میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پیارے سے چیونٹے میاں کی جو یہ سمجھتے تھے ان کا اس دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لمبی ٹانگوں والے چیونٹے کا نام مسٹر چٹابٹا تھا۔ ایک دن مسٹر چٹابٹا اپنےگھر میں بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔
اچانک ان کے گھر کی اوپر والی منزل پر رہنے والے کیچوے کی آواز آئی۔
"مسٹر چٹابٹا! اٹھ گئے؟ اف کتنا سوتے ہیں آپ۔ مجھے دیکھیں۔ میں کتنے کام کرتا ہوں۔ ابھی ابھی دو پتے تالاب والی گھاس سے گھسیٹ کر لایا ہوں۔"
مسٹر چٹابٹا نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ کیچوا اوپر والی گیلری سے نیچے صحن میں جھانک رہا تھا۔
"آں ہاں! میں بھی۔۔ میں بھی کام کرتا ہوں۔ جیسے کہ۔۔۔۔ اممم۔۔ مثلا۔۔۔!" مسٹر چٹا بٹا نے سوچنے کی کوشش کی لیکن کوئی ایسا کام ان کے ذہن میں نہ آسکا جس کو وہ فخر سے بتا سکیں۔
"ہوہوہو! بے کار چیونٹے میاں! آپ بس آرام کیا کریں۔ بھئی آپ کیا جانیں! محنت کیا ہوتی ہے۔ میں تو اکثر سوچتا ہوں بھلا آپ اس دنیا میں آئے ہی کیوں ہیں۔"
کیچوا تیز تیز بول رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گیلری میں جھاڑو بھی لگا رہا تھا۔
مسٹر چٹابٹا اداس ہو گئے۔ وہ سوچنے لگے۔
"یہ ننھا کیچوا ٹھیک ہی کہتا ہے۔ خوراک جمع کرتی ہیں تو چیونٹیاں، فوجی چھاونی بناتی ہیں تو چیونٹیاں، ملکہ اور وزیر بننا ہو تو چیونٹی، اور تو اور خطرے کا سگنل بھیجنا ہو تو تب بھی چیونٹی ہی آگے آئے۔ آخر میرا کام ہی کیا ہے یہاں۔ بس مجھے لگتا ہے مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔"
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
"ٹھک ٹھک ٹھک! ہیلو مسٹر چٹابٹا! کیا آپ گھر پر ہیں؟"
یہ ڈاکیا چیونٹی جینی تھی۔
"آں ہاں۔ آرہا ہوں۔ ایک منٹ۔" مسٹر چٹابٹا اٹھے اور آہستہ سے چلتے ہوئے دروازہ کھولا۔
"چٹا بٹا! آپ کو ۔۔۔۔۔"
"اونہہ! مسٹر چٹابٹا!"
مسٹر چٹابٹا نے منہ پھلا کر کہا۔ وہ ناراض ہو جاتے تھے جب انہیں کوئی مسٹر کہہ کر نہ بلائے۔
" سوری۔۔ اممم مسٹر چٹا بٹا! آپ کو ملکہ چیونٹی بلا رہی ہیں۔ جلدی سے میرے ساتھ چلیں۔" ڈاکیا چیونٹی، جینی ہمیشہ کی طرح جلدی ہی میں تھی۔
"اوہو! اچھا!" چٹابٹا نے سستی سے کہا۔ وہ اس وقت سونے کا سوچ رہا تھے۔
"کیا میں کپڑے بدل لوں؟"
مسٹر چٹابٹا نے نے سوچا تھا کپڑے بدلنے کے بہانے بیڈ پر تھوڑی دیر اور لیٹ جاوں گا۔
"امم۔ ملکہ ناراض ہو جائیں گی اگر آپ نے دیر کی۔" جینی نے بتایا۔
مسٹر چٹابٹا یہ سن کر سستی سے چلنے لگے۔
"ہوہوہو! بھلا ملکہ کو ایک بے کار چیونٹے سے کیا کام ہو سکتا ہے؟ ہوہوہو!" کیچوا ہنس کر بولا۔ وہ اب پودوں کو۔پانی دے رہا تھا۔
اندر ہی اندر وہ جیلس ہو رہا تھا۔
مسٹر چٹابٹا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بس چلتے رہے۔
جینی آگے آگے چل رہی تھی۔ اچانک جینی کو خیال آیا۔
"اوہ ہاں۔ مسٹر چٹا بٹا! آپ کا موبائل فون کیوں بند ہے؟"
"وہ۔۔ میں نے چارجر پر نہیں لگایا صبح سے۔"
مسٹر چٹا بٹا نے مٹی کو غور سے دیکھتے ہوئے بتایا جہاں ان کے پاوں کے چھوٹے چھوٹے نشان بنتے جا رہے تھے۔
جب وہ ملکہ وکٹر کے پاس پہنچے تو وہ کافی پریشان تھی۔
"چٹابٹا!"
"اونہہ!" چٹابٹا نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ کوئی بات نہیں سنتے تھے اگر انہیں مسٹر کہہ کر نہ بلایا جائے۔ شاید انہیں لگتا تھا کہ مسٹر لفظ میں کوئی خاص بات ہے جو انہیں انرجی اور خوشی دیتی ہے۔
"اوہ! میں بھول گئی۔ مسٹر چٹابٹا! بھورے رنگ کے دائیں ٹیلے میں ہماری فوج کی پوری چھاونی تھی۔ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ہماری فوج مٹی کے تودوں میں پھنس گئی ہے۔ امید ہے آپ اپنی لمبی ٹانگوں کی مدد سے ہماری فوج کو نکالنے میں مدد کریں گے۔"
چٹابٹا نے یہ سن کر ایک دم فخر سا محسوس کیا۔
"کیوں نہیں! کیوں نہیں!" وہ جوش بھری آواز میں بولے۔
اس سے پہلے وہ ہر وقت یہی سوچتے رہتے تھے کہ پتہ نہیں وہ اس دنیا میں کیوں آئے ہیں اور یہ کہ ان کے زندہ رہنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا۔
لیکن اب کی بات اور تھی جناب! اب تو ملکہ نے انہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپ دی تھی۔
"مجھے جلد از جلد ان چیونٹیوں کی مدد کرنی چاہیے۔"
چٹابٹا نے دل ہی دل میں کہا۔ پھر وہ مڑے اورتیز قدموں سے چل کر ٹیلے کی جانب گئے۔ انہوں نے دیکھا۔ کافی ساری مٹی نے چیونٹیوں کے نئے نئے بنائے سارے گھر توڑ ڈالے تھے۔ پھر طوفان اور بارش۔
"اوہ خدایا! یہاں تو بڑی مشکل میں ہیں چیونٹیاں۔"
وہاں چیونٹیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
"کوئی ہے جو ہمیں نکالے۔"
"اوہ خدایا میرا سانس رک رہا ہے۔"
"مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔"
"مجھے۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں سانپ نہ آجائے۔"
"آں ہاں سانپ بارش کے بعد زمین پر آجاتے ہیں ناں۔"
چیونٹیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ وہ بھوکی، تھکی ہوئی اور ڈری ہوئی لگتی تھیں۔
"فکر مت کرو۔ میں آگیا ہوں!" چٹابٹا نے نعرہ لگایا اور اپنی لمبی لمبی ٹانگوں سے اتنا تیز تیز مٹی ہٹانے لگے جتنا تیز وہ ہٹا سکتے تھے!
جیسے جیسے مٹی ادھر ادھر ہوتی گئی، چیونٹیاں آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے باہر نکلنے لگیں۔
"شکریہ بہت شکریہ انکل!" کئی ننھی چیونٹیوں نے جھک کر مسٹر چٹابٹا کو شکریہ کہا۔
"ارے کوئی بات نہیں۔ یہ تو میرا فرض تھا۔" چٹابٹا نے بھی اپنے اینٹینا کو تھوڑا سا جھکا کر کہا۔ وہ بہت خوش تھے۔ اتنے خوش جتنا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔
لیکن! ابھی مسٹر چٹابٹا کے لیے ایک اور سرپرائز باقی تھا!
ابھی وہ وہیں ٹیلے کے پاس بیٹھے اپنے جاگرز صاف کر رہے تھے کہ وہی ڈاکیا چیونٹی، جینی چلی آئی۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
"چٹا بٹا آپ کو۔۔"
"اونہہ! مسٹر چٹا بٹا!"
"آں یس یس! مسٹر چٹا بٹا! آپ کو ملکہ بلا رہی ہیں۔"
"وہ کیوں؟ میں تو خاصا تھک گیا ہوں اب۔ اور گھر جا کر لمبی تان کر سونا چاہتا ہوں۔"
چٹا بٹا نے ایک لمبی جمائی لی اور کھڑے ہو گئے۔
" ہاں مسٹر چٹابٹا لیکن ملکہ نے آپ کو فورا بلایا ہے۔ شاید وہ۔۔ آپ کو کوئی انعام دینا چاہتی ہوں؟"
جینی نے سوچتے ہوئے کہا۔
"انعام! اچ۔۔۔ ھا! چلو۔ چل کر ہی پتہ لگے گا۔"
چٹابٹا نے اچھی طرح جوگرز ایک پتھر سے رگڑے۔ سب جانتے تھے مسٹر چٹابٹا بہت صفائی پسند ہیں اور وہ مٹی کا ایک ننھا سا ذرہ بھی اپنے جوتوں پر دیکھنا نہیں چاہتے۔
"جی مسٹر چٹابٹا! میں معذرت چاہتی ہوں میں نے آپ کو دوبارہ یہاں آنے کی تکلیف دی۔ لیکن میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتی تھی۔ پلیز میرے ساتھ آئیں۔"
ملکہ چیونٹی نے کہا تو چٹابٹا خاموشی سے اس کے پیچھے چلنے لگے۔
جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے، تین ننھے منے چیونٹے چٹابٹا کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔
"آہا! دادا ابو آگئے۔ دادا ابو۔ میرے دادا ابو!"
یہ چیونٹے ابھی تین دن پہلے پیدا ہوئے تھے۔ مسٹر چٹابٹا ان کے ابو کے ابو تھے۔
بچو! میں آپ کو کیسے بتاوں کہ اس وقت۔۔۔ اس ایک لمحے میں ہمارے چٹابٹا نے کیسی خوشی محسوس کی!
"آہا! یہ دادا بننا کتنی خوشی کی بات ہے! آہا میرے پیارے ننھے منے پوتے!!"
مسٹر چٹابٹا نے اپنے پوتوں کو خوب پیار کیا اور انہیں کھانے کے لیے اپنی جیب سے چینی کے تین ذرے نکال کر دیے۔
"ہوہوہو! کیا واقعی آپ دادا ابو بن گئے ہیں؟" جب مسٹر چٹابٹا گھر پہنچے تو کیچوے نے ہنس کر کہا۔
"جی ہاں۔ پورے تین پوتے ہیں میرے۔ تین!" مسٹر چٹا بٹا نے اپنی تین ٹانگیں اٹھا کر فخر سے بتایا۔
"اور یہ دیکھو! ملکہ نے مجھے یہ شیلڈ بھی دی ہے ٹیلے والی چیونٹیوں کی مدد کرنے کے لیے۔"
مسٹر چٹابٹا نے دیوار کے ساتھ بنے ریک میں رکھی ہوئی سنہری شیلڈ کی طرف اشارہ کیا۔
مارے جیلسی کے کیچوا کچھ اور نہ کہہ سکا اور اس نے کھٹ سے گیلری کا دروازہ بند کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلا بتاو بچو! کیا مسٹر چٹابٹا ٹھیک سوچتے تھے کہ میرا اس دنیا میں کوئی کام نہیں؟ جی نہیں! مسٹر چٹا بٹا تو چیونٹیوں کی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
اور ان کی لمبی ٹانگیں بھی تو کتنی فائدے کی ہیں! کئی سو چیونٹیوں کی جان بچ گئی جب مسٹر چٹابٹا نے اپنی لمبی ٹانگوں سے ٹیلے کی مٹی کھود کر انہیں باہر نکالا۔
بچو! ہمارے مسٹر چٹابٹا اب بہت خوش رہتے ہیں۔ ویسے مجھے امید ہے آپ اگر ان کے گھر کے پاس سے گزریں گے تو آپ کو ان کے کچن کی کھڑکی سے چاکلیٹ کیک کی ہلکی ہلکی خوشبو ضرور آئے گی۔ یہ خوشبو مسٹر چٹابٹا کے اوون سے آرہی ہے اور یہ مزیدار کیک مسٹر چٹابٹا اپنے پوتوں کے لیے بنا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ خاص طور پر، اوپر والی منزل رہنے والے کیچوے کو سنانے کے لیے یہ شعر گنگنا رہے ہیں۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں