میں دوبارہ مسلمان ہوا


(ماخوذ کہانی)

 کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت نبیﷺ  کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا۔

چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو (جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔

اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم  کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔

یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا۔ 

کانفرنس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی.

 

  اس نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں۔ 

میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے اپنی پوری داستان سنائی جو کچھ یوں تھی۔


’’ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا۔ ہوائی جہاز میں ایک ائیرہوسٹس میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔

 ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  

میں نے بتایا۔ اسلام ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پوچھا۔ 

میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتایا۔

 پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ 

میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے۔ 

اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے (معاذاللہ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ  دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔

 آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔ جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا۔ 

یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔  ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر میں یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کا کیا بنتا ۔‘‘

 ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔کسی میٹنگز میں جب کوئی ایسی با ت کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہو جا تے ہیں۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں۔

 ایک دفعہ  میں بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس میں سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ 

کیا ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لو گو ں کو بتائیں۔ 

اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے۔ 

انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کر رہا ہو ں۔ 

 اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعارف کراتے ہیں۔

 عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں۔

 ڈاکٹر صاحب انکے جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

◀ (1) میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔  

50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی۔ 

(اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد نکاح کئے۔ 

پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہاں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟

 سب خاموش رہے ۔ 

 ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے۔

 پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں۔ 

یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ 

پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے, نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا، لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے

◀ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 

◀ (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا

 اور

◀ (4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے۔

◀ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔

دوسری شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پیشِ نظر تھا۔ 

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا، اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔  ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا شدید ترین مخالف تھا  مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔

 ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہوگیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی دلجوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔

◀  (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کا والد قبیلہ بنومصطلق کا سردار تھا۔

 یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کرکے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔

◀ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ان کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کرا دیا۔ 

◀ (8)  اسی طر ح حضرت میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا۔ 

ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آسکیں، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔

◀ (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ 

آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ 

ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

◀ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا۔ 

حضرت زید رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ و سلم کے متبنی کہلاتے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔

◀ (11)  اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی الله علیہ و سلم کی سیرت پاک ہے۔ 

آپ صلی الله علیہ و سلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِصفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد نکاح کیے۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔

 ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور ساری دنیا کے لیے  تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا۔ 

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

 اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے۔ (آمین)