قتل یا قربانی





 "مکڑی کا گھرانہ بہت برا ہے۔ اف خدایا!"

مانی نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔ وہ فیس بک پر ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا۔ 

"ہیں! کیا مطلب؟" 

شانی نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔ 

"دیکھو۔ یہ کیا لکھا ہے۔" 

"ادھر کرو۔ مجھے نظر نہیں آرہا۔" 

"نہیں۔ یہیں سے ہی پڑھو۔ تم نے کل بھی مجھ سے موبائل لے لیا تھا اور پھر اپنی گیم کھیل کر امی کو دے دیا۔" مانی نے منہ بنا کر کہا۔

"ہاں تو امی کا موبائل ہے۔ امی کو ہی دوں گا۔" شانی نے کندھے اچکائے۔



"تو بس۔ پھر نہ پڑھو۔ میں تو یہ ساری پوسٹ پڑھوں گا۔ اور رات کو دادا ابو کے ساتھ شئیر کروں گا۔ دیکھنا وہ مجھے کتنی شاباش دیں گے۔" 

"شاباش دیں گے! شاباش دیں گے! ٹیں ٹیں ٹیں!" مٹھو ہمیشہ کسی نہ کسی کا آخری جملہ یاد کر لیتا تھا پھر سارا دن وہی جملہ دہراتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی یہی ہوا۔ 

"ہونہہ! دیکھ لیتے ہیں۔" شانی نے جل کر کہا اور مٹھو کو دال چنا کھلانے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"دادا ابو! آج میں نے فیس بک پر بہت عجیب سی بات پڑھی ہے۔"

"ہمم! برخودار۔ تم فیس بک کب سے استعمال کرنے لگے؟" دادا ابو نے اخبار پڑھتے ہوئے چشمے کے اوپر سے مانی کو گھورا۔ 

" آں وہ ۔۔ امم۔۔ ماما سے موبائل لیا تھا ہوم ورک ڈائری نوٹ کرنے کے لیے تو ۔۔ تھوڑی دیر کے لیے فیس بک بھی دیکھ لی۔" مانی نے گڑبڑاتے ہوئے بتایا۔ 

شانی شرارتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے؟" 

دادا ابو نے اخبار تہہ کر کے تپائی پر رکھ دیا۔

"یہ کہ مکڑی کا گھرانہ بدترین گھرانہ ہے۔" 

"یہ کس نے کہا۔"

وہ حیران ہو گئے۔

"یہ فیس بک پر میں نے پڑھا ہے۔ یہ دیکھیں۔ مکڑی پچے پیدا کرنے کے عمل میں مکڑے کو کھا جاتی ہے۔ یہ بدترین گھرانہ ہے۔" مانی نے شروع کے جملے پڑھے۔ 

"بالکل غلط بات ہے۔" دادا ابو نے نفی میں سر ہلایا۔

" مکڑی کو بدترین نہیں ، اس کے جالے کو کمزور ترین گھر کہا گیا ہے۔ ابھی کل ہی میں سورہ العنکبوت کی آیت پڑھ رہا تھا جس میں مکڑی کا ذکر کیا ہے اللہ پاک نے۔ 

مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِۖۚ-اِتَّخَذَتْ بَیْتًاؕ-وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(41)

 ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اَور مالک بنالیے ہیں مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بےشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتا اگر وہ جانتے۔

تو قرآن پاک میں مکڑی کا گھر کمزور کہا گیا ہے۔ مکڑی کے خاندان کو تو برا بالکل نہیں کہا گیا۔"

دادا ابو کہتے چلے گئے۔ 

"پتہ نہیں۔۔ یہ تو پورا مضمون اسی بات پر ہے کہ۔مکڑی ایک بدترین گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ اور۔۔ اور"

مانی کو یاد نہ آیا کہ اس نے مزید کیا پڑھا تھا اس پوسٹ میں۔ وہ فیس بک بند کر ماما کو موبائل دے آیا تھا۔

" کیونکہ وہ۔اپنے بچے پیدا ہونے کے بعد مکڑے کو قتل۔کر دیتی ہے۔ جی! پوری پوسٹ پڑھ لیتے تو بات بھی پوری کرتے۔" شانی آنکھیں نکالیں۔ 

"آہاہاہا! تو یہ بات ہے۔ " دادا ابو نے قہقہ لگایا۔

"ہائیں۔۔ یہ تو اتنی عجیب سی بات ہے کہ مکڑی مکڑے کو قتل کر دیتی ہے۔ مجھے تو ہنسی نہیں آرہی۔ دادا ابو۔" شانی نے کہا۔ مانی بھی مکڑے کے مر جانے کا سن کر اداس سا ہو گیا تھا۔ 

"میرے بچو! ایسا نہیں ہے۔ مکڑے میاں کوئی قتل وتل نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ تو خود اپنی زندگی کی قربانی دیتے ہیں۔" 

دادا ابو نے ان کے سروں پر پیار سے تھپکی دی۔ پھر بولے۔

"دیکھو! ایک تھے مکڑے میاں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کو بچے پیدا کرنے کی فکر بھی ہونے لگی۔ مکڑی بھی یہی سوچ رہی تھی۔ پھر دونوں نے ایک دن ایک مشکل فیصلہ کر لیا۔"

"وہ کیا!!!" مانی شانی بیک وقت بول اٹھے۔ 

"وہ یہ کہ جیسے ہی مکڑا اور مکڑی mating کرنے لگیں گے، تو اس process کے بعد مکڑا کمزوری سے نڈھال ہو جائے گا۔ پھر مکڑی، اس کمزور مکڑے کو کھا جائے گی۔ مکڑی جانتی ہے کہ یہ کھانا اس کے آنے والے بچوں کی صحت کے لیے بہت اچھا اور healthy meal ثابت ہوتا ہے۔" 

"دادا ابو! یہ سب کتنا اداس ہے۔" 

شانی افسردہ تھا۔ 

"مجھے تو مکڑے پر رحم آرہا ہے۔" مانی نے کہا۔

"جی نہیں! مکڑے میاں پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔ وہ ناراض ہو جائیں گے۔ یہ قربانی تو وہ اس لیے دیتے ہیں کہ ان کے sperm سے پیدا ہونے والے genes جو مکڑی کے اندر گئے ہیں، وہ محفوظ رہیں۔ کیونکہ جب ایک مکڑی، اپنے شوہر مکڑے کو کھاجاتی ہے تو اس کے بعد وہ کسی اور مکڑے سے mate کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ یوں، مکڑے میاں ہی اس کے ہونے والے بچوں کے واحد ابو ہوتے ہیں۔" 

دادا ابو نے تفصیل بتائی تو مانی شانی کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ 

"جی! اگر مکڑی مکڑے کو نہ کھاتی، تو وہ دو تین چار مکڑوں سے mate کرتی رہتی۔ پھر اس کے بچوں میں کئی مکڑوں کے genes شامل ہو جاتے۔ کئی genes شامل ہونے کی وجہ سے بچوں کی growth صحیح نہ ہو پاتی بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ مر جاتے۔ اسی لیے مکڑی، اس مکڑے کو کھاجاتی ہے جس کے ساتھ وہ mating کر لیتی ہےتاکہ اس کے reproductive organs بند ہو جائیں اور وہ کسی مکڑے سے mate نہ کر سکے۔ اس طرح اس کے بچوں میں صرف ایک مکڑے کے genes آئیں گے اور اسے صحت بخش کھانا بھی مل جاتا ہے۔" 

"اوہ! تو یہ بات ہے۔ اس پوسٹ میں تو پھر ساری بات ہی غلط تھی۔" مانی نے خفگی سے سوچا۔

"میرے بچو! جب تک آپ کسی بات پر ریسرچ نہ کر لو، اسے ٹھیک نہ سمجھا کرو۔ خاص طور پر فیس بک پوسٹس جو اکثر سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔ ان پر اندھا دھند یقین نہیں کر لینا چاہیے۔" 

دادا ابو اب لیٹ گئے تھے۔ مانی شانی اٹھ کر ان کے پاس آ گئے۔ 

"دادا ابو! آپ بہت اچھے ہیں۔ میں مکڑے میاں کی قربانی والی کہانی ریحان کو ضرور سناوں گا۔"

مانی نے دادا ابو کے سینے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے کہا۔ 

"کیونکہ یہ مانی صاحب، ریحان کو اس پوسٹ کا لنک شئیر کر چکے ہیں۔" شانی نے پٹ سے مانی کے پول کھول دیا۔ 

"کیا! خدایا! کتنی بار کہا ہے کہ ۔۔۔۔ " دادا ابو خفگی سے کہنے لگے تو مانی نے فورا کان پکڑ لیے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مانی شانی ایک دوسرے کے پیچھے باہر بھاگ گئے تھے۔ صحن میں مٹھو میاں چلا رہے تھے۔ 

"شاباش دیں گے! شاباش دیں گے! دادا ابو شاباش دیں گے!" 

مانی مٹھو کی آواز سن کر مانی مزید شرمندہ ہو گیا۔ 

"ہاہا! مل گئی شاباش!" 

شانی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ 

پہلے ہی مانی دادا ابو کے دامنے پورے دو منٹ تک کان پکڑ کر آیا تھا۔ اب مٹھو اور شانی کی باتیں سن کر تو اس کی جان جل گئی۔

"تمھیں کیا ضرورت تھی شئیر والی بات دادا ابو کو بتانے کی؟" اس نے شانی کے پاس جا کر غصے سے کہا جو مٹھو کو شاباشی کے سے انداز میں تھپکی دے رہا تھا۔ 

"ساری بات بتانی چاہیے ناں۔ تم آدھی بات کیوں کرتے ہو؟" شانی نے مٹھو کے پر چھوئے اور ہنسی روکنے کی کوشش میں مصنوعی طور پر کھانسنے لگا۔ 

"ہاں تو میری مرضی!" مانی نے منہ بنایا۔ 

"تو بس۔ میری بھی مرضی۔ ہی ہی ہی! شاباش مل گئی؟" شانی نے اتنا کہہ کر مانی کو زور سے کندھے پر تھپکی دی اور کچن کی طرف بھاگا۔

"اچھا یہ بات ہے!" مانی سے اب کہاں برداشت ہو سکتا تھا۔ وہ بھی غصےسے شانی کے پیچھے بھاگا۔ 

جیسے ہی دونوں کچن کے دروازے پر پہنچے، باہر آتی امی جان سے ٹکرا گئے۔ 

"تڑاخ۔۔۔ چھن۔۔۔ چھن۔۔۔ تڑاخ تڑخ!!" 

امی کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے اور کانچ کے چار تازہ جوس سے بھرے ہوئے گلاس نیچے گر کر چکنا چور ہو گئے تھے۔ 

چونکہ شانی پہلے ان سے آ ٹکرایا تھا ، اب اسی کی شامت لازمی تھی۔ 

"شاباش مل گئی! شاباش مل گئی!" 

امی شانی کو کان پکڑوا کر صحن میں آئیں جہاں مٹھو میاں گلا گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے تھے۔ 

مانی نے ایک نظر مٹھو کو پھر شانی کو دیکھا پھر اپنی ہنسی روکنے کے لیے زور زور سے کھانسنے لگا۔