اختیار

فزکس کے پروفیسر نیازی صاحب جب سے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنے تھے، لیبارٹری کے اسٹنٹ علی کی شامت آ گئی تھی۔ صبح سویرے نیازی صاحب کالج پہنچتے ہی لیبارٹری میں جھانکتے۔ وہاں علی کو نہ پا کر فوراً اسے کال ملاتے۔
’’ہاں بھئی علی! کہاں ہو تم؟‘‘
’’جی سر ! میں آرہا ہوں۔آج  رش میں پھنس گیا تھا۔‘‘ علی جواب دیتا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اور لیبارٹری میں پہنچتا۔ اسے پتہ تھا ابھی اسے نیازی صاحب کا پہلا پیریڈ فری ہوتا ہے۔سو  اس وقت انہیں گرما گرم چائے کا کپ چاہیے۔ ساتھ اچھی کوالٹی کے بسکٹ جو اکثر ہی علی کو کالج کے باہر والی دکان سے لانے پڑتے۔اچھا خاصا بڑا کالج تھا اور فزکس ڈیپارٹمنٹ تھا بھی تیسری منزل پر۔ سو علی کی اچھی خاصی ورزش ہو جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس رات علی کھانا کھا رہا تھا جب اس کا فون بج اٹھا۔ نیازی صاحب کال کر رہےتھے۔ خیر ہے اس ٹائم کیوں یاد کر رہے ہیں؟ اس نے سوچا اور یس کا بٹن دبا دیا۔

’’علی! یار میرا ہیٹر خراب ہو گیا ہے۔اسے ٹھیک کروانا ہے۔ تم بتا رہے تھے تمھارا گھر صدر والی مارکیٹ کے بالکل ساتھ ہے؟ وہ ہیٹر وغیرہ کی دکانیں بھی وہیں ہیں ناں؟‘‘
’’جج جی! سر! ‘‘ علی ہکلا گیا۔
’’ٹھیک ہے پھر یہ تو اچھا ہو گیا۔ کل میں ہیٹر کالج لے آؤں گا۔ واپسی پر تم اسے اپنی بائیک پر رکھ کر لے جانا۔ اور دیکھو! دھیان سے اپنی نگرانی میں ٹھیک کروانا۔ یہ نہ ہو دکان دار کوئی پرزہ نکال لے۔بڑا قیمتی ہیٹر ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے سر! اوکے سر!‘‘ علی نے تابعداری سے کہا اور فون رکھ دیا۔
’’لو بھئی! یہ کام تو ہوگیا۔ اور بتاؤ!‘‘ نیازی صاحب نے فون رکھتے ہوئے بیوی کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اجی یہ علی تو لیب اسٹنٹ ہے۔ آپ اس سے اپنے گھر کے کام کیوں کروارہے ہیں؟ میرے خیال سے  یہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ نیازی صاحب کی بیگم نے کہا۔
’’چچ! ایک تو تم بڑی ناشکری  عورت ہو۔‘‘ نیازی صاحب جھنجھلا گئے۔’’ د دون سے شور مچایا ہوا تھا کہ ہیٹر ٹھیک کروادیں۔ اب ٹھیک ہونے جارہا ہے تو اس پر بھی اعتراض!  بھئی اب ہم ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ علی سے سب ہم کام کروا سکتے ہیں۔پھر کون سا مفت کروارہے ہیں ۔ پیسے دیں گے اس کو ہیٹر ٹھیک کروانے کے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بھئی علی لے بھی آؤ سلاد اور رائتہ۔ کتنا انتظا ر کرواؤ گے۔‘‘ نیازی صاحب نے تنگ آکر دوسری بار علی کو آوازدی تو علی کے ہاتھ اور تیزی کے ساتھ چلنے لگے۔ آج نیازی صاحب اپنے گھر سے چکن کا سالن بنوا کر لائے تھے۔ڈیپارٹمنٹ کے سبھی ٹیچرز اکھٹے تھے۔ نان، سلاد اور رائتہ کی ڈیوٹی علی کی تھی۔ نان تو وہ کچھ دیر پہلے ہی لے آیا تھا لیکن سلاد کیسے بنانا ہے یہ اسے کچھ زیادہ نہیں آتا تھا۔ خیر موٹے موٹے کھیرے کاٹ کر جب وہ گاجر کے چھلکے اتارنے لگا تو چھری اس کی انگلی بھی چھیل گئی۔
’’سی ی ی  اف!!‘‘ اس نے جلدی جلدی انگلی کو دھویا ٹشو کی تین چار تہیں بنا کر انگلی پر لپیٹیں اور دوبارہ سے گاجر چھیلنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہیلو! علی یار آٹھویں کی  انگلش کی کتاب تو پتہ کرنا مارکیٹ سے۔ پتہ چلا ہے شارٹ ہو گئی ہے۔ تم ذرا اچھی طرح ڈھونڈنا صدر میں۔‘‘
’’جی سر! میں دیکھتا ہوں۔‘‘
اگلے دن علی کتاب لے بھی آیا۔ نیازی صاحب نے اسے شاباش دی تو علی مسکرانے لگا۔ پتہ نہیں کیوں نیازی صاحب کو لگا کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے علی ان کو چڑا رہا ہے۔ پھر انہیں بیوی سے کل کی گفتگو یاد آگئی۔
’’علی آپ کا نہیں کالج کا نوکر ہے۔ اس سے کالج کے کام تو کروائیں تو لیکن اپنے ذاتی کام اس سے کروانا ٹھیک نہیں ہے۔ پھر آپ اسے کتاب کے پیسے دیں گے لیکن جو وہ پٹرول لگائے گا بائیک کا، اور ٹائم نکالے گا اپنی مصروفیت میں سے، اس کی قیمت کیسے دیں گے آپ۔اتنی گرمی میں وہ ہمارے کام کے لیے جاتا ہو گا مارکیٹ۔‘‘
’’بھئی تم سمجھتی نہیں ہو۔ علی کو تو  ہم نے ملازم سمجھا ہی نہیں۔ وہ تو ہمارا دوست ہے۔ اور پھر صدر مارکیٹ کے پاس جو رہتا ہےتو میں سوچتا ہوں اسی سے کام کروالوں۔‘‘نیازی صاحب نے دلیل پیش کی۔
’’ اس طرح سے تو ہمارے گھر کے قریب بھی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ورکشاپ ہے۔ پھر آپ علی کا بائیک کیوں نہیں ٹھیک کرواتے؟بات یہ ہے کہ علی آپ کا ماتحت ہے۔ آپ اس کابات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہیٹر گیزر تک اس کے ذریعے  ٹھیک کروالیے آپ نے۔اس چیز کا حساب دینا ہو گا آپ کواللہ کے ہاں۔‘‘ نیازی صاحب کی بیوی بولتی چلی گئی تھی۔
’’سر! چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ گرم کر دوں؟‘‘ علی نے آکر پوچھا تو نیازی صاحب سوچوں میں سے باہر نکل آئے۔
’’ہاں کر دو۔ اور بسکٹ  ختم ہیں تو لے آؤ۔ یہ پیسے لے لو۔ ایک گولڈ لیف بھی لے آنا۔‘‘
علی نے لیباٹری سے باہر آ کر ایک نظر تین منزلوں کی سیڑھیوں پر ڈالی جو اسے اترنا تھیں اور پھر دوبارہ سے چڑھنا تھیں۔ اسے دو دن سے بخار تھا لیکن سر کے بسکٹ بھی لانا ضروی تھے۔ اور گولڈ لیف کے بغیر تو وہ انتہائی چڑچڑے ہو جاتے تھے۔ سو جانا مجبوری تھی اور واپس آنا بھی!
اوپر لیبارٹری میں بیٹھے نیازی صاحب نے ڈبی میں سے آخری سگریٹ نکال کر منہ میں ڈالا اور بڑبڑائے۔
’’ہونہہ! بھئی میں ہیڈ ہوں۔ جو چاہے  کام کروا سکتا ہوں اپنے ماتحت سے۔ بیگم تو ہے ہی ناشکری اور جاہل! اسے کیا پتہ۔ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے کیا کیا اختیار ہوتے ہیں؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہاں علی ! وہ ایک ٹریک سوٹ لے آنا کل مارکیٹ سے۔ وہ ہے ناں امریکن کلاتھس۔ اس سے ملے گا۔سائز میں تمھیں میسج کر دوں گا۔‘‘ آخری پیریڈ میں کلاس کی طرف  جاتے جاتے نیازی صاحب نے علی کو ہدایت کی۔
’’جی ٹھیک ہے سر! ‘‘
اگلے دن علی چلچلاتی دھوپ میں آدھا گھنٹہ دکان ڈھونڈتا رہا ۔ آخر کار جب وہ  مارکیٹ کے آخری کونے میں بنی ہوئی امریکن کلاتھس پر پہنچا تو وہ بند تھی۔ اس نے بائیک واپس موڑی اور پسینہ صاف کرتے ہوئے دوبارہ سے موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔نماز کو لازم پکڑو اور جو باندی اور غلام تمہارے قبضہ میں ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (سنن ابوداوٴد)
’’تمہارے ماتحت (لوگ) تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارا ماتحت بنایا ہے۔ لہذا جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو، اس کو وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے۔ ماتحتوں سے وہ کام نہ لو جو ان پر بوجھ بن جائے اور اگر کوئی ایسا کام لو تو ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘ (صحیح بخاری)