیں، ایسی دکانوں کو فی الفور بند کیا جائے۔ ان لوگوں کے لیے متبادل کاروبار کا بندوبست کیا جانا چاہیے ۔
4. کیبل آپریٹرز کو پابند کریں کہ وہ ہیجان خیز پروگرام خصوصاً بھارتی ڈرامے اور فلمیں دکھانا بند کریں۔ اس کے لیے اس فارم پر کلک کریں اور زیادہ سے زیادہ شکایات درج کروائیں۔
5. علمائے کرام اور مساجد کےآئمہ حضرات زیادہ سے زیادہ دین کے پیغام کو عام کریں۔پاکیزہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے، بد نظری کے نقصانات، عبادت کے اجر اور ثمرات ہر روز عوام کی نظروں کے سامنے سے گزرنے چاہیں۔ چاہے یہ کام ٹی وی کے ذریعے ہو یا سوشل میڈیا کے ذریعے، اخبارات اور پمفلٹ کے ذریعے ہو یا موبائل میسجز کے ذریعے۔برائی کی ترغیب تو عوام کو ہر روز ملتی ہے لیکن نیک زندگی کی ترغیب عنقا ہے۔ اسے بھی پھیلنا چاہیے ۔ دینی لٹریچر ہر ہر گھر میں جانا چاہیے۔ آج کل ہر ایک شخص کے پاس موبائل ہے۔ چاہے وہ ٹچ سکرین ہو یا بٹن والا۔ تو اس کو روز ایک یا دو میسج مل جایا کریں آیت حدیث یا نیک بات پر مبنی تو کتنا اچھا ہو۔ یہ کام چھوٹے پیمانے پر تو کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ کے پاس کچھ سرمایہ ہو بڑے پیمانے پر بھی ممکن بلکہ بہترہے۔ جیسے ہر روز ہمیں زونگ ، یو فون اور ٹیلی نار کے پیغام ملتے ہیں جن میں مختلف پیکیجز کی ترغیب دی جاتی ہے اسی طرح کے میسج روز کے حساب سے آیت یا حدیث یا نیک اقوال پر مبنی بھی بنائے جا سکتے ہیں اور کچھ ہی کلک کے ذریعے پورے ملک کی عوام کو مل سکتے ہیں۔ ہر مسجد کے امام صاحب ہر نماز یا کسی ایک نماز کے بعد پانچ منٹ کا درس دیں۔ ایک حدیث یا ایک آیت سنائیں اور اس کی تھوڑی سی تشریح۔ پھر جمعہ کے خطبے کو بھی موثر بنائیں ۔
6. مجرموں کو فی الفور سزائیں دینے کی آواز ہر جگہ بلند کی جانی چاہیے۔ پولیس کسی قسم کا دباؤاپنے اوپر نہ لیتے ہوئے مجرم کو پکڑے اور سرعام سزا دے تاکہ آئندہ کسی کو کم سن بچیوں پر ہوس کی نگا ہ ڈالنے کی جرات نہ ہو۔ پانچ دن سے زینب لاپتہ تھی۔ اس کے والدین حرمین کی زیارت پر تھے۔ کہاں لے گیا مجرم زینب کو۔ کیا کسی دوسرے ملک لے گیا تھا ؟ اگر زینب کو اپنی بچی سمجھاجاتا تو وہ مل جاتی۔ مفتی عبدالرحمٰن مدنی کہتے ہیں۔ ’’تربیت کی ضرورت اس کے لے ضروری ہے جو قوم کو (خبر اور انفارمیشن کے نام پر)کچھ بھی دکھا رہے ہیں اور تربیت اس کی بھی ضروری ہے جس کوپولیس کی وردی اور طاقت مل گئی۔ ‘‘ یہ کیا کہ ایک بچی زینب کی شہادت ہوئی تو ساتھ دو جنازے اور اٹھ گئے؟ پولیس نے آخر کس بنیاد پر احتجاج کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلائیں۔یہ لوگ انصاف کے حصول کے لیے نکلے تھے۔ ان کی بیٹی ان کی بہن جنسی درندگی اور بہیمانہ قتل کا شکار ہوئی تھی ۔ ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ پولیس تو قوم کی محافظ ہوتی ہے۔ آپ کے اسلحہ قوم کی حفاظت کے لیے ہے۔ کیسی بے باکی سے آپ نے معصوم عوام پر گولی چلادی۔ اگر آپ کو طاقت مل گئی ہے تو اس کااستعمال لوگوں کے تحفظ کے لیے کریں ۔ اس کا استعمال لوگوں کو فوری انصاف دلانے کے لیے کریں۔ اس کا استعمال لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کریں۔
7. تیز ترین انصاف کامطالبہ ہر پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے۔ میں نے زینب کی والدہ کو دیکھا۔ ان سے پتہ نہیں کیا کیا سوالات کیے جارہے تھے لیکن اس دکھیار ی ماں کے منہ سے صرف یہی الفاظ نکل رہے تھے۔ ’’انصاف انصاف۔۔ مجھے انصاف چاہیے۔‘‘کیا ملک کی عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جج یہ دکھ بھری آہیں سن رہے ہیں؟ کیا وکیل حضرات اس پر بھی کوئی احتجاج کریں گے کہ زینب کی ماں کو انصاف کب اور کیسے ملے گا۔ کیا قانون اسی وقت حرکت میں آئے گا جب احتجاج کرنے والے سڑکوں پر آجائیں ؟
8. مجرم کوگرفتار کرنے کے سزادیں لیکن اس سے پہلے دو گھنٹے کے لیے نفسیاتی ماہرین کے پاس بٹھایا جائے ۔ وہ مجرم سے پوچھیں کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جو ان کو اس درندگی پر لے آئے؟ وہ کیا سبب تھا ؟یہ مجرم کیا پیدائشی مجرم تھے؟ کیا انہوں نے ماں کی کوکھ سے اس جنسی درندگی کی تربیت لی تھی۔ نہیں! ہر گز نہیں! یہ سب کیسے ہوا؟ کہاں سے یہ سوچ یہ ہوس ان کے اندر در آئی۔ کیا انہوں نے کوئی ویڈیو دیکھی تھی؟ کیا غلیظ مواد پھیلانے والے مراکز تک بآسانی رسائی نے انہیں یہ دن دکھایا؟ اور پھر جس محرک کا پتہ لگے، اس کو فوری طور پر بند ہو نا چاہیے ۔ چاہے وہ کوئی ڈرامہ یا مووی ہو، چاہے وہ فحش اشتہارات ہوں، چاہے وہ غلیظ مواد بیچنے والا نیٹ کیفے ہو، چاہے وہ ویڈیوز اور سی ڈیز بیچنے والی دکان ہو، فوری طور پر ایسے سب عوامل کے خلاف بلا کسی بھی امتیا ز کے کاروائی کی جائے۔
9۔ تنگ، چست اور نسوانی حسن کو واضح کرنے والے لباس یکسر مسترد اور نظر انداز کر دیں۔ ایسے لباس کے ڈیزائنرز سے لے ان کو تیار کرنے والی فیکٹریاں اور دکانداروں تک سب کا بائیکاٹ کیا جائے اور انہیں متباد کاروبار کے مواقع بھی دیے جائیں۔ میں اور آپ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لیے اس قسم کے لباس آج سے خریدنا بند کر دیں۔ جب ایسے کاروبار کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ خود بخود عوام کی ڈیمانڈ کو آئیندہ کے لیے مدنظر رکھیں گے۔
9. ہمارے گھروں میں بھی زینب جیسی بچیاں ہیں۔ اگر ہم ان کو ایک اور زینب نہیں بنانا چاہتے تو ہمیں اپنے بیٹوں کی تربیت کرنی ہوگی۔ جس شخص نے اس جنسی درندگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی کسی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا ، خلاء سے نہیں اترا تھا۔ اپنے بیٹوں کی نیک خطور پر تربیت کریں۔ جب وہ بڑے ہو جائیں تو انہیں بدنگاہی کے نقصانات بتائیں ۔ان کا اللہ سے تعلق بنائیں ۔ قرآن سے تعلق مضبوط ہو ان کا۔ ہر بچے کو قرآن ترجمے کے ساتھ آنا چاہیے۔ نوجوانوں کو پاکدامنی اور پاکیزہ زندگی پر اجر و ثواب بتائیں۔ سیرت رسول ﷺ کی کتب ہر گھر میں ہونی چاہیں۔ ہر گھر میں نوجوان لڑکے مہینے میں تین دن تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائیں۔ پانچ وقت کی نماز مسجد کے ماحول میں پڑھی جائے۔ جمعہ کا خطبہ سنا جائے۔اٹھتے بیٹھتے یہ دعا سب والدین کو پڑھنی چاہیے۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اے ہمارے رب! ہماری بیویوں (یا شوہر) کو اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیں اور ہمیں متقین کا سردار بنا دیں۔(آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درس قرآن ڈاٹ کام کی پوری ٹیم ننھی زینب کی موت کے دکھ میں ان کے والدین کے ساتھ ہے۔ ہم ان کی پوری فیملی کے ساتھ ان کے اس حد درجہ غم اور دکھ کے موقع پر اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپ کی پیاری بیٹی زینب کو جنت الفردوس کے پھولوں بھرے باغ میں گھر عطا کرے اور آپ کو اس ناگہانی آفت پر صبر عظیم عطا کرے۔ اللہ آپ کے دلوں کو سکون بخشے آپ کے ہر ہر آنسو پر پہاڑوں جیسا اجر عطا فرمائے۔ آمین