اٹھارہ اپریل 2018



جب میں نے قرآن پاک پڑھا تو میرا سارا غم ساری بے چینی ختم ہو گئی۔ اس وقت پہلی بار مجھے بارہا پڑھی ہوئی اس آیت کا ترجمہ اچھی طرح سمجھ میں آ گیا۔
"جان لو اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔"
آپ نہیں سوچ سکتے کہ آپ خود کتنا جی لیں گے۔ جیسے ہمارے اپنے چلے جاتے ہیں ویسے ہی ہم بھی چلے جائیں گے۔ پتہ نہیں کون سی سانس آخری ہو گی اور گھڑی کی کون سی ٹک کے ساتھ ہماری آنکھیں ساکت ہو جائیں گی۔
جب زندگی کا دوسرا نام بے یقینی ہے اور آخرت کا دوسرا نام حق الیقین ہے تو ہم کیوں لمبی لمبی بے کار امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ جب یہ بے یقین سا سفر کبھی بھی ختم ہو سکتا ہے تو منزل پر اترنے کی تیاری کر لینی چاہیے۔ وہ مسافر کتنا بے وقوف ہو گا جو سفر پر تو روانہ ہو جائے لیکن سامان سفر ساتھ نہ رکھے۔

آپ کے اپنے آپ کی قبر کے اوپر پھول پھینک سکتے ہیں۔ قبر کے اندر کو جنت کے پھولوں سے بھرنے کے لیے آپ کو خود محنت کرنی ہے۔
اس موقع پر مجھے یہ جملہ بہت سننے کو ملا۔ "ماں باپ کے جانے سے زندگی میں بہت برا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔" تو میں نے سوچا۔ یہ بات مجھے پہلے کسی نے کیوں یاد نہیں کروائی۔ اگر اس خلا اور تنہائی کے احساس کا پہلے پتہ ہوتا تو میں امی جی کی اور خدمت کر لیتی۔ ان کی اور قدر کرتی۔ ان کو اور سکون پہنچا لیتی۔ اگر آپ کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہیں تو ان کی قدر کریں۔ اس سے پہلے کہ ان کی آنکھیں ایسی بند ہو جائیں کہ آپ کے بلانے پر بھی نہ کھلیں۔