ہلتے ترازو کے اس پار

(وطن عزیز میں طب کے مقدس شعبےکے نام پر ہسپتالوں میں جاری  کاروبار کو عریاں کرتی ایک تحریر ۔ تین ڈاکٹرز کی جنگ  ... دو  وہ جو دکاندار بن کرمریض کی حق حلال کی کمائی ہتھیانے کے چکر میں  رہتے تھے، تیسرا وہ  جس کے سینے میں دل تھا ... جو مریض کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھنا چاہتا تھا)
میرا نام واحد ہے۔میں اپنے خاندان کا تیسرا ڈاکٹر ہوں۔ میرے دو چچا زاد بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔ آپ نے الشمس ہاسپٹل کا نام سنا ہو گا۔ کافی بڑا ہسپتال ہے۔ ہمارے گھرکے قریب ہی ہے۔ پھر میرے دونوں چچا زاد بھائی، ڈاکٹر رفیع اور ڈاکٹر سمیع بھی وہیں ہوتے ہیں۔ ہاؤس جاب کے بعد میرے ابو نے کہا۔
’’بھئی! اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔یہ پاس ہی  الشمس ہسپتال ہے۔ یہیں پریکٹس شروع کر دو۔ میں نے سمیع اور رفیع سے بات کر لی ہے ۔ تمھاری کافی مدد کریں گے۔ کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘ 

’’جی ٹھیک ہے ابو ! ‘‘ میں نے ہمیشہ کی طرح ابو کی بات مان لی۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے ان کی وہ گفتگو سن  لی تھی جو وہ فون پر کل رفیع بھائی سے کر رہے تھے۔
’’ہاں رفیع! میں کہہ رہاتھا یہ اپنےواحد کو اپنے پاس ہی سیٹ کرو۔ بھئی بہت ہی بے وقوف ہے۔ خدمتِ خلق کا جوش چڑھا ہے محترم کو۔اس کو اندازہ نہیں میرے پچاس لاکھ روپے لگ چکے ہیں اس کو ڈاکٹر بنانے میں۔ ذرا چالاکی سکھاؤ اسے۔ وصولی بھی  توکرنی ہے میں نے۔‘‘
دوسری طرف رفیع بھائی نے نہ جانے کیا کہا۔ ضرور  میری شان میں قصیدے پڑھے ہوں گے۔ پھر ابو جان کہنے لگے۔
’’ہاں میں بات کرتا ہوں۔ تم ذرا روم اچھی طرح سجانا ۔ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ ‘‘
میں اتنا سن کر وہاں سے چلا آیا۔ میرے اندر ایک جھلاہٹ سی آ گئی تھی۔ کیا غریب لوگوں کا مفت علاج کرنا گناہ ہے؟ اچھا مفت نہ سہی لیکن ہم کچھ  کمی تو کر سکتے ہیں ان کے اخراجات میں۔ اور اگر کسی کی بے لوث مدد کرنا بے وقوفی ہے تو اچھا بھئی ! میں بے وقوف ہی ٹھیک ہوں۔میں جل کر سوچتا رہا اور آئند ہ کےلیے پلان بنا تا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کوئی خاص بات نہیں۔ بچے کو بدہضمی ہو گئی تھی۔ یہ والی گولی صبح شام دیں اور یہ سیرپ دن میں ایک دفعہ۔کچھ دن تک مکمل پرہیز کرائیں۔ انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ میں نے ہاشمی صاحب سے کہا تو وہ  پر سکون سے ہو گئے۔ ان کے بیٹے کو کئی دن سے الٹیاں آرہی تھیں۔
’’شکر اللہ کا!ڈاکٹر صاحب میں تو پریشان ہی ہو گیا تھا۔ٹھیک ہے! میں چلتا ہوں۔جزاک اللہ ڈاکٹر صاحب!‘‘ ہاشمی صاحب نے جیسے دل سے کہا تو میرے اندر ایک سکون بھری پھوار سی  گرنے لگی۔میں بھی دل سے مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ کیا کیا واحد! یار اپنڈکس کا کیس بن سکتا تھا۔ آپریشن چارجز اور بعد میں دو دن پرائیوٹ بیڈ کے چارجز ملا کر کم از کم لاکھ روپے کا نسخہ تھا ۔ اف! پاگل ہو تم! ایسے کیسے جانے دیا اس  ہاشمی کے بیٹےکو تم نے۔‘‘ رفیع بھائی سخت جھنجھلائے ہوئے تھے۔
’’پتہ ہے ہاشمی کتنی تگڑی کمائی کرتا ہے۔ ہم بھی کچھ مستفید ہو جاتے اس کی کمائی سے ۔لیکن تم تو بس! ‘‘ سمیع بھائی نے افسوس سے سر ہلایا جیسے کہہ رہے ہوں۔ اس کا کچھ نہیں بن سکتا۔
’’لیکن جب اس کی رپورٹس بھی کلئیر آئی تھیں تو ہم اس کا آپریشن کیسے کرتے؟‘‘
’’میرے ننھے بھائی! تم  نےٹیسٹ کے نام کے ساتھ ایلفا کا نشان ڈالا  تھا؟‘‘ رفیع بھائی نے پوچھا۔
’’ایلفا کا سمبل۔۔ نہیں تو!‘‘ میں نے نا سمجھی سے دونوں کو باری باری دیکھا۔
’’چچ! پتہ تھا مجھے!  خیر اب سے سیکھو۔ دیکھو ہمارا  لیب اسسٹنٹ جمیل  سے کمیشن طے ہے۔ ہر ایک  ٹیسٹ پر ہمیں پچیس پرسنٹ ملتا ہے۔ جب بھی تم ٹیسٹ کے نام  کے اسپیلنگزمیں ایلفا کا سمبل ڈالو گے اسے معلوم ہو جائے گا یہ ہمارا بھیجا ہوا مریض ہے۔پھر وہ ہمارے مطابق ہی رپورٹس تیار کرے گا۔‘‘ رفیع بھائی سمجھاتے چلے گئے۔
’’بس  تم نے ایلفا کا نشا ن نہیں ڈالااور جمیل نے بھی  زندگی میں پہلی بار ایمانداری سے رپورٹ بنائی۔ ہاہاہا‘‘ سمیع بھائی اچانک بولے اور قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
’’بھائی جان! بات پھر وہیں ہے۔ آپ آپریشن کس چیز کا کرتے جب اپنڈکس تھا ہی نہیں؟‘‘ میں نے ضد کرتے ہوئے سوال دہرا دیا۔
’’ارے یار! بہت ہی بھولے ہو تم! یار اسے کہتے ہیں بلینک آپریشن! چیرا لگایا اور پھر بند کر دیا۔ بس!  گل مک گئی!‘‘
یہ کہہ کر  رفیع بھائی اور سمیع بھائی ہاتھ پر ہاتھ مارکر ہنس پڑے۔
میں وہاں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھ سکا۔ مجھے اس تعفن زدہ ماحول میں سانس نہیں آرہا تھا۔ مجھے خود پر ڈاکٹر سے زیادہ  اس  خائن دکاندار کا شبہ ہو نے لگا تھا جو طرح طرح کے جھوٹ گھڑ کے گاہک کو گھیرتا ہے اور پھر سودا بھی ایمانداری سے نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن سمیع بھائی کو کسی کام سے جانا تھا۔ انہوں نے راؤنڈ پر مجھے بھیج دیا۔ ساتھ ہی تاکید بھی کی کہ ابھی کسی کو ڈسچارج نہیں کرنا۔
راؤنڈ لگاتے لگاتے میں روم نمبر ۷ میں آیا۔ یہاں ایک ضعیف اماں جی ایڈمٹ تھیں۔ ایک ڈیڑھ ہفتے پہلے ان کا بائی پاس ہوا تھا۔میں نے انہیں تفصیلی چیک کیا۔وہ اب بالکل ٹھیک تھیں۔ لیکن جب ان کےبیڈ کے ساتھ پڑی رپورٹس پڑھیں تو ان میں مزید ایک ہفتے کا Stay لکھا ہوا تھا۔
’’سمیع بھائی! وہ اماں جی ۔۔ روم نمبر سیون والی۔۔ اے ون کنڈیشن ہے ان کی۔ پھر بھی آپ نے سات دن مزید کیوں رکھنا ہے ان کو ؟‘‘ میں نے سمیع بھائی کو فون کیا۔
’’دیکھو! وہ پرائیویٹ بیڈپر ہیں۔ ان کا بیٹا بڑا ہی تابعدار ہے۔ ارے ایک ہفتے مزید یہاں رہ لیں گی تو کیا ہوگا۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں انہیں یہاں۔‘‘
’’لیکن!‘‘ مجھے ان کی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ میں مزید الجھ گیا جبکہ سمیع بھائی فون بند کر چکے تھے۔
میں کچھ سوچتا ہوا کاؤنٹر کے پاس سے گزرا تو وہاں انہی اماں جی  کابیٹاکھڑا تھاجس سے میں روم میں ملا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نوٹوں کی گڈی تھی۔ میلے کچیلے سے کپڑے، پرانی سی چپل۔ وہ اپنے حلیے سے زیادہ امیر نہیں دکھتا تھا۔ صاف لگتا تھا اپنی زندگی کی جمع پونجی ماں کے نام کر رہا ہے۔اس کے جانے کے بعد میں بل کاؤنٹر سے اماں جی کے آپریشن اور اس کے بعد آنے والے اخراجات کی تفصیل نکلوا کر پڑھی۔ یہ کل ملا کرپانچ لاکھ تھے۔ یہ صرف ایک ہفتے کا بل تھا۔ ابھی اماں جی نے ٹھیک ہوجانے کے باوجود مزید ایک ہفتے یہیں رہنا تھا۔ تب بات دس لاکھ تو چلی ہی جاتی۔ یہ صرف ڈاکٹر سمیع کی ’’مہربانی‘‘ سے ممکن ہوا تھا۔ انہوں نے اماں جی کے بیٹے کو  اتنا ڈرایا دھمکایا تھا کہ وہ جلدی ڈسچارج کروانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اسےہر صورت اپنی ماں کی صحت عزیز تھی اور اس کےلیے اسے بیوی کے زیور بھی بیچنے پڑے تو وہ تیار تھا۔
اب مجھے سمیع بھائی کے الفاظ سمجھ آئے تھے۔
’’دیکھو! وہ پرائیویٹ بیڈپر ہیں۔ ان کا بیٹا بڑا ہی تابعدار ہے۔ ارے ایک ہفتے مزید یہاں رہ لیں گی تو کیا ہوگا۔‘‘
کچھ نہیں ہوگاسمیع بھائی بظاہرکچھ نہیں ہوگا۔ بس آپ کے اکاؤنٹ میں کسی کی زندگی کی جمع پونچی کے ساتھ ساتھ کچھ نحوستیں بھی جمع ہو جائیں گی  جو شاید ساری زندگی آپ کا پیچھا نہ چھوڑیں۔میں سوچتا رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لنچ کی ٹیبل پر رفیع بھائی بولے۔
’’یار! اس بار کا ٹارگٹ 180 آپریشن کا ہے۔ دیکھو اب !ویسے اگر پورا کروں تو پروموشن پکی ہے میری۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔ شروع کرو ۔ مدد کی ضرورت ہو تو یہ اپنا واحد ہے ناں۔ ‘‘
میں اچھل ہی پڑا۔ استغفراللہ!  بلا ضرورت میں ایسے کیسے کسی کو چیر پھاڑ دوں۔ میں نے گھبرا کر  رفیع بھائی کی جانب دیکھا۔
’’اوہ یار! فکر نہ کرو۔ ہر آپریشن کا دس فیصد تمھارا! اوکے؟‘‘ رفیع بھائی نے میری طرح سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’ڈن ہے یار۔ ڈن ہے۔‘‘ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی سمیع بھائی نے میرا ہاتھ دبایا۔
’’ایڈیکس والوں کی سرنج کوالٹی میں ڈاؤن ہے ۔ مگر کمیشن اچھا دے رہی ہے۔ لے لیں سٹاک؟‘‘
’’ہاں  لے لو۔ اور ایپل کمپنی کے آئرن سیرپ  والوں کو فون کرنا ذرا۔ ٹارگٹ کب کا پورا کر چکا ہوں۔ کب آئےگی پیمنٹ؟‘‘
’’بات کرتا ہوں۔ میرے جاننے والے ہیں وہ۔ ‘‘
وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے  کھاناکھا رہے تھے۔ میں نے تصور میں دیکھا۔ رفیع بھائی کسی مریض  کی ٹانگ کھا رہے تھے۔ پھر انہوں نے ایک مریض کے بازو پر سے گوشت بھنبھوڑنا شروع کیا۔ سمیع بھائی  ایک مریض کا پیٹ  کاٹ کر۔۔ اف ! مجھے زور کی قے آئی اور میں اٹھ کر واش روم چلا گیا۔
معصوم مریضوں کو بلا ضرورت چیر پھاڑ کر آخر انہیں کیا ملتا ہے؟ آج سمجھ آ گیا ہے۔ بے قصور لوگوں کی بدعائیں۔ یہ سوچ کر میں نے شیشے میں خود کو غور سے  دیکھا۔ ’’دس فیصد‘‘ میرے اندر کوئی بولا اور ایک بار پھر مجھے قے آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنا کلینک بنا لیا ہے۔ یہ الشمس ہاسپٹل جیسا تووسیع و عریض  نہیں  نہ ہی میرا کمرہ رفیع اور سمیع بھائی کے جیسا ہے لیکن میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میرے مریض میرے سے خوش ہیں۔  میں ان کی تمام بیماری اور مرض کھول کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ بغیر ڈرائے یا دھمکائے انہیں بس اتنی ہی دوا لکھ کر دیتا ہوں جس سے وہ ٹھیک ہو جائیں۔ فارما کمپنی سے ایک گھڑی لینا بھی میں اپنے لیے حرام سمجھتا ہوں۔  مریض بے حد مطمئن ہو کر میرے پاس سے جاتے ہیں۔ میں انہیں ٹیسٹ بھی لکھ کر دیتا ہوں تو اس لیب سے جس سے مجھے کوئی کمیشن نہیں ملتاکیونکہ   تقریباً ہر لیب والے پہلے کمیشن طے کرتے ہیں پھر ٹیسٹ کرتے ہیں۔
کوئی میرے دل کو چیر کر دیکھے میں اندر سے کتنا پرسکون ہوں ۔کتنا خوش اور مطمئن ہوں ۔صرف اس لیےکہ میرے ضمیر پر کسی سے کمیشن ، ناجائز فیسیں یا بلا ضرورت آپریشن کرنے کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔   یہ بات کوئی میرے ابو کو سمجھائے جن کو لگتا ہے میں اپنی پڑھائی اور وقت ضائع کر رہا ہوں۔ رفیع بھائی کہتے ہیں میں اس سے دوگناچوگنا کما سکتا تھا لیکن نہیں کما رہا۔
 سبھی کو لگتا ہے میں بے وقوف ہوں۔ کیا واقعی؟ کیا واقعی ہم نے آخرت کو بھلا دیا ہے۔ کیا واقعی ہم  موت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔قیامت والے دن ایک ایک روپے کا حساب اگر شروع ہو گیا تو ہم  ڈاکٹرزنے ہزاروں روپے اور تحفے  صرف ایک فارما کمپنی سے لیے ہوئے ہیں۔ کیسے دیں گے حساب وہاں؟ اگر کسی مریض کابیٹا بھائی  رشتہ دار لاکھوں کی بھری ہوئی ناجائز فیسوں کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو اس کو اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دے سکیں گے؟  سوچیں اور فکر کریں اس وقت کی جب آپ ہوں گے ، وہ لوگ ہوں گے جن کی جمع پونجی آپ نے  طرح طرح کے ڈراوے دے کر اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالی اورہلتے ترازو کے اس پاراللہ رب العزت کی ذات ہو گی۔ کیا خیال ہے ترازو کے اس پار آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں؟