ہماری کہانیوں میں پائی جانے والی فاش روایتی غلطیاں



"جیسے ہی احمد کی اعلی تعلیم مکمل ہوئی، اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی۔"
یہ جملہ میں نے ان گنت کہانیوں میں پڑھا ہے۔ اور یہ حقیقت سے اتنی ہی دور ہے جتنی کہ آج کے نوجوانوں سے اچھی نوکریاں۔
کیا ہم کہانیوں میں اپنے کرداروں کو بزنس کرتے نہیں دکھا سکتے؟ کوئی چھوٹا سا کاروبار کہ ہر کاروبار شروع کرتے وقت چھوٹا ہی ہوتا ہے۔ کوئی اپنا کام۔ کوئی ٹھیلہ۔ یہ نوکری کرنا کب سے فخر کی بات ہے۔ جی۔ تب سے جب سے ہم انگریزوں کے نوکر تھے۔ تبھی سے ہمارے غلام اذہان میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی کہ اچھی نوکری مل گئی تو زندگی بن گئی۔
جی نہیں۔ اس راسخ عقیدے کو دل سے اور اپنی کہانیوں سے نکال باہر کریں۔ زندگی اللہ کے مل جانے سے بنتی ہے اللہ سے دور جانے سے بگڑتی ہے۔ اللہ کاسب کا یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرنے والے کا یعنی اپنا کام کرنے والے کا دوست ہوتا ہے۔
کیوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم بتا کر گئے کہ تجارت میں برکت ہے۔ کیوں کہیں نوکری کی اتنی فضیلت و اہمیت نہیں بتائی گئی جتنی کہ ہم نے اپنی کہانیوں میں بنا لی ہے۔
ہمارا ہر ہیرو یا فرم میں نوکر ہوتا ہے یا کمپنی میں یا بنک میں یا فیکٹری میں۔ خدایا! ہمارا ہیرو اپنا کاروبار کیوں نہیں شروع کرتا؟؟

ہمارا ہیرو ایک چھوٹا سی ریڑھی یا ایک چھوٹی سی دکان کیوں نہین ڈالتا؟؟ ہمارا ہیرو آن لائن فری لانسر کیوں نہیں بنتا؟ ہمارا ہیرو تازہ پھل اور سبزی منڈی سے لا کر منافع پر کیوں نہیں بیچتا؟ ہمارا ہیرو گرافک ڈیزائنر لوگو میکر کانٹینٹ رائٹر بھی تو ہو سکتا ہے؟ یوٹیوب پر مفید ڈاکیومنٹریز بھی تو بنا سکتا ہے۔
لیکن ہمیں اندر سے۔۔ بہت ہی اندر سے۔۔ بلکہ بہت ہی پیچھے سے کر کے۔۔ ہمارے ڈی این میں۔۔ یہ بات باور کروادی گئی ہے کہ نوکر ہونا فخر کی بات ہے۔
جی نہیں۔ نوکری کرنا اجرت پر کام کرنا ہے۔ جبکہ اپنا کام کرنا بادشاہی ہے۔ میں ان لوگوں کو منفی نہیں کہہ رہی ہوں جو جاب کرتے ہیں۔ وہ جاب کرتے رہیں۔ اچھی بات ہے۔ میں کہانیوں میں اس تاثر کو اس جملے کو ختم کرنا چاہتی ہوں کہ جیسے ہی احمد کی اعلی تعلیم مکمل ہوئی، اسے ملٹی نیشنک کمپنی میں نوکری مل گئی۔ مطلب بات ختم۔ اگر رائٹر یہاں کردار کو اپنا کام اپنا کاروبار شروع کرواتا تو اسے سوچنا پڑتا، کچھ سرچ کرنی پڑتی، خیالات کے جوڑ توڑ کرنے پڑتے تو اسے آسان لگا کہ بس یہی لکھ دوں کہ نوکری مل گئی۔
یہ جو نئی جنریشن ہے یہ اب ہر جملے کو سیریس لیتی ہے۔ایک سترہ سال کا لڑکا یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کہانی میں جس اعلی تعلیم کا ذکر ہوا ہے وہ کیا ہے؟ جس نوکری کا ذکر ہوا ہے وہ کیسے اتنی جلدی مل جاتی ہے؟ جس کمپنی کا ذکر ہوا ہے وہ کون سے ہے؟
تو یہ جنریشن 2022 کی ہے اور مجھے اور آپ کو ان کے حساب سے انہی کے زمانے سے کہانی لکھنی ہے۔
اگر آپ ان پوائنٹس میں سے کسی ایک پر کہانی لکھ سکیں تو ضرور لکھیں اور مجھے بھیجیں۔ میں بہت احترام کے ساتھ اپنے بلاگ پر لگانا چاہوں گی۔
کہانی کے پوائنٹس:
۔ ایسا کردار جو تعلیم مہنگی ہونے کی وجہ سے مکمل نہیں کر سکا پھر اس نے ہول سیل ریٹ پر کپڑے لا کر بیچنا شروع کیے اور منافع اور۔بچت بڑھنے پر اپنی شاپ اوپن کرنے لگا ہے
۔ ایسا کردار جو بی ایس سافٹ وئیر انجینئر ہے، ایکسیڈنٹ میں اس کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی لیکن اس نے فری لانسنگ شروع کی اور اپنا خرچہ نکال لیتا ہے
۔ پانچ دوستوں کا گروپ جنہوں نےماسٹرز تک تعلیم مکمل کے نوکریوں کی تلاش لی بجائے، اپنا سکول سسٹم کھولا اور روایتی طریقہ تعلیم سے ہٹ کر بچوں کی سوچ اور فکر میں تبدیلی لا رہے ہیں۔
۔ ایسی خاتون جنہوں نے رزق حلال کمانے میں میاں کا ساتھ دینے کا سوچا اور واٹس ایپ فیس بک پر بیڈ شیٹس کی تصاویر اپ لوڈ کیں۔ اس میں انہیں بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے
۔ ایسا ایک بچہ جو دن کو ایک ورک شاپ میں گاڑیاں صاف کرتا ہے شام کو پارک میں غبارے بیچتا ہے، بہن بھائی کا خیال رکھتا ہے اور اپنی ہمت و طاقت کے ساتھ زندگی کی حقیقتوں سے خوب جم کر لڑ رہا ہے
۔ ایسی سٹوڈنٹ جس نے یونیورسٹی جائن تو کر لی ہے لیکن اس کے پاس اگلے سمسٹر کی فیس جو کہ پجاس ہزار ہے، دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ اس نے اپنی امی کی مدد سے ہوم میڈ فوڈ کا کام شروع کیا ہے۔
۔ ایسا سٹوڈنٹ جو یونیورسٹی سے فارغ وقت میں اوبر یا کریم چلا کر رزق حلال کما رہا ہے
۔ ایسا سٹوڈنٹ جو شام کو سائیکل ٹھیک کرنے کی دکان پر بیٹھ جاتا ہے اور کام سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے مستقبل میں وہ ریسنگ سائیکلز کا اپنا شوروم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہو گا میں نے کسی بھی پوائنٹ میں یہ نہیں لکھا کہ کردار نے اپنا کوئی سا کام چاہے وہ آن لائن ہو یا مارکیٹ میں، شروع کیا اور ایک ہی مہینے میں ہزاروں لاکھوں کمانے لگ گیا۔ نہیں۔ بالکل نہیں۔ یہ خواب مت دکھائیے گا۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ نوجوان نسل کو گلمیر کی بجائے حقیقت بتلائیے، سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے سچ دیکھنا سکھائیے۔ جب ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں تو کیا ہم ایک ہی ماہ میں لاکھوں کماتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا ناں۔ تو پھر کہانیوں میں بھی کھول کھول کر لیکن موٹیویشنل انداز میں بندے کی ان مشکلات کو بیان کریں جن کا اسے اپنے کاروبار کو شروع کرتے وقت سامنا کرنا پڑا، تاکہ شارٹ کٹ کا جو کلچر ہماری جنریشن میں رواج پا رہا ہے وہ اس سے نکل سکیں۔