امید کی چابی


’’دیکھو اماں ! میں نے تمھیں کئی بار بتایا ہے تم اس تار سے آگے نہیں جا سکتی۔ ‘‘ میں نے گیٹ پر پڑے ہوئے بڑے سے قفل کو اچھی طرح چیک کرتے ہوئے کہا۔
میں اس وقت تپتی دھوپ میں اس خاردار تار کے بیچ میں بنے ہوئے گیٹ پر چوکیداری کر رہا تھا۔ یہ سرحدی علاقہ ہے۔ اس سے آگے مقبوضہ فلسطین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ ماہ پہلے ہی میری پوسٹنگ بطور نگران گارڈ کے یہاں ہوئی ہے ۔ ہمیں کسی کو اس گیٹ کے پار جانے  کی اجازت نہیں دینی  ہوتی الا یہ کہ جس کے بارے میں ہمیں خاص آرڈر ہو۔جیسے تعمیراتی سامان کے ٹرک وغیرہ۔
  گیٹ کے اس پار مقبوضہ فلسطین کا وہ حصہ شروع ہو جاتا ہے جہاں اسرائیل نئے آنے والے یہودیوں کے لیے بستیاں بنا رہا ہے۔ 
’’لیکن میرے پاس چابی ہے۔ بس تم مجھے جانے دو۔‘‘  سفید برف جیسے بالوں والی  یہ اماں ہر روز یہاں آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔
’’چابی؟ کیسی چابی؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔


’’امید کی چابی! چلو اب یہ گیٹ کھولو۔‘‘ اماں مصر تھی۔
’’اف!!! ایک تو گرمی اوپر سے یہ پاگل بڑھیا!‘‘ میرا ساتھی بڑبڑایا۔
’’اماں! تم جاؤ۔ اگر کسی نے ہمیں تم سے بات کرتے دیکھ لیا تو تمھارے ساتھ ہماری شامت بھی آئے گی۔ یہ دروازہ کبھی نہیں کھلے گا۔ جاؤ۔‘‘ میں نے ذرا سختی سے کہا  تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر ایک افسردہ نظر اس نے بند گیٹ پر ڈالی اور چلی گئی۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ ہر صبح وہ آتی۔ ہمارے لیے کبھی کوئی شربت کبھی لبنان کا مشہور حلوہ لاتی اور پھر اصرار کرتی۔ ’’یہ دروازہ کھولو۔ میں نے فلسطین جانا ہے۔‘‘
ہم کبھی تو اسے پیار سے سمجھاتے کبھی ہمیں سختی کرنا پڑتی۔ لیکن بڑھیا لگن کی پکی تھی۔ اور ہماری کوئی بات سمجھنے کو تیار نہ تھی۔
’’دیکھو! میرے پاس چابی ہے۔ میرے گھر کی چابی۔‘‘ ہر روز کی طرح آج بھی بوڑھی اماں نے اپنے الفاظ دہرائے۔
’’دکھاؤ کہاں ہے چابی!‘‘ تنگ آکر  جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔
وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔ پھر وہ خلافِ معمول خاموشی سے واپس چلی گئی۔
’’واہ!  یار تم نے کمال کر دیا۔ شکر ہے آج اس نے زیادہ دماغ نہیں کھایا۔‘‘ میرے دوست نے مجھے کندھے پر ہاتھ مار شاباش دی۔
لیکن میں  اداس سا ہو گیا تھا۔ شاید مجھے بوڑھی عورت سے باتیں کرنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ آج جب وہ اچانک واپس چلی گئی تو میں بھی چپ چاپ بنچ پر آکر بیٹھ گیا اور دیر تک اس کی اچانک خاموشی کی وجہ سوچتا رہا۔
اگلے دن جب وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک بہت پرانے زمانے کا بنا ہوا چھوٹا سا صندوق تھا جس کا اصلی رنگ جگہ جگہ سے زنگ نے کھا لیا تھا۔
ہمیشہ کی طرح آج اس نے ’’یہ دروازہ کھو ل دو ‘‘ نہیں کہا۔ بلکہ خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئی۔ پھر صندوق کھولنے لگی۔
میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا۔ وہ بڑھیاکو تمسخرانہ نظروں سے گھور رہا تھا۔ پھر وہ کہنے لگا۔
’’اماں! تم تو بہت امیر نکلی۔ کوئی خزانہ بھی رکھا ہوا ہے تم نے۔‘‘ یہ کہ کر وہ ہنسنے لگا۔
تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں نے صندوق کھول لیا۔ میں نے دیکھا اس میں فلسطین کا جھنڈا  بڑی احتیاط سے رکھا ہوا تھا۔  پھر اس نے جھنڈے کے نیچے سے ایک بڑی سی سرمئی رنگ کی چابی نکال لی۔
’’یہ دیکھو! یہ میرے آبائی  گھر کی چابی ہے جو فلسطین میں ہے  ۔ اس فلسطین میں جہاں سے تم لوگوں نے ہمیں باہر نکال دیا ہے۔ ‘‘ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور وہ چابی ہماری آنکھوں کے سامنے لہرائی۔
’’یہ چابی میرے لیے امید کی چابی ہے۔ اور بے شک تم دروازہ نہ کھولو۔ ایک دن ہم خود کھول لیں گے۔کیونکہ  تم جانتے نہیں ،  ہم اصل فلسطینی ہیں اور چابی ہمارے پاس ہے۔ ‘‘
میں اور میرا دوست چپ کھڑے تھے۔ ہمارے پاس بولنے کو رہا ہی کیا تھا۔ بڑھیا نے اپنے گرد آلود پھٹے ہوئی چادر سے چابی صاف کی، صندوق میں رکھی اور چلی گئی۔میں نے دیکھا۔ اس کے قدم تھکے ہوئے لیکن پر عزم معلوم ہوتے تھے۔
پھر وہ کبھی نہ آئی۔شاید اپنی چابی لیے ظالم دنیا کا شکوہ کرنے اپنے خدا کے پاس چلی گئی ہو ۔
 میں آج بھی روز گیٹ کا قفل اچھی طرح چیک کرتا ہوں اور میرے کانوں میں اس کااس کا آخری جملہ گونجتا ہے۔
’’ہم اصل فلسطینی ہیں اور چابی ہمارے پاس ہے۔‘‘