مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے پاس محبتوں کے اظہار کے لیے الفاظ کیوں کم ہیں؟ شاید اس لیے کہ میرے لیے آپ پر تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ اور مجھے اس میں اپنے نفس پر کچھ زور نہیں ڈالنا پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر میں آپ سے کہنا چاہوں کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں اور آپ کی فلاں عادت تو مجھے بڑی محبوب ہے اور یہ کہ آپ میرے دل میں بہت خاص مقام رکھتے ہیں تو یہ سب کہنے کے لیے میرے پاس اولاً تو الفاظ ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو نفس پر اتنا بوجھ اور گھٹن آپڑے گی کہ میں خود بخود اس ارادے سے دستبردار ہو جاؤں گی۔
پیارے نبی ﷺ خود ہمیں محبت کا اظہار کرنا سکھا کر گئے ۔ جب ایک صاحب سامنے سے گزرے اور آپ ﷺ کے صحابی نے کہا۔ یارسول اللہ! یہ شخص مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فوراً انہیں کہا کہ جاؤ اور ان صاحب کو یہ بات بتا کر آؤ۔ پیارے نبی ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کس کس انداز میں محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ کبھی ان کو ستاروں سے تشبیہ دیتے کہ میرے صحابہ تو ستاروں کی مانند ہیں۔ کبھی فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو۔ کبھی آپ ﷺ نے کہا کہ جو میرے صحابہ سے پیار کرے گا وہ گویا خود مجھ سے پیار کرے گا۔ کیا ہی زبردست اظہار محبت ہے! یہ ایسے ہی ہے جیسے میں اپنے بہت عزیز سے یہ کہوں کہ بھئی آپ تو اتنے اچھے ہیں اتنے پیارے ہیں کہ جو آپ سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ بیشتر احادیث میں آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو ‘‘میرے صحابہ’’ کہ کر پکارا۔ جیسے ہم اپنے بچوں کو میرا بیٹا کہ کر پکاریں یا اپنے شاگردوں کو میرے شاگرد کہ کر پکاریں تو یہ کتنا محبت بھرا انداز ہے۔ کتنا خوبصورت کلام ہے۔
اظہارِ محبت کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ یہ آپ میں مجھ میں ایک توانائی بھر دیتا ہے۔ ایک جذبہ اور ایک احساس کہ ہاں ہم اہم ہیں کسی کے لیے۔ ہم بہت ضروری ہیں کسی کے لیے۔ کوئی ہے جو ہمیں اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اور یہ احساس بڑا جادوئی احساس ہے۔ یہ کسی بھی انرجی فوڈ سے زیادہ انرجی آپ کے اندر بھر سکتا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں جب میں نے مولانا طارق جمیل کو ’’یا عبادی الذین اسرفو انفسہم‘‘ کی تشریح کرتے سنا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہاں اللہ نے ہم سب کو ‘‘اے میرے بندو’’ کہ کر مخاطب کیا ہے اور اپنی لازوال و بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ یقین کریں مجھے اتنا اچھا لگا اور میرے اندر اللہ سے جو ایک تعلق تھا وہ سو فیصد بڑھ گیا جب میں نے یہ سوچا کہ میرے اللہ نے مجھے اپنا کہا ہے۔ میرے سے پیار کا اظہار کیا ہے۔
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کے لان میں کھیل رہا تھا۔
مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔ میں اپنی نواسی سے بات کرتا رہا۔ اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑ اور اس کے منہ پر چھنچھیاں (خراب منہ اور بہتی ناک) لگی ہوئی تھیں۔ وہ اندر آیا اور اس نے دونوں ہاتھ محبت سے اوپر اٹھا کر کہا۔‘‘امی مجھے ایک جھپی اور ڈالیں۔ پہلی جپھی ختم ہو گئی ہے۔’’ تو میری نواسی سے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگالیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا ہو گا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہو گی جو اسے ایک جپھی نے عطا کی ہو گی اور جب اس نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی بیٹری کو ری جارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آگیا۔
آپ نے عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا ہوگا جب وہ ایک مرتبہ سیڑھیوں سے اتر رہے تھے تو وہاں موجود ایک بھنگی نے اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا لیا اس خیال سے کہ آپ کے اجلے کپڑے اس کے ساتھ مس نہ ہو جائیں اور آپ ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن وہ تو پیارے نبی ﷺ کے بیٹے ، سید عطا ء اللہ شاہ بخاری تھے۔ عاجزی اور بلند اخلاق کے پیکر۔ آپ رحمہ اللہ نے اسے یوں کھڑے دیکھ کر اسے اپنے سینے سے لگالیا اور کہا کہ تم بھی ہمارے بھائی ہو۔اور اس سے بہت ہی محبت و شفقت کا اظہار فرمایا۔
شام کو وہ صاف کپڑے پہن کر آیا تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھایا اور اسے چائے پلائی۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ آیا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اور مسلمان ہو گیا۔ یہ اظہار محبت تھا۔ یہ اظہارِ تکریم و انسانیت تھا جس نے بظاہر معاشرے کی نظر میں گرے ہوئے انسان کو نبی کریم ﷺ کا امتی بنا دیا۔
میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک شخص کو کسی نہ کسی سطح پر محبت کے اظہار کی ضرورت ہے۔ آپ گھر میں اپنی امی جان کو دیکھیں۔ وہ سارا دن آپ کے کاموں میں الجھی رہتی ہیں ۔ ان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان کی زندگی کا مقصد ہی آپ کی بہترین تربیت اور خوبصورت نشوونما ہو۔ لیکن اس کے بدلے میں ہم نے ان کو کیا دیا۔ ہم ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں ۔ ان کے صاف کیے ہوئے کمرے میں پرسکون نیند سوجاتے ہیں ۔ پھر صبح انہی کے دھوئے اور استری کیےہوئے یونیفارم پینٹ شرٹ مفلر کوٹ وغیرہ پہن کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ایک دفعہ بھی آپ نے پیچھے مڑ کر ان کو دیکھا؟ اور ان کو یہ کہنے کی کوشش کی کہ ۔۔۔‘‘امی جان ! آپ بہت اچھی ہیں! آپ میرے لیے بہت محنت کرتی ہیں۔ اور آپ مجھے ساری دنیا کے لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں۔’’ اگر آپ ایسا کر لیں یقین کریں اب بہت سارے دنوں تک آپ کی امی جان کاموں کی زیادتی سے تھک نہیں سکیں گی نہ ہی برتنوں کا ڈھیر انہیں چڑچڑا کر ے گا۔
آپ اپنے ابو جان کو دیکھیں۔ وہ کتنا تھکے ہوئے گھر آتے ہیں۔ اور پھر نیند پوری ہو یا نہ ہو صبح اٹھ کر پھر آفس چلے جاتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ آپ کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے بھی کبھی ان کواپنی چاہت کے اظہار سے خوش کیا؟ آپ صرف ایک بار یہ کہ دیکھیں۔ ‘‘ابو جان! آپ نے میرے اتنی محنتیں کی اتنی تکلفیں اٹھائیں میں ساری زندگی آپ کا احسان نہیں چکا سکتا۔ ’’ یہ کہ کر آپ ان کے گرد بازو حمائل کرکے ان کی پیشانی پر بوسہ دیں۔ مجھے یقین ہے ان کی آنکھیں ایک پیاری سی روشنی سے چمک اٹھیں گی اور وہ مزید تازہ دم ہو جائیں گے۔ ان کی سب تھکاوٹیں بہت دنوں کے لیے دور بھاگ جائیں گی۔
میں آپ کو اظہارِ محبت کی ایک اور شاندار مثال بتاتی ہوں۔ دیکھیں مجھے اپنی بیٹی بہت ہی عزیز ہے اور جب میں اسے صرف مریم کہ کر پکارتی ہوں تو مجھے لگتا ہے میری محبت کا حق ادا نہیں ہوا۔ پھر میں اس کو محبت سے پتہ نہیں کیا کیا کہتی رہتی ہوں تب کہیں جا کر تسلی سی ہوتی ہے ۔ میرے نبی پاک ﷺ بھی اپنے ربِ کریم کو بہت ہی زیادہ محبوب تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک نہیں نناوے نام دے دیے ہیں۔ وہ میرے رب کے یٰس ہیں۔ طٰہٰ ہیں۔ احمد ہیں۔ ماحی ہیں ۔ عاقب ہیں۔ حاشر ہیں۔اُمّی ہیں۔ ابو القاسم ہیں۔ کلیم اللہ۔۔ حسیب اللہ۔۔ نجیب اللہ۔۔ صفی اللہ۔۔ خاتم الانبیا۔۔ منصور۔۔ مصباح۔۔ حجازی ۔۔ نزاری۔۔ نبی التوبہ۔۔ رسول الرحمۃ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم!
ایک دفعہ میرے موبائل کا چارجر خراب ہو گیا تو جب تک نیا آتا میں نے سٹور سے ایک پرانا چارجر نکال کر لگا لیا۔ بیٹری ڈاؤن تھی لیکن افسوس وہ چارجر اس کو پراپر چارجنگ نہ دے سکا اوراس دن میرا موبائل بار بار آف ہوتا رہا۔ اس سے میں نے بڑا سبق سیکھا۔ ہم سب کے اندر بھی بیٹری بڑے عرصے سے چارج نہیں ہو سکی ہے۔ اسی لیے ہم ذرا ذرا سے ایشو کو لے کر ہر پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ہمیں تھوڑی سی گڑبڑ پر غصہ آنے لگتا ہے اور ہم یکدم چڑچڑے ہونے لگتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری نہیں کی۔ محبت چاہت اور پیار کا اظہار۔ یہ بہت ضروری تھا ہمیں تازہ دم اور ہمارے رویوں کو خوبصورت رکھنے کے لیے۔ لیکن بہت عرصے سے ہم نے اس ضرورت کو یکسر نظر انداز کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ جی احساس اور محبت تو دل میں ہونا چاہیے۔ کہنے کی ضرورت کیا ہے۔
آپ میں سے کسی کے شوہر بہت دنوں سے اندر سے اداس ہیں اگر چہ وہ ظاہر نہیں کرپاتے۔ صرف اس لیے کہ آپ نے ان سے بہت دن ہو گئے اظہارِ محبت نہیں کیا۔ آپ نے ان کو بتایا نہیں آپ ان کو کتنا چاہتی ہیں اور آپ ان سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ آپ کو ان کا لایا ہوا فلاں سوٹ کتنا پسند آیا اور جب آپ شہر سے باہر جاتے ہیں تو وہ آپ کو کتنا مس کرتی ہیں۔
آپ میں کسی کی وائف بہت دیر سے اس انتظار میں ہیں کہ کئی دنوں سے آپ نے انہیں سراہا نہیں۔ ان سے چاہت کا اظہار نہیں کیا۔ پلیز جلدی جائیے اور ان کو بتائیے کہ ان کے علاوہ کوئی اور اتنا اچھا آپ کا گھر نہیں سنبھال سکتا اور یہ کہ آپ ان کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتے۔
جو استاذ آپ کو روز صبح سویرے آکر اپنا بہت سارا آرام اور نیند قربان کر کے اتنی جانفشانی سے آپ کو پڑھاتے ہیں ان کے لیے ایک خوبصوت کارڈ خریدیےاوران کو بتائیے کہ آپ کو ان کے پڑھانے کا طریقہ کتنا پسند آیا اور یہ کہ آپ کی زندگی میں ان کی رہنمائی سے کتنی اچھی تبدیلیاں آئیں۔
جس فیس بک پیج کی پوسٹس آپ کو اچھی لگتی ہیں اس کو فوراً میسج کیجیے کہ آپ کی پوسٹس میرے لیے بڑی فائدہ مند ہیں اور مجھے بے حد پسند ہیں۔ جس صحافی کا کالم آپ کو اچھا لگتا ہے اس کو ضرور پیغام بھجوائیے کہ آپ کا فلاں کالم مجھے بہت پسند آیا برائے مہربانی کبھی لکھنا مت چھوڑیے۔
یاد رکھیں! اظہارِ محبت صرف اوروں کو توانائی نہیں دیتا خود آپ کے دل کا آئینہ بھی شفاف ہونے لگتا ہے۔ بس غلط فہمیوں کے کانٹے اگنے سے پہلے اظہارِ محبت کرنا شروع کریں۔
ایسا نہ ہو دیر ہو جائے! بقول جلیل مانک پوری
سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق
کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی