جہاز مل گیا


جیسے ہی فاتی اور بلو گھر میں داخل ہوئے، حیران رہ گئے۔ پورے گھر کی سیٹنگ بدل چکی تھی۔ بھیا  مالی انکل کے ساتھ پچھلے والے باغ میں مصروف تھے۔ پورا گھر چمک رہا تھا۔ امی کچن میں تھیں اور  مزیدار کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔
’’فاتی اور بلو بیٹا! جلدی سے کپڑے بدل لو۔ آپ کی دادی جان آرہی ہیں۔ ‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’یا ہو!‘‘ فاتی اور بلو نے خوشی سےنعرہ لگایا۔


سہ پہر کو گھنٹی بجی۔ فاتی نے دوڑ کر دروازہ کھولا۔ دادی جان اور چاچو سامنے کھڑے تھے۔ ’’دادی جان!  چاچو ! السلام علیکم! ‘‘ فاتی اور بلو نے بیک وقت کہا ۔
دادی جان  نے دونوں کو بہت پیار کیا۔پھر وہ امی جان سے گلے  ملیں۔ چاچواور ابوجان دادی جان کا سامان اٹھا کر اندر لانے لگے۔
’’دادی جان! اب آپ واپس امریکہ تو نہیں چلی جائیں گی؟‘‘ بلو نے پوچھا۔
’’دادی جان ! آپ اب ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں گی ناں!‘‘ فاتی نےبھی بےچینی سے پوچھا۔ دادی جان ہنس پڑیں۔ دونوں اس وقت رات کا کھانا کھا کر دادی جان کے کمرے میں تھے۔
’’ہاں! بیٹا! اب میں آپ سب کے ساتھ رہوں گی۔‘‘ یہ کہ کر انہوں نے دونوں کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’داد ی جان! میرا نیا پین نہیں مل رہا۔‘‘ یہ بلو تھا جو اپنا پین ڈھونڈ رہا تھا ۔ اب پریشانی سے دادی جان کے پاس آیا تھا۔
’’ادھر ہی ہو گا۔ چلو آؤ ! میں تمھارے ساتھ ڈھونڈتی ہوں۔‘‘ دادی جان نے پیار سے کہا اور اسے لے کر پڑھائی والے کمرے  میں آگئیں۔
 بلو میز کے نیچے تلاش کرنے لگا جبکہ دادی جان کرسی پر بیٹھ کر دراز و ں میں ڈھونڈنے لگیں۔ بلو نے دیکھا ساتھ ساتھ وہ منہ ہی منہ وہ کچھ پڑھتی بھی جارہی تھیں۔
ابھی بلو کتابوں کے شیلف میں دیکھ ہی  رہا تھا کہ اچانک دادی جان کی آواز آئی۔
’’الحمدللہ! یہ دیکھو بلو بیٹا! آپ کا پین مل گیا۔ یہ اس فائل کے اندرپڑا ہوا تھا۔‘‘ دادی جان نے یہ کہ کر ایک فائل دراز سے نکال کر باہر رکھ دی۔
’’اوہ! ! دادی جان! ‘‘ بلو کے منہ سے نکلا۔ ’’شکریہ دادی جان! آپ بہت اچھی ہیں۔‘‘ بلو نے کہا تو دادی جان مسکرانے لگیں۔
’’اچھا چلو! آؤ! اب سو جاؤ۔ صبح سکول بھی جانا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاتی ! تمھیں  پتہ ہے۔ دادی جان کے  پاس جادو ہے۔ ‘‘ سکول میں بریک  کے دوران  بلو نے فاتی سے کہا۔
’’ہیں!  ‘‘ فاتی حیران ہوئی تو بلو کہنے لگا۔
’’ہاں ناں! تمھیں پتہ ہے میرا نیا والا پین اتنے دنوں سے کھویاہوا تھا۔ کل میں نے سوچا آج تو ڈھونڈ کر چھوڑوں گا۔ لیکن اتنا تلاش کیا ۔ ملا ہی نہیں ۔ پھر میں نے دادی جان سے مدد لی۔ وہ کمرے میں آئیں اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگیں۔ تو ناں! پتہ کیا ہوا!‘‘ بلو نے کہا تو فاتی کے تجسس کی انتہا نہ رہی۔
’’بتاؤ ناں!‘‘
’’دراز میں جو سبز والی فائل ہے اس میں سے پین نکل آیا۔ ‘‘ بلو نے کہا تو فاتی کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی۔
’’ہیں! اچھا! ٹھیک ہے۔ پھر تو دادی جان میرانیلا جہاز بھی ڈھونڈ دیں گی۔وہ جو ناصر ماموں لائے تھے اورعید کے دنوں میں گم  ہو گیا تھا۔  ہیں ناں!‘‘ فاتی نے جوش سے کہا تو بلو نے بھی سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب دادی جان  برآمدے والے تخت پر بیٹھی چائے پی رہی تھیں توفاتی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’دادی جان!  آپ کے پاس جادو ہے ناں! آپ نے بلو کا پین بھی ڈھونڈ دیا ہے۔ اب میرا نیلا والاجہاز بھی ڈھونڈ دیں پلیز! ‘‘ اس نے جلدی جلدی  سے کہا تو دادی جان ہنس پڑیں۔
’’اچھا! آپ کا جہاز کہاں گم ہوا تھا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ام م م ! دادی جان ! میرے کمرے میں۔ میں نے تو بیڈ کے نیچے دیکھا اور الماری کے اندر سب خانوں میں بہت بار ڈھونڈا۔ لیکن نہیں ملا۔ وہ مجھے ناصر ماموں نے دیا تھا ناں اور مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ ‘‘ فاتی نے اداسی سے بتایا۔
’’اوہ! کوئی بات نہیں میرے بچے! ابھی مل جائےگا۔‘‘ یہ کہ کر انہوں نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا اور فاتی کو لے کر اس کے بیڈروم میں چلی گئیں۔
سب سے پہلے انہوں نےفاتی کے کھلونوں والی ٹوکری میں دیکھا پھر اس کی الماری میں۔ پھر انہوں نے اس کا بیڈ تھوڑاسا سرکایا تو اس کے پیچھے  پردے میں اٹکا ہوا جہاز نیچے گر پڑا۔
’’اوہ! دادی جان! زندہ باد! میرا جہاز مل گیا! میرا جہاز مل گیا!!! ‘‘ فاتی نے نعرہ لگایا اور دوڑتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
’’امی جی! امی جی! دادی جان کے پاس توواقعی جادو ہے۔ انہوں نے میرا نیلا جہاز ڈھونڈ دیا اور بلو کا نیا پین بھی۔ ‘‘
امی جان مسکرانے لگیں ۔ دادی جان بھی مسکرا رہی تھیں کیونکہ وہ  فاتی کی ساری بات اس کے پیچھے آتے ہوئے سن چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاتی اور بلو! بیٹا! میرے پاس کوئی جادو نہیں۔ ‘‘ رات کو جب فاتی اور بلو کہانی سننے ان کے کمرے میں پہنچے تو دادی جان نے کہا۔
’’لیکن آپ وہ جو کچھ پڑھ رہی ہوتی ہیں وہ کیا تھا ؟‘‘ بلو نے تجسس سے پوچھا۔
’’ارے وہ !‘‘ دادی جان کو ہنسی آگئی ۔ انہوں نے دونوں کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہنے لگیں۔’’ میں دراصل وہ دعا پڑھتی ہوں جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈنے کے لیے بتلائی ہے۔ اور وہ یہ ہے:
اَلّٰھُمَّ رآدِّ الضّآلَّتِ وَ ھَادِیَ الضَّلَالَت ِاَنْتَ تَھْدِیْ مِنَ  الضَّلَالَتِ اُرْدُدْ عَلَیَّ ضَآلَّتِی بِقُدْرَتِکَ وَ سُلْطَانِکَ فَاِنَّھَامِنْ عَطَائِکَ وَ فَضْلِکَ  ( حصن حصین، مجموعہ وضائف)
ترجمہ: اے اللہ! کھوئی ہوئی چیزوں کو واپس لانےوالے اور بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے والے، تو ہی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھاتا ہے۔ تو اپنی قدرت اور طاقت سےمیری کھوئی ہوئی چیز مجھ کو واپس دلا دے، اس لیے کہ وہ چیز تیری ہی دی ہوئی ہے اور تیرے ہی انعام اور فضل سے ہے۔
’’دادی جان! یہ دعا تو اتنی پیاری ہے ۔ اس سے تو ہماری گمی ہوئی چیزیں مل گئی ہیں۔ آپ ہمیں بھی یہ دعا یاد کروا دیں ناں۔ ‘‘ فاتی اور بلو نے کہا۔
’’ٹھیک ہے بیٹا! کیوں نہیں!‘‘ دادی جان نے کہا اور ان کو دعا یاد کروانے لگیں۔