مانی شانی نے عیادت کی


’’آج پھر ریحان سکول نہیں آیا۔نہ جانے کیا بات ہے؟‘‘ مانی نے شانی سے کہا۔ وہ لنچ کرنے کے بعدکمرۂ جماعت میں واپس جا رہے تھے۔ ریحان ان دونوں کا ہم جماعت اور گہرا دوست تھا۔
’’ریحان...؟ وہ تو بیمار ہے۔بہت دنوں سے اسے تیز بخار ہے۔ ‘‘ یہ بلال تھا۔ اس نے قریب سے گزرتے ہوئےمانی کی بات سن لی تھی۔ بلال ریحان کا پڑوسی تھا۔
’’
اوہ! کب سے؟‘‘ دونوں کے منہ سے نکلا۔
’’
چار دن سے۔ اب کچھ بہتر ہے۔شاید پیر سے سکول آنے لگے۔‘‘ بلال نے بتایا اور اپنے کرسی کی جانب بڑ ھ گیا۔


چھٹی کے وقت تک شانی اور مانی فیصلہ کر چکے تھے کہ انہیں ریحان کے گھر تیمارداری کے لیے جانا چاہیے۔
مانی اور شانی جڑواں بھائی تھے۔ ان کی عمر دس سال تھی اور وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔
شام کو انہوں نے امی جان سے اجازت لی اور ریحان کے گھر کی جانب چل دیے۔ان کا پالتو توتا مٹھو ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ تھا۔ وہ باتیں کرنے والا توتا تھا اور خوب باتیں کرتا تھا۔ امی نے انہیں پھلوں کا ایک شاپر بھی پکڑا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کسی بیمار کے گھر اس کا حال پوچھنے جائیں تو کبھی خالی ہاتھ نہ جائیں۔ راستے بھر مٹھو کی کوشش رہی کہ کسی طرح امرودوں سے بھرے شاپر پر ایک آدھ چونگ تو مار ہی لی جائے۔وہ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ امی جان نے مانی شانی کو منع کیا تھا کہ جگنو کو ساتھ نہ ہی لے کر جائیں لیکن مانی شانی کی یہ پرانی عادت تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے مٹھو ہمیشہ ہی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ سو آج بھی ایسا ہی تھا۔
ریحان کا گھر تین گلیاں چھوڑ کر آخری گلی میں واقع تھا۔دروازے کے سامنے پہنچ کر شانی نے پھلوں کا شاپر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا اور اچک کر گھنٹی بجائی۔
’’
ٹین ن ن ن ٹرین ن ن ‘‘
گھنٹی کی آواز سنتے ہی مانی کے کندھے پر بیٹھامٹھو ایک دم بولنے لگا۔
’’
کون ہے؟ کون ہے؟کون ہے؟‘‘
مانی نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی ۔ اتنے میں ریحان کی امی نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مانی شانی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اندر لے گئیں۔

آنٹی اسے ریحان کے کمرے میں لے آئیں ۔ ریحان ابھی سو کر اٹھا تھا اور اب کافی بہتر لگ رہا تھا۔
’’
کیسے ہو ریحان؟ ہم پریشان ہو رہے تھے تمھاری بیماری کا سن کر۔‘‘ مانی نے کہا تو شانی نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
’’
سر سلیمان بھی تمھارا پوچھ رہے تھے۔‘‘ شانی نے بتایا تو ریحان اداس سا ہو گیا۔سر سلیمان ریاضی کے استاد تھے اور ریاضی ریحان کا پسندیدہ مضمون تھا۔
’’
ہاں ! بس میں جلد ہی سکول آؤں گا ۔ ‘‘ اس نے کہا تو مانی شانی ایک ساتھ بولے۔
’’
انشاء اللہ!‘‘
ابھی مانی شانی ریحان کو ہفتۂ کھیل کے بارے میں بتا رہے تھے کہ مٹھو شانی کے کندھے سے اڑ کر الماری پر پڑے ایک جگ پر جا بیٹھا۔ یہ گول مٹول سا شیشے کا مرتبان تھاجس میں ایک پیاری اور ننھی سی سرخ مچھلی تیر رہی تھی۔ کبھی وہ دائیں جانب تیرتی کبھی بائیں جانب اور کبھی تیزی سے اوپر کی طرف آتی۔ جیسے ہی مٹھو مرتبان کے کنارے آکر بیٹھا تو مچھلی پریشانی سے رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
شانی اور مانی ہاتھ کے اشارے سے مٹھو کو واپس بلارہے تھے۔ جب الماری اونچی ہونے کے باعث ان کا ہاتھ مٹھو تک نہیں پہنچ پایا تووہ ساتھ ہی ساتھ چلانے بھی لگے۔

’’
مٹھو واپس آؤ۔ مٹھو نہیں... مٹھو واپس... مٹھو ادھرآؤ!‘‘
ریحان بھی گھبرا کےاٹھ بیٹھا۔اس نے امی کو بلایا۔
’’
امی.... امی!!!‘‘
اس شور شرابے سے گھبرا کر مٹھو نے اڑنا چاہا تو اس کا پاؤں پھسلا اور مرتبان لڑھک گیا۔ مچھلی نیچے جا گری اور پانی شڑاب کی آواز کے ساتھ فرش پر پھیل گیا۔ مچھلی بری طرح تڑپنے لگی تو ریحان بستر سے نکل کر اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھا۔ جیسے ہی وہ مچھلی کے قریب آیا پانی کی وجہ سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گیا۔
’’
آاا! آہ...!‘‘ ریحان کی پیشانی کرسی کے ساتھ جا لگی تھی۔مانی اور شانی جو ابھی تک مٹھو کو پکڑنے کی کوشش میں مصروف تھے ، ریحان کی چیخ سن کر فوراً اس کے پاس آئے اور اسے اٹھانے لگے۔
امی بریانی کو دم لگا کر کمرے میں آئیں تو کمرے میں پھیلی اس ہڑبونگ کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ پھر وہ ساری صورتحال سمجھ گئیں ۔ انہوں نے جلدی سے مچھلی کو مرتبان میں واپس ڈالا اور ہاتھ میں پکڑے پانی کے جگ سے مزید پانی مرتبان میں ڈال دیا۔ بے چاری مچھلی اس ساری مصیبت سے ہلکان ہو گئی تھی۔

اتنے میں مانی اورشانی ریحان کو اٹھا کر بستر پر لٹا چکے تھے۔ اس کی پیشانی پر نیل پڑ گیا تھا۔ آنٹی نے پہلے مانی اور شانی اور پھر مٹھو کو دیکھا جو اس سب سے بے نیاز کھڑکی میں بیٹھا جامن کے درخت کوللچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
جب آنٹی ریحان کی پیشانی پر مرہم لگا چکیں تو انہوں نے بہت پیار سے کہا۔
’’
پیارے بچو! آپ کو مٹھو کو ساتھ لے کر نہیں آنا چاہیے تھا۔ ‘‘
مانی شانی خاموش تھے۔ مارے شرمندگی کے انہیں کوئی جواب نہ سوجھا۔
آنٹی مسکرانے لگیں اور کہنے لگیں۔
’’
اچھا چلو آپ لوگ باتیں کرو۔ میں جوس لے کرآتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلی گئیں۔
مانی نے شانی کو دیکھا ۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ باتیں کیں پھر ریحان سے کہنے لگے۔
’’
ریحان یار ۔ سوری۔ ہماری وجہ سے تمھیں مشکل اٹھانی پڑی۔‘‘
’’
کوئی بات نہیں۔ مجھے پیاس لگ رہی ہے۔ مانی پلیز مجھے کچن سے پانی لا دو۔‘‘ ریحان نے کہا تو مانی فوراً کھڑا ہو گیا۔
’’
ہاں ہاں میں لاتا ہوں۔‘‘

وہ کچن میں گیا تو آنٹی وہاں نہیں تھیں۔ اس نے فریج کھولی تو سامنے گلاس میں انار کا جوس رکھا تھا۔ مانی نے سوچا ۔ پانی سے تو اچھا ہے ریحان کو انار کا جوس پینا چاہیے۔ امی کہتی ہیں اس سے خون بنتا ہے اورجسم میں طاقت آتی ہے۔ اس نے گلاس اٹھا یا اور ریحان کے کمرے میں چلا گیا۔
’’
ارے ! انار کا جوس۔ میرا پسندیدہ۔ ‘‘ ریحان نے کہا اور گلاس لے کر غٹاغٹ پی گیا۔ مانی نے فخریہ نظروں سے شانی کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔ دیکھا یوں خدمت کرتے ہیں اور تم سے ایک توتا نہیں پکڑا گیا۔
باتوں کے دوران اچانک شانی کو یاد آیا۔
’’
ہاں ریحان۔ پیر کو اردو کا ٹیسٹ ہے۔باب نمبر تین آئے گا۔ سر مبین نے سختی سے کہا ہے کسی کے نمبر کم نہیں آنے چاہیں۔‘‘
’’
اوہ۔۔۔ اوہ! میں تو سکول گیا ہی نہیں چار دن سے ۔ میرے پاس باب تین کے نوٹس نہیں ہیں۔ اب میں کیا کروں گا۔ سر مبین تو اتنا ڈانٹتے ہیں ناں۔۔‘‘ ریحان یہ کہتا کہتا روہانسا سا ہو گیا ۔
’’
ہمم! کوئی بات نہیں تم بتا دینا کہ تم بیمار تھے۔‘‘ شانی نے اسے تسلی دی لیکن ریحان مزید پریشان ہو گیا۔
’’
نہیں سر کسی کی بات نہیں سنتے۔‘‘ وہ سر مبین کی ڈانٹ سوچ کر ہی رونے لگا۔ اب اسے گلے میں بے تحاشا درد بھی محسوس ہو رہا تھا۔
آنٹی جب جوس اور سوپ لے کر کمرے میں داخل ہوئیں تو ریحان کا رو رو کر برا حال تھا اور مانی اور شانی اس کے دائیں بائیں بیٹھے چپ کروانے میں مصروف تھے۔
’’
ارے کیا ہوا بیٹا؟‘‘ ریحان کی امی ٹرے تپائی پر رکھ کر فوراً بیڈ پر بیٹھ گئیں اور ریحان کو پیار کرنے لگیں۔ ریحان نے رونا بند کر دیااور بتایا ۔
’’
امی وہ پیر کو ٹیسٹ ہے اور میری تو تیاری ہی نہیں ہے۔‘‘
’’
تو کوئی بات نہیں بیٹا۔ میں آپ کےساتھ جاؤں گی اور سارے ٹیچرز سے مل کر آؤں گی۔‘‘ امی نے کہا تو ریحان کو تسلی ہو گئی۔ سوپ پلا کر امی نے ریحان کو دوا کھلائی پھر لٹا دیا۔ شانی مانی بھی ریحان اور اس کی امی کو خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ گھر پہنچے تو دادو ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
’’
آگئے میرے بچے! کہاں گئے تھے؟ میں کب سے تمھارے لیے بادام کا حلوہ لیے بیٹھی ہوں۔‘‘ دادو نے پیار سے کہا اور ٹفن کھول کر ان کو حلوہ دینے لگیں۔

’’
دادو ہم اپنے دوست ریحان کے گھر گئے تھے۔وہ بیمار ہے ناں۔تو ہم اس کا حال پوچھنے گئے تھے۔‘‘ مانی نے بتایا۔
’’
اچھا پھر؟ اس کی طبیعت کیسی ہے اب؟‘‘ دادو نے پوچھا۔
’’
دادو! اب وہ ٹھیک ہے لیکن .... مٹھو کی وجہ سے ... وہ...‘‘ شانی نے بتانا چاہا تو مانی اشارے کرنے لگا۔
’’
ناں ناں۔۔ نہیں بتانا۔‘‘
لیکن مانی کے پیٹ میں مشکل سے ہی کوئی بات ٹک پاتی تھی۔ اس نے دادو کو وہاں کی پوری روداد سنا دی۔
’’
ہممم! تو یہ بات ہے۔‘‘ دادو نے ہنکارا بھرا۔ پھر کہنے لگیں۔
’’
بیٹا! پہلی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کو مٹھو کوساتھ لے کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’
دادو میں نے اسے کہا تھا لیکن یہ نہیں مانا۔‘‘ شانی نے مانی پر الزام لگایا۔
’’
جی نہیں ! میں نے کہا تھا کہ مٹھو کو ساتھ نہیں لے کر جاتے لیکن تم نہیں مانے۔‘‘ مانی کہاں پیچھے رہتا۔
’’
اچھا بس! اب آپ لڑائی نہ کریں۔ بلکہ میر ی بات غور سے سنیں۔ جب بھی ہم کسی بیمار کے گھر اس کا حال چال پوچھنے جائیں تو ہمیں اپنے پالتو جانور یا پرندہ ساتھ لے کر نہیں جانا چاہیے۔ بھلا ایک پرندے کو کیسے سمجھ ہو سکتی ہے۔بیمار انسان کی، جتنا ہو سکے خدمت کرنی چاہیے۔ مانی آپ نے مدد تو کی لیکن آپ نے ریحان کو انار کا جوس پلا دیا جس سے اس کے گلے میں دوبارہ سے درد ہونا شروع ہو گیا۔ ‘‘ مانی نے یہ سنا تو شرمندگی سے سر جھکالیا۔ اس لحاظ سے تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
دادو کہہ رہی تھیں۔ ’’پھر آپ لوگوں نے اس کو ٹیسٹ کے بارے میں بتا کر پریشان کر دیا۔ ایسے نہیں کرتے۔ بیمار لوگ پہلے ہی حساس ہو جاتے ہیں ہمیں ان کا دل خوش کرنا چاہیے اور انہیں تسلی دینی چاہیے۔پیارے نبی پاک ﷺ نے ہمیں یہی دعا سکھائی ہے کہ جب ہم عیادت کرنے جائیں تو مریض سے کہیں۔
لاَ بَأْسَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
کوئی بات نہیں۔ یہ بیماری تو تمھیں (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے ۔
ٹھیک ہے میرے بچو! ‘‘ دادو نے پوچھا تو مانی شانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔
’’
ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے!‘‘ یہ مٹھو تھا۔ وہ بھی غور سے دادو کی باتیں سن رہا تھا۔
دادی جان نے مٹھو کے پنجرے میں تھوڑا سا حلوہ رکھا اور کمرے میں چلی گئیں۔