جب سے سعید باورچی
کی شہرت کم ہوئی تھی، اس کے مالی حالات کافی مخدوش تھے۔ ایک زمانہ تھا اس کے پکے
ہوئے کھانوں کا طوطی بولتا تھا۔ کیا امیر کی غریب سبھی اس کے ہاتھ کے ذائقے کے
معترف تھے۔ بڑے بڑے سیٹھ اس کو اپنے ہاں ہونے والی شادیوں میں بلواتے ۔ اب سعیدباورچی اپنی عمر کے آخری دن گزار رہا تھا۔ اس کے
ہاتھوں میں اتنی جان نہ رہی تھی کہ وہ حلیم کی گرم گرم دیگ میں زور زور سے گھوٹالہ
چلا سکتے یاکھیر کے تھالوں کے لیے کئی کئی سیر کھویا بناپاتا۔ویسے بھی اکثر شادیاں
شادی ہال میں ہونے لگی تھیں سوایسے میں سعیدباورچی کو کون پوچھتا۔
اسے کبھی کبھار محلے میں ہونے والی چھوٹی موٹی تقریب کے لیے بلوالیا جاتا تھا۔ آج بھی جب وہ بسم
اللہ کی ایک تقریب سے واپس آیا تو کافی
اداس تھا۔
’’کیا زمانہ آگیا ہے۔ سنتی ہو گلشن بی بی!‘‘ یہ کہہ کر اس
نے اپنی بیوی کو مخاطب کیا جو سلائی مشین پر جھکی ہوئی تھی۔ ’’ایک ملازم کو میں نے کہہ دیا کہ بھئی الائچیاں
کڑکڑاتے گھی میں ڈالنی ہیں تو کہنے لگا۔ بزرگو! سب کچھ اکھٹا ہی ڈال دیا ہے میں نے۔بس تم چمچہ ہلاتے رہنا ۔ میں ذرا واٹس ایپ چیک کر لوں ۔بھئی اس موے
موبائل نے تو ہماری مت مار دی ہے۔ ‘‘
گلشن نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خاموشی سے کپڑے سیتی رہی۔
جانتی تھی کہ سعید میاں تھوڑے غصے میں ہیں۔ کچھ کہہ دیا تو تنکے کا جھاڑو بنا کر
چھوڑیں گے۔
ایک دن سعید کو
سیٹھ فاخر کا بلاوا آیا۔ جب وہ ان کی کوٹھی پر پہنچاتو سیٹھ صاحب باہر گھاس پر ہی
کرسی ڈالے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سعید کو بھی بیٹھنے کا کہا اور مژدہ سنایا۔
’’میاں سعید! میں چاہتا ہوں آپ ہمارے ہاں باقاعدہ ملازمت
کر لیں۔ بس دو تین خانساما ں ہیں ان کی
نگرانی کرنی ہوگی۔‘‘
سعید باورچی جی ہی جی میں خوش تو ہوا لیکن خوددار آدمی تھا۔سو عزت نفس پر آنچ نہ
آنے دی اور سو چ کر بتاؤں گا کہہ کر گھر
چلے آیا۔
گلشن کو جب معلوم ہوا تو اس کی خوشی اور .اطمینان کی کوئی
حد نہ رہی۔عرصہ گرزر گیا تھا سفید پوشی کی زندگی گزارتے ہوئے، سو اب آمدن کا سنا
تو نئے منصوبے ذہن میں آنے لگے۔
کچھ دنوں بعد جب
سعید باورچی نوکری پر جانے لگا تو گلشن
کہنے لگی۔
’’کیوں نہ اسی خوشی میں محلے والوں کی دعوت کر لی جائے؟‘‘ اصل
مقصد تو گلشن بی کا ، محلے والوں کو یہ بتانا تھا کہ سعیدباورچی اب کی بار جس
کوٹھی میں ملازم ہو ئے ہیں وہ کتنی بڑی اور وسیع ہے اور یہ کہ سیٹھ صاحب نے بقلم
خود بلاوا بھیجا تھا۔
لیکن سعید باورچی سوچ میں پڑ گیا۔
’’خیال تو اچھا ہے پر بلائیں کس کو۔‘‘
اکثر محلے والوں
اور تقریباً تمام رشتہ داروں نے ان کے
مالی حالات بدل جانے پر یوں آنکھیں پھیر لی تھیں جیسے جانتے بھی نہ ہو۔
’’ٹھیک ہے ۔ دعوت کر لیتے ہیں لیکن بس یہ ساتھ والا ماجد
دکاندار، فضل چوکیدار اور میرا ایک دوست سکندر حلوائی آجائے گا۔ اور کسی کو بلانے
کی ضرورت نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گیا لیکن گلشن بی دیر تک مغموم
رہیں کہ محلے والوں میں شیخی بگھارنے کا اہم موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
خیر! ابھی تو پہلی تنخواہ بھی ہاتھ نہ آئی تھی سو کیا
پکایا جائے کیا نہیں۔سودے کے کنستر میں دال ہی بچی پڑی تھی ۔
ہفتے کی رات دونوں
میاں بیوی سوچتے رہے۔ صبح ہی صبح سعید میاں نے دیگچہ چڑھایا اورمسور کی دال پکنے کے لیے رکھ دی۔ گلشن بی کو پتہ لگا تو کہنے
لگیں۔
’’اے سعید میاں! مہمانوں کو دال کھلاؤ گے تو کیا عزت رہ
جائے گی؟ میں کہتی ہوں قصائی سے ادھار کر لو اور اچھی قسم کا گوشت لے آؤ۔‘‘
’’گلشن! تم دیکھتی جاؤ میری پکی ہوئی دال بھی کسی مرغ مسلم
سے کم نہیں ہے۔تینوں مہمان انگلیاں چاٹتے جائیں گے۔ ‘‘
دوپہر سے ذرا پہلے دستک ہوئی ۔ گلشن بی نے آنچل ٹھیک سے
اوڑھتے ہوئے دروازہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہیں کہ بچوں کی ایک فوج ظفر موج گھر میں
داخل ہو رہی ہے۔ آخری بچے کے بعد ماجد دکاندار اور اس کی بیوی نمودار ہوئی ۔
’’بہت مبارک ہو بہن! معاف کرنا تھوڑا جلدی آجاتے لیکن بچوں
کی تیاری میں دیر ہو گئی۔‘‘
گلشن بی حیرت کے جھٹکے سے باہر آئیں اور بولیں۔’’کوئی بات
نہیں۔ اندر تشریف لائیے۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد فضل چوکیدار اور سکندر حلوائی بھی اپنے اپنے
اہل و عیال کے ساتھ آچکے تھے۔
’’سعید میاں! یہ کیا کیا تم نے۔ تم نے کہا تھا تین بندے
آئیں گے لیکن یہ تو فوج در فوج ہمارے گھر میں داخل ہوئی پڑی ہے۔اوروہ پاؤ بھر
دال مسور کس کس کو پوری پڑے گی۔‘‘
سعید میاں اپنی جگہ پریشان تھے۔ بولے۔
’’ میں نے تو ان تینوں سے بس اتنا کہا تھا میرے گھر دعوت ہے
ضرور آنا۔ یہ تو نہیں کہا تھا پورے خاندان کو لیے چلے آنا۔پر اب کیا کریں؟‘‘
’’ائے ہئے!‘‘ گلشن بی غصے سے بولیں۔’’کرنا کیا ہے تین بلائے
تیرہ آئے..... دے دال میں پانی! ‘‘ اتنا کہہ کر گلشن بی تن فن کرتی باورچی خانے
میں گئیں اور دال میں چار کٹورے پانی
انڈیل دیا۔
سعید میاں ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے لیکن گلشن بی نے ایک نہ
سنی۔
خیر! مہمانوں نے وہ
دال بھی بغیر منہ بنائے کھا لی کیونکہ سعید میاں نے مرچ مصالحوں کے تناسب سے اسے
کھانے کے قابل بناہی لیا تھا۔پھر ساتھ میں پودینے اور اناردانے کی چٹنی، آم کے
اچار اور پیاز ہری مرچ کے تڑکے نے پتلی سی دال کا ذائقہ برا نہیں لگنے
دیا۔
لیکن میرا تو خیال ہے ہمیں مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے
کیونکہ اگر وہ نہ آتےتو تین بلائے تیرہ آئے دے دال میں پانی والا مزیدار جملہ
کیونکر گلشن بی کے منہ سے نکلتا!